سونار بنگلہ (قسط نمبر 4)

پڑوسی ملک بنگلہ دیش کا ایک سفر

گزشتہ سے پیوستہ

ازقلم: آفتاب ندوی، دھنباد، جھا رکھنڈ

تقریبا پینتالیس پچاس منٹ کے بعد ھملوگ ریڈسن بلیو ھوٹل پہنچے ،یہ چاٹگام کا ایک مشہور پنچ ستارہ ھو ٹل ھے ، تمام مہمانوں کے قیام کا نظم اسی ھوٹل میں تھا ، مغرب کے بعد بھوک کااحساس ھوا ، ھم لوگوں نے دوپہر میں کھانا نہیں کھایا تھا ، آجکل ساری کمپنیاں بخیل بن گئ ہیں ، پہلے درمیانی سفر میں کچھ ہی گھنٹوں کے اسٹے پر بھی ایر لائنس کی طرف سے ھوٹل ملتا تھا ، اب دس دس گھنٹے اسٹے ھوجائے ، ایرپورٹ کی تیز اے سی میں آپ ٹھٹھرتے رہیں ایر لائینس کی طرف سے ھوٹل نہیں ملے گا ، آپ
چاہیں تو فلائٹ میں ڈالر اور پاونڈ میں چائے ناشتہ لیں ، اگر کوئی ایر لائنس حاتم طائی کی قبر کو لات مارنے کا ارادہ بھی کرتی ھے تو ،، کمینوں اور کنجوسوں کے دسترخوان پر یتیم ،، کا منظر ھوتا ھے ، ایر لائنس نے برگر کا ناشتہ پیش کیا ، میں نے یہ ناشتہ نہیں لیا ، میں نے چائے یاکافی کیلئے کہا تو جواب ملا سوری ، میں ہینڈ بیگ میں بھنا ھوا چنا ، سیب یا کوئی اور زاد سفر ضرور رکھتا ھوں ، شوگر کی وجہ سے کبھی کبھی بھوک پریشان کرتی ھے ، ایسے موقعوں پر یہ زادسفر خوب کام آتا ھے ،،
میزبانوں نے بتادیا تھا کہ یہاں ھوٹل میں چائے ناشتہ کھانا جو بھی چاہئے بلاتکلف ریسٹورینٹ میں جاکر لے لیں یا روم میں منگوالیں ، ھم لوگوں نے ریسٹورینٹ ہی میں جاکر کچھ لینا مناسب سمجھا ، مینو لاکر رکھدیا گیا ، کافی دیرتک ھم لوگ مینو کا مطالعہ کرتے رہے ، کوئی ڈش تین ھزار کا کوئی اس سے زیادہ کا ، بعض بعض ڈشیں ساٹھ باسٹھ سو کی تھیں ، مشورہ کے بعد ایک سلاد اور عربی ٹائپ کے ایک ڈش کا آرڈر دیا گیا ، کھانے کے بعد بل پیش کیا گیا جو چار ھزار یابیالیس سو کا تھا ،، اسکے بعد معلوم ھواکہ ڈاکٹر ابو رضاء ندوی کے گھرپر تمام مہمانوں کی دعوت ھے ، سب کو وھاں چلنا ہے ، ابھی تک ھماری ملاقات ان سے نہیں ھوئی تھی ، ابو رضاء صاحب ان لوگوں میں سر فہرست ہیں جنکا اس یونیورسٹی کو کھڑا کرنے میں بنیادی رول ھے اور ابھی یونیورسٹی ٹرسٹ کے چیئرمین ہیں ، سید خلیل سلمہ اللہ سے ہم نے کہا چلا جائے ، وہاں پہنچے تو دیکھا مہمانوں اور میزبانوں کاہجوم ھے ، سعودی عرب کے شیخ مصلح صدر نشین ہیں ، سلام ومصافحہ کے بعد تعارف ھوا ، جب بتایا گیاکہ یہ خلیل حسنی مولانا ابو الحسن ندوی کے پوتے ہیں تو حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کا بلند لفظوں میں شیخ نے تذکرہ کیا ، پروفیسر ابو رضاء کے شاھی وعربی دسترخوان سے ھم لو گوں کے نپٹنے کے بعد ڈاکٹر اکرم صاحب ایر پورٹ سے سیدھے یہیں پہنچے ، مل کر ڈاکٹر صاحب کو بھی ا ور ھم لوگوں کو بھی بے انتہا خوشی ھوئی ، ڈاکٹر صاحب ہم لوگوں سے ایک دن قبل ڈھاکہ پہنچ گئے تھے ، وہاں انکے متعدد لیکچر ھوئے ، جب ڈاکٹر صاحب ڈھاکہ میں تھے تو چاٹگام سے ھماری بات ھوئی تھی میں نے کہا ھم لوگ آپکے استقبال کیلئے پہنچے ھوئے ہیں ، ڈاکٹر صاحب کہنے لگے ، نہیں ، ھم سب بنگلہ دیش آئے ہیں اور بنگلہ دیش پہلے ھم پہنچے آپ لوگوں کے استقبال کیلئے ، اسکے بعد یکم نومبر تک مسلسل چار ساڑھے چار روز ڈاکٹر صاحب کا ساتھ رھا ،،

جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے