تحریر: محمد ہاشم القاسمی
خادم دارالعلوم پاڑا ضلع پرولیا مغربی بنگال
فون نمبر := 9933598528
معروف عالم دین مفتی اعظم پاکستان، جامعہ دار العلوم کرانچی کے رئیس مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب طویل علالت کے بعد 18 نومبر 2022 ہفتہ کی شب 86 برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے. انا للہ وانا الیہ راجعون.
معتبر ذرائع سے ملی خبر کے مطابق مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب کی نماز جنازہ اتوار کی صبح نو بجے جامعہ دارالعلوم کراچی کے احاطے میں ادا کی جائے گی.
میڈیا کوآرڈینیٹر وفاق المدارس مولانا طلحہ رحمانی صاحب کے مطابق نماز جنازہ کے بعد جامعہ دارالعلوم کراچی کے قبرستان میں تدفین عمل میں لائی جائے گی۔
اس موقع پر علماء، طلباء، متوسلین و متعلقین سے کہا گیا ہے کہ نماز جنازہ میں شرکت کیلئے آنے والے حضرات جامعہ دارالعلوم کراچی کی جانب سے مرتب کردہ نظم کا خیال رکھیں، مولانا رحمانی نے مزید بتایا کہ قائدین وفاق المدارس نے تمام مدارس و جامعات اور تمام مسلمانوں سے مفتی اعظم پاکستان مرحوم کے درجات کی بلندی کیلئے خصوصی دعاؤں کی درخواست بھی کی ہے۔
حضرت مولانا مفتی رفیع عثمانی رحمۃاللہ علیہ 21 جولائی 1936 میں ہندوستان کے معروف علم کی نگری” دیوبند” ضلع سہارنپور میں پیدا ہوئے، اُن کا نام حکیم الامت مولانا سید شاہ اشرف علی تھانوی رحمۃاللہ علیہ نے رکھا ۔ اس وقت آپ کے والد حضرت مولانا شفیع عثمانی رحمۃاللہ علیہ دارالعلوم دیوبند کے مفتی اعظم تھے۔
آپ کی ابتدائی تعلیم اور حفظ قرآن کا آغاز دارلعلوم دیوبند سے ہوا ۔ تقسیم ہند 1947ء میں اپنے والد اور خاندان کے ہمراہ دیوبند سے ہجرت کرکے پاکستان گئے تب اس وقت آپ کی عمر 12 سال تھی.
1948ء میں مسجد باب السلام آرام باغ کراچی سے حفظ قرآن کی تعلیم مکمل کی۔ 1951ء میں اپنے والد مفتی محمد شفیع عثمانی رحمۃاللہ علیہ کی قائم کردہ جامعہ دارالعلوم کراچی نانک واڑہ سے درس نظامی کی تعلیم کے لئے داخلہ لیا ،آپ کا شمار دارالعلوم کراچی کے اولین طلبا میں ہوتا ہے۔ جہاں سے 1960ء میں عالم فاضل، مفتی کی تعلیم مکمل کرنے کے ساتھ پنجاب یونیورسٹی سے فاضل عربی کی ڈگری حاصل کی ۔
مفتی محمد رفیع عثمانی رحمۃاللہ علیہ نے صحاح ستہ مندرجہ ذیل عبقری شخصیات، اور ماہرین حدیث کے سامنے زانوئے ادب طے کر کے حاصل کی. صحیح بخاری مولانا رشید احمد لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ سے، صحیح مسلم مولانا اکبر علی سہارنپوری رحمۃاللہ علیہ سے، موطا امام محمد اور سنن نسائی مولانا سحبان محمود رحمۃاللہ علیہ سے ، سنن ابو داؤد مولانا رعایت اللہ رحمتہ اللہ علیہ سے اور جامع الترمذی مولانا سلیم اللہ خان رحمۃاللہ علیہ سے پڑھی۔ جبکہ مولانا محمد حقیق رحمۃاللہ علیہ سے سنن ابن ماجہ کے بعض حصے پڑھے، اور تکمیل مولانا ریاضت اللہ رحمتہ اللہ علیہ نے کروائی۔
مفتی محمد رفیع عثمانی رحمۃاللہ علیہ کو علامہ حسن بن محمد المشاط، مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمۃاللہ علیہ، ان کے والد مفتی محمد شفیع دیوبندی رحمۃاللہ علیہ، حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی مہتمم دارالعلوم دیوبند، شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی مہاجر مدنی رحمۃاللہ علیہ اور مولانا ظفر احمد عثمانی رحمۃاللہ علیہ سے اجازتِ حدیث حاصل تھی.
مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب رحمتہ اللہ علیہ باضابطہ تدریس کا آغاز جامعہ دارالعلوم کراچی سے کیا، 1971میں دارالافتاء اور دارالحدیث کی ذمہ داریاں آپ کے سپرد ہوئی، 1976میں آپ کے والد مفتی شفیع عثمانی رحمہ اللہ کے انتقال کے بعد جامعہ دارالعلوم کراچی کے انتظام وانصرام آپ کے کندھوں پر آیا، آپ کی شبانہ روز کی انتھک جدوجہد ہی کا نتیجہ تھا کہ جامعہ دارالعلوم کراچی کا شمار آج پاکستان کی منفرد، منظم اور بڑی جامعات میں ہوتا ہے۔
دار العلوم کراچی میں مفتی محمد رفیع عثمانی رحمۃاللہ علیہ نے 1380 ھ سے 1390ھ تک درس نظامی سے متعلق تمام کتابیں پڑھائیں۔ 1391ھ سے انھوں نے مدرسہ میں حدیث اور افتاء کے علوم پڑھائے۔ انھوں نے دار العلوم کراچی میں صحیح مسلم کا درس بھی دیا ہے۔ 1980ء کی دہائی کے آخر میں، مفتی محمد رفیع عثمانی نے سوویت کے خلاف جہاد میں جماعت حرکت الجہاد الاسلامی (ایچ یو جے آئی) کے ساتھ حصہ لیا۔ مگر انھوں نے ہمیشہ طلباء کو سیاست سے دور رہنے کو کہا.
سنہ 1995 مفتی اعظم ولی حسن ٹونکی رحمہ اللہ کا انتقال ہوا تو آپ کی اعلیٰ ترین علمی خدمات کے اعتراف پر مشاہیر علما پاکستان نے متفقہ طور پر مفتی اعظم پاکستان کا عہدہ آپ کے سپرد کردیا اور آپ نے ہر موقع پر قوم کی مکمل اور بھرپور رہنمائی فرمائی۔
حضرت مفتی محمد رفیع عثمانی کل پاک علماء کونسل، اسلامی نظریاتی کونسل، رویت ہلال کمیٹی پاکستان اور حکومت سندھ کی زکوٰۃ کونسل کے رکن تھے۔ آپ شرعی عدالتی بنچ، عدالت عظمیٰ پاکستان کے مشیر تھے۔ آپ نے وفاق المدارس العربیہ کی مجلس ممتحنہ کے رکن کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ نیز این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اور جامعہ کراچی کے سنڈیکیٹ کے رکن، اور وفاق المدارس المدارس العربیہ کی مجلس منتظمہ کے رکن تھے۔
آپ نے گراں قدر تیس سے زائد کتابیں تصنیف کیں وہ یہ ہیں 1فتاویٰ دارالعلوم کراچی (امداد السائلین) 2نوادر الفقہ فقہی رسائل اور منتخب فتاویٰ کا مجموعہ 3درسِ مسلم(تقریر صحیح مسلم)4حیاتِ مفتیٔ اعظم(سوانح حضرت مفتی شفیع عثمانیؒ)5میرے مُرشد حضرت عارفیؒ 6اصلاحی تقرریں7مفتی بننا آسان نہیں 8 فقہ میں اجماع کا مقام9رفیقِ حج10حج کے بعد زندگی کیسے گزاریں ؟11حاجیوں کو چندنصیحتیں 12علمِ الصیغہ (اردو)13علاماتِ قیامت اور نزولِ مسیح علیہ السلام14یہ تیرے پراسرار بندےجہادِ افغانستان کی
ان کہی داستان 15انبیاء علیھم السلام کی سرزمین میں(تین اسلامی ملکوں کا سفرنامہ) 16کتابتِ حدیث عہدِ رسالت اور عہدِ صحابہؓ میں 17-عورت کی سربراہی کی شرعی حیثیت18دو قومی نظریہ
جس پر پاکستان بنا19یورپ کے تین معاشی نظام جاگیرداری ، سرمایہ داری اور اشتراکیت اور ان کا تاریخی پسِ منظر20اسلام میں غلامی کا تصور21اختلاف رحمت ہے – فرقہ بندی حرام22مسلکِ دیوبند کسی فرقے کا نام ہیں – اتباعِ سنت کا نام ہے23سنت کا مقام اور فتنہ انکارِحدیث24سنت کا مفہوم اور اتباعِ سنت کی اہمیت25مستحبات اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ اعمال26
کام چوری – اللہ کا ایک عذاب27
توبہ کی حقیقت و اہمیت28
ماہِ رمضان – بخشش کا ذریعہ29
جنت کا آسان راستہ30
تاریخ کے دریچوں سے31
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃاللہ علیہ کے خلیفۂ خاص عارف باللہ حضرت ڈاکٹر عبدالحی عارفی رحمۃاللہ علیہ سے آپ کا اصلاحی تعلق رہا اور شیخ کے فیوض و برکات اور ان کے ارشادات اور اصلاحی مشوروں پر مکمل عمل پیرا ہو کر آپ نے سلوک کے منازل طے کیے اور اپنے شیخ کی نظر میں خصوصی مقام پا کر خلعتِ خلافت سے نوازے گئے ، اس نعمت کو آگے منتقل کرنے کے لیے دیگر علمی و انتظامی مصروفیات کے باوجود عامۃ الناس کی اصلاح و تربیت کی ذمے داری بھی آپ بڑے حوصلے اور تدبر کے ساتھ انجام دی۔
فتوی دینے میں آپ کا طریقۂ کار وہی تھا جو آپ کے عظیم والدِ ماجد کا تھا ، افتا میں آپ نہایت محدثانہ احتیاط اور اعلی درجے کی فقیہانہ روا داری سے کام لیتے ، جواب قرآن وسنت اور فقہاے کرام کی تعبیر کے مطابق واضح عبارت کے ساتھ دیتے ، جواب میں نہایت غور و فکر سے کام لیتے ، یہی وجہ ہے کہ کبھی ایک ایک فتوے میں کئی دن لگ جاتے ، آپ نے ہزارہا فتویٰ جاری فرمائے ہیں ، 1999 کے اعداد و شمار کے مطابق آپ کے خود نوشت فتاوی کی تعداد 3411 اور تصدیق کردہ فتاویٰ کی تعداد 4267اور مجموعی تعداد 7678 ہیں۔
حضرت مفتی رفیع عثمانی رحمۃاللہ علیہ کے علم و فضل سے دنیا کے بہت سے ممالک کے مسلمانوں کو استفادے کا موقع ملا، وقتا فوقتا آپ کو جن علاقوں میں دورہ کرنے کا موقع ملا ان میں برِ اعظم ایشیا، برِ اعظم افریقہ ، برِ اعظم یورپ، برِ اعظم امریکا کے تقریباً 50 ممالک شامل ہیں۔
علم و عمل کا یہ روشن اور تابندہ آفتاب ہندوستان کے دیوبند سے طلوع ہو کر دنیا کے بیشتر حصے کو اپنی کرنوں سے روشن کرتے ہوئے پاکستان میں ہمیشہ کے لئے غروب ہو گیا. ع
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے.