عرب و ہند کے تعلقات

  • سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ممکنہ ہندوستان کے دورے کے پیش منظر میں

ازقلم: محمد عارف عمری، رکن مجلس عاملہ جمعیۃ علماء مہاراشٹر، استاد دار العلوم عزیزیہ ،میراروڈ ،ممبئی
8087175185

عرب وہند کے تعلقات کی تاریخ نہایت قدیم اور مثالی نوعیت کی ہے، اسلام کی آمد سے پہلے ہندوستانی مصالحہ جات، تلواریں (سیف مھند) اور نوع بہ نوع کے اقسام ہندوستان سے عرب تاجروں کے زریعہ لے جائے جاتے تھے، یہ تجارت وادی سندھ کے راستے سے خشکی کے سفر سے بھی ہوتی تھی اور بادبانی کشتیوں کے ذریعے سمندری راستے بھی استعمال میں لائے جاتے تھے، بحر عرب کے کنارے پر آباد بہت سی آبادیاں عرب تاجروں کے زریعہ آباد ہوئیں، گجرات کے ساحل سے لیکر مالابار تک ایسی آبادیوں کا ایک تسلسل قائم ہے
مذہب اسلام کی آمد کے بعد بھی عرب تاجروں کی ہندوستان آمد کا سلسلہ برقرار رہا، البتہ اس میں تجارت کے ساتھ ساتھ حسن اخلاق، معاملہ کی سچائی، دینی شعائر پر عمل پیرا ہونے کے سبب سے ہندوستان کے افق پر دین اسلام کی کرنیں بھی ضیا پاشی کرنے لگیں اور جگہ جگہ مذہب اسلام کو لوگ گلے لگانے لگے،
کچھ عرصہ بعد سندھ کے علاقے کے قزاقوں کی سرکوبی کے لئے محمد بن قاسم کی سربراہی میں عرب کا ایک لشکر ہندوستان میں وارد ہوا، اس فوجی لشکر نے اپنی فتوحات کا سکہ صرف انسانی جسموں پر نہیں بٹھایا بلکہ اپنے عادلانہ نظام حکومت کی وجہ سے ہندوستان کے عوام میں اس درجہ مقبول ہوگئے کہ جب محمد بن قاسم کو ہندوستان سے واپس بلایا گیا تو یہاں کی عوام نے فرط عقیدت ومحبت کی بنا پر اس کے اسٹیچو بنائے اور اس کے سامنے سر جھکانے لگے،
اس کے بعد صدیوں تک ہندوستان میں افغانی، ترکی اور منگول نسل کے لوگوں کی حکومت رہی، اس اثناء میں بھی عرب وہند کے تجارتی اور علمی تعلقات برابر استوار رہے یہ الگ بات ہے کہ حکومت کی ہنگامہ آرائی کے شور میں یہ تعلقات مدھم ضرور پڑگئے،
عرب کے بعض علاقے بالخصوص عمان کے تاجروں کی منڈیاں ہندوستان میں قائم تھیں، اس زمانے میں زیر زمین خزانوں سے دنیا نا واقف تھی، عرب میں پیدا ہونے والی کھجور عمانی تاجروں کے زریعہ ہندوستان لائ جاتی تھی اور ہندوستان کی مصنوعات حسب سابق عرب بھیجی جاتی تھیں، علمی تعلقات کا معاملہ یہ تھا کہ ہندوستان کے جلیل القدر عالم دین شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے بلاد حرمین کے علماء سے اکتساب فیض کیا، اور ان کے توسط سے حدیث شریف کی سب سے اعلی اور مستند کتاب بخاری شریف کے درس وتدریس کا سلسلہ ہندوستان میں قائم ہوا، بر صغیر کے طول و عرض میں بخاری شریف پڑھنے پڑھانے والا کوئی بھی سلسلہ سند ایسا نہیں ہے جو شاہ ولی اللہ کے مدنی استاد علامہ کردی رح کے واسطے سے الگ ہو
جزیرہ عرب میں آل سعود اور شریف مکہ کے درمیان آویزش سے ہندوستان کے مسلمان کچھ گھبرائے ہوئے تھے، جس کی بنا پر سرزمین حجاز کے تقدس کو بحال رکھنے کا مطالبہ لیکر ہندوستان کے کچھ وفود بھی عرب گئے، ملک عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے ان وفود کو اطمینان دلایا، زبانی بھی اور تحریری بھی، اس وفد میں تشریف لے جانے والے ہندوستانی عالم اور مصنف مولانا سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کے نام ملک عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کا ایک مفصل مکتوب دار المصنفین اعظم گڑھ کے آرکائیوز میں محفوظ ہے، جس کا اردو میں ترجمہ کرنے کی سعادت مجھ ناچیز کو حاصل ہوئی ہے ، تقریباً اٹھارہ برس قبل ماہنامہ معارف اعظم گڑھ کے ایک شمارے میں مکتوب ملکی کا اصل متن اور اس کا اردو ترجمہ شائع ہوا ہے،
ہندوستان کی آزادی کے ساتھ ساتھ ملک کی مذہبی بنیاد پر تقسیم ایک دلخراش سانحہ تھا، عام طور پر عالم عرب میں یہ مشہور کیا گیا کہ ہندوستان میں صرف غیر مسلم ہی بستے ہیں، مسلمان ہجرت کرکے مغربی یا مشرقی پاکستان منتقل ہوچکے ہیں، سعودی عرب کی تجربہ کار اور بابصیرت حکومت اس قسم کے پروپیگنڈہ سے متاثر نہیں ہوئی بلکہ اصل صورت حال کا جائزہ لیکر اس حقیقت سے باخبر ہوئی کہ ہندوستان کی مجموعی آبادی کا پندرہ فیصد حصہ مسلم قوم ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ملک میں رہنے کو ترجیح دی ہے، چنانچہ سعودی عرب نے اپنے تمام پروگراموں میں اس آبادی کو اہمیت دی، سعودی عرب کے زیر اہتمام جب رابطہ عالم اسلامی کی تشکیل عمل میں آئی تو ہندوستان میں بسنے والی کثیر مسلم آبادی کے پیش نظر ہندوستان سے دو ممبران اساسی کا انتخاب عمل میں آیاایک مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ اور دوسرے مولانا منظور احمد نعمانی رحمہ اللہ، اب ان دونوں مرحومین کی جانشینی مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی مدظلہ (صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ) اور مولانا سید ارشد مدنی مدظلہ (صدر جمعیۃ علماء ہند) کر رہے ہیں ، جبکہ بہت سے مسلم اکثریتی ممالک سے صرف ایک ایک نمائندے ہی لئے گئے ہیں ، اسی طرح حجاج کرام کی تعداد جب سال بہ سال بڑھنے لگی تو دنیا میں مسلم آبادی کے تناسب سے حجاج کا کوٹہ مقرر کیا گیا جس میں ہندوستان کو صف اول میں جگہ دی گئی،
سعودی عرب کے حکمرانوں نے عرب وہند کے قدیم تعلقات کو برقرار رکھنے کی ہمیشہ کوشش کی، ملک کی آزادی کے کچھ عرصہ بعد ہی ملک سعود بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ہندوستان کے وزیر اعظم آنجہانی جواہر لال نہرو کی دعوت پر ملک کا دورہ کیا اور ایک دو ہفتے تک ملک کے طول وعرض میں سیاحت کی، شاہ فیصل مرحوم نے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے قیام کے اول روز سے ہندوستانی طلبہ کو داخلہ کی سہولت فراہم کی، جس کے نتیجے میں سینکڑوں کی تعداد میں جامعہ اسلامیہ اور دیگر سعودی جامعات کے فارغین نہ صرف ہندوستان میں بلکہ پورے عالم میں امن و سلامتی اور دین اسلام کے مبلغ وسفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں، سعودی بادشاہ ملک عبد اللہ بن عبدالعزیز رح نے دہلی کی تاریخی شاہجہانی جامع مسجد کی مرمت اور تزیین کاری کے لئے از خود پیشکش کی لیکن حکومت ہند نے شکریہ کے ساتھ اس پیشکش کو مسترد کردیا،
سعودی عرب نے عالمی پیمانے پر بدلتے حالات پر گہری نظر رکھی ہے، اشتراکی پلیٹ فارم کے بکھر جانے کے بعد سعودی حکومت نے مغربی اتحاد اور بکھرے ہوئے اشتراکی ممالک سے حکمت عملی کے ساتھ متوازن تعلقات استوار کئے،اور عالمی کینوس میں انسانی ہمدردی، محبت ویگانگت اور مصیبت زدگان کی نصرت وحمایت کے لا زوال نقوش چھوڑے، سابقہ دنوں میں کرونا کی عالمی وبا کے موقع پر غیر معمولی مقدار میں ہمارے ملک کو آکسیجن کا عطیہ فراہم کیا، یہ خوشی کی بات ہے کہ ہندوستان کے وزیر اعظم عالی جناب دامودر نریندر مودی جی نے ایک طویل وقفہ کے بعد عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب سے تجارتی اور ثقافتی تعلقات کے تجدید نو کا آغاز کیا ہے ، جس کا سعودی عرب کی حکومت نے فراخ دلی کے ساتھ خیر مقدم کیاہے ، اسی سلسلے کو آگے بڑھانے کے لئے ہندوستان کی دعوت پر سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان آل سعود /حفظہ اللہ ورعاہ ایک موقر وفد کے ساتھ ہندوستان تشریف لا رہے ہیں، ہم ہندوستان کے باشندے اس پر مسرت موقع پر ولی عہدامین اور ان کے رفقاء کا پر تپاک خیر مقدم کرتے ہیں، اور دل کی گہرائیوں سے ان کو
اھلا وسھلا ومرحباکہتے ہیں ، اور یہ امید کرتے ہیں کہ اس دورہ کی برکت سے سعودی عرب اور ہندوستان کے درمیان بہتر تجارتی، علمی اور ثقافتی تعلقات استوار ہوں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے