تحریر:سرفراز احمد قاسمی حیدرآباد
اس وقت ہمارے ملک کی جوحالت ہےوہ کسی سے مخفی نہیں،ہرآنےوالادن انتہائی بھیانک ہوتاجارہاہے،بھارت کے مسلمان اس وقت جتنی بےچینی،تشویش اورخوفناک مرحلے سے گذررہےہیں شایداتنی سنگین اور مایوس کن حالت اس سے پہلے کبھی نہیں تھی،آزاد بھارت کی اگربات کی جائے تو 70سال کے عرصے میں مسلمانوں پراتنا براوقت کبھی نہیں آیا،حالات ہمیشہ اور وقفے وقفے سے آتے رہے ہیں لیکن اسطرح کی صورتحال کبھی نہیں تھی،ایک توکرونا وائرس کاخوف ہے جس کاشکارہماراملک بھارت سمیت پوری دنیا ہے،اچھے اچھے ملک اور ترقی یافتہ حکومتیں بھی اس وائرس اور”عذاب خداوندی”کے سامنے بے بس ہے،ہندوستان میں یہی صورتحال ہے18/19دن سے پورا ملک لاک ڈاؤن ہے اور ہرطرف افراتفری کا عالم ہے،لیکن اسکے علاوہ ایک دوسری پریشانی بھارتی مسلمانوں کے ساتھ یہ ہے کہ اب یہاں منظم انداز میں نیشنل میڈیا کھلے عام جھوٹ بولکر مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تعصب کی اندوہناک فضا پیداکررہاہے،یہ صورتحال بڑی سنگین اور تشویشناک ہے،یہ سب جو کچھ ہورہا ہے یہ اچانک یاکوئی اتفاقی معاملہ نہیں بلکہ ایک منظم سازش اور منصوبہ بند پلان کے تحت کیاجارہاہے،بھلا ان معاملوں میں میڈیا کواتنی دلچسپی کیوں ہے؟اسٹوڈیو میں یہ نفرت کے سوداگر حرام خوراور دال اینکر آخر اتنی گھٹیا حرکت کیوں کر کررہے ہیں؟کیایہ لوگ نفرت کی کھیتی کرکے ایک بار پھر ملک کوتقسیم کرنا چاہتے ہیں؟یہ اور اس جیسے درجنوں سوالات ہیں جس پر ہمیں غور وفکر کرنے اور ائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے،لیکن پھرسوال یہ ہے کہ کیا ہمارے پاس ان چیزوں پرغور وفکر کرنے کاوقت ہے؟آزادی کے بعد سے لیکر اب تک ہم نے ان چیزوں پرغوروفکرکیا اور کوئی منظم لائحہ عمل طے کیا؟آپ کہہ سکتے ہیں کہ صاحب اسکی ضرورت ہی پیش نہیں آئی،لیکن یہ جواب آپکا بالکل غلط ہے،غلط اسلئے بھی ہےکہ 70سال کے طویل عرصے
میں ایسے بےشمار مواقع آئے لیکن ہم نےان چیزوں کواہمیت نہیں دی حالانکہ ہزاروں فسادات کی شکل میں زخموں کی ایک طویل لسٹ دی گئی،اتناکچھ دیا گیاکہ شاعر کی زبانی یہ کہاجاسکتاہےکہ
ایک دو زخم نہیں جسم ہے سارا چھلنی
دردبے چارہ پریشاں ہے کہاں سے اٹھے
لیکن ہم نے ہرغم بھلادئے اوران غموں اور تکالیف سے شاید کوئی سبق لینے کی کوشش نہیں کی،جسکا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے
پہلے حکومت اور سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کوگمراہ کرتیں تھیں لیکن آج ملک کی تمام ایجنسیاں، ادارے،حکومت اورمیڈیا سب مل کر نفرت کے بیج بورہی ہے،میڈیا اور ذرائع ابلاغ تو جمہوریت کاایک اہم ستون سمجھاجاتاہے، اسکام حق وصداقت پرمبنی خبریں اور حالات کو لوگوں کے سامنے پیش کرنا ہوتاہے،حقیقت حال سے لوگوں کوباخبر کرنا ہوتاہے،حکومت کی ناکامیوں اور خامیوں کو لوگوں کوبتانا ہوتاہے لیکن یہ کیا یہ توکبھی اپنے عدالت کاکام انجام دیتاہے تو پولس کاکردار ادا کرتاہے کبھی جھوٹ اوردغا بازی اور مکاری کو فروغِ دیکر ملک میں نفرت پھیلاتاہے،اور پھراس نفرت کانتیجہ کتنا سنگین ہوتا جارہا ہے کہ اب اسکی وجہ سے معصوموں کاقتل کیاجارہاہے انکے اوپر ظلم وستم کاپہاڑ توڑا جارہاہے اور اب صورت حال یہ مسلمانوں کاوجود اس ملک کےلئے چیلنج بن گیا،اب اگرایسی صورت میں بھی ہم خاموشی اختیار کرتے ہیں مستقبل کےلئے کوئی لائحہ عمل طے نہیں کرتےاور ماضی میں پیش آئے حوادث اورسانحہ سے سبق حاصل نہیں کرتے توآنے والے دنوں میں حالات اور بدسے بدتر ہو نگے،پھر خدانخواستہ وہی ہوگا جواندلس میں مسلمانوں کے ساتھ ہوا،وہ اندلس(اسپین)جہاں مسلمانوں نے تقریبا ایک ہزار سال تک حکومت کی لیکن ایک وقت ایسا بھی آیاکہ وہاں مسلمانوں کواپنی شناخت محفوظ رکھنا مشکل ہوگیا،لاکھوں کروڑوں لوگوں کوقتل کردیاگیایاپھر انھیں ملک بدر کردیا گیا،مساجد کوچرچ اور گرجا گھروں میں تبدیل کردیاگیا،اورکیاکچھ وہاں کے مسلمانوں کے ساتھ ہوا انشاءاللہ اسکوتفصیل سےاگلے ہفتےکی تحریر میں پیش کروں گا،کیاہندوستان میں بھی ہمارےساتھ یہی سب ہوگااب سوال یہ بھی ہے کہ ہمیں اب ایسے وقت میں کیا کرنا چاہئے؟ایک تویہ ہے کہ خاموشی سے اس ہولناک مناظر ک
ودیکھا جائے اورپھر اپنی باری کاانتظار کیاجائے،اور دوسری صورت یہ ہے کہ ہم آنے والے چیلنجز سے مقابلے کےلئے تیار رہیں،اوراسکی تیاری کریں،دشمن جب مسلح اور پورے سازو سامان کے ساتھ ہو ہتھیار بند ہوپھر ایسے صورت میں آپ کوبھی اسی طرح کی تیاری کرنی ہوگی تاکہ دشمن سے مقابلہ ہوسکے،اس وقت کی صورتحال یہ بھی ہے کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی اور سیاسی لیڈر مسلمانوں مسلمانوں کی حمایت میں آنےکےلئے تیارنہیں،مسلمانوں کادفاع کرنے کی پوزیشن میں نہیں،پھرجمہوریت میں آخری سہاراعدالت ہوتی ہےلیکن عدالتیں بھی اپناوقار کھوچکی ہیں،اوراب ہم عدالت پربہت زیادہ بھروسہ بھی نہیں کرسکتے،میڈیا اور ذرائع ابلاغ لٹی پٹی اور کمزور وناتواں لوگوں کاسہارا ہوتاہے جولوگوں کے حقوق کےلئے جدوجہد کرتاہے،لیکن اب تو اس ملک کا میڈیا اپنا ضمیرخود گروی رکھ چکاہے اور اس سنگھی حکومت کی”لونڈی”بناہواہے اور پیسے کے نشے میں حکومت کے اشارے پرنفرت وعداوت کی فضا بنارہاہے،تھوڑی دیر کےلئے آپ سوچئے کہ جب ہوا میں زہر گھول دیاجائے،ماحول کو نازک بنادیاجائے،تو پھر ایسی مسموم فضا میں آپ امن وسکون سے کیسے رہ سکتے ہیں؟ آپ کے اور ہمارے روزی روزگار اور تعلیم کےلئے گھروں سے کیسے نکل سکتے ہیں،بعض جگہوں سے خبریں آرہی ہیں کہ مسلم دکاندار کالوگوں نے بائیکاٹ کردیاانکا سامان لینے سے انکار کردیا نوبت جب یہاں تک پہونچ جائے توکیاہم اور آپ امن وسکون کی فضاء میں سانس لے سکیں گے؟ذرا سنجیدگی سے سوچئے،کیاان حالات میں بھی ہم خود کو مامون ومحفوظ سمجھیں گے؟نہیں نا،اب اسی طرح کاماحول ملک کے مختلف شہروں میں بنایا جارہاہے،کیاہم اب بھی خواب غفلت میں رہیں گے؟
اور یہ چیزیں دھیرے دھیرے عام ہوتی جارہی ہے،ایسے میں ہمیں کیاکرنا ہے،سوچناضروری ہے کیونکہ سوچنا اور غور وفکر کرناوقت کی اہم ضرورت ہے،ملک کی فضاء جوبڑی تیزی سے تبدیل ہورہی ہے،اس میں میڈیا اورٹی وی چینل اہم کردار اداکررہے ہیں،ہندی انگلش اخبارات سے لیکرالیکٹرانک میڈیا اور ٹی چینلس دل کھول کرمسلمانوں کے خلاف،جھوٹ، الزام تر اشی اورنفرت پھیلانے میں لگے ہیں،کہنے کوتو بھارت میں ہماری 30کروڑ آبادی ہے لیکن ہماری پاس قومی سطح کاکسی بھی زبان میں کوئی اخبارتک نہیں ہے،آخرکیوں؟ کیامسلمانوں کے پاس مال دولت نہیں ہے؟مسلمان بھارت میں ہزاروں دینی اداروں کی کفالت کرتے ہیں لاکھوں مساجد کاخرچ مسلمانوں کے تعاون سے پوراہوتاہے،سینکڑوں تنظمیں،ٹرسٹ اورویلفیر سوسائیٹیاں مسلمانوں کے دم سے پھل پھول رہی ہیں،پھر ہمارے پاس "میڈیا ہاوس”اور قومی سطح کےاخبارکیوں نہیں ہوسکتے؟ اسکاجواب یہ ہے کہ ہم نے ان چیزوں کوسنجیدگی سے لیاہی نہیں،اوراسکی اہمیت کااندازہ کیاہی نہیں،اب بھی کچھ نہیں بگڑا،ہمیں ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے صاحب استطاعت مسلمان آگے بڑھیں،قدم بڑھائیں اپنے سرمائے بطور تجارت یافی سبیل اللہ خرچ کرنے کاعزم کریں،ایک مضبوط میڈیاہاوس کے فوری قیام پرتوجہ دیں تاکہ میڈیا کے ذریعے پھیلائے جارہے جھوٹ کوبے نقاب کرکے سچ اورنفرت کی جگہ امن ومحبت کا پیغام عام کیاجاسکے،مسلم تنظمیں اور انکے ذمہ داران بھی اس پرغوروفکرکریں اور لائحہ عمل طے کریں،اوراس پرعمل آوری کرکے یقینی بنائیں،آج پوری دنیاپرجولوگ حکومت کررہے ہیں انکو دیکھئے،سمجھئے پڑھئے تومعلوم ہوگاکہ میڈیاسمیت تمام اہم اداروں اور ایجنسیوں پرانکا کنٹرول ہے،ہمیں ایک نیوز کےلئے انکی ایجنسی اورانکےادارے کی مددکی ضرورت پڑتی ہے،پھرانکا ادارہ انکی ایجنسی ہمیں جوفراہم کردے بس اسکو مانے بغیرکوئی چارہ نھیں،اسلئے ہمیں اس پرتوجہ دینا ہوگا،ہرگھر میں ٹی وی ہے،ہرایک کے پاس موبائل ہے خبروں کی ضرورت ہرایک کوہے دنیامیں کیاہورہاہےملک میں کیا ہورہاہے ان حالات سے باخبر اورسچی خبروں،معیاری اورایماندارانہ صحافت،قوم کی تعمیر کےلئے ہمیں میڈیاہاؤس کی شدید ضرورت ہے،جسکے لئے ہمیں پیش رفت کرنی ہوگی اوراسکو یقینی بنانا ہوگا،ورنہ توپھر ہم صرف شکوہ شکایت ہی کرتے رہیں گے اوراسکا
کوئی فائدہ نہیں، ابھی توہمارے پاس شکوہ شکایت کا موقع بھی لیکن حالات اتنے سنگین ہوتے جارہے ہیں کہ کل شاید ہمارے پاس ان شکایتوں کےلئے بھی موقع نہ ہو،ہم اپنی غیرضروری اورفضول خرچیوں پرکنٹرول کرتے ہوئے بھی اسکو عملی جامہ پہنایا جاسکتا ہے، بہت سےلوگ اس کشمکشِ میں ہیں کہ یہ کام کس طرح ہوگا،زندہ قومیں اپنے وجود کےلئے آخری حد تک لڑتی ہیں اوراپنی بقا کےلئے سامان فراہم کرتی ہیں لیکن مردہ قومیں تماشائی ہوتی ہیں اوروہ اپنی تباہی وبربادی کاتماشا خوداپنی آنکھوں سے دیکھتی ہیں،مسلمانوں کو مایوس ہرگز نہیں ہوناچاہیے،مایوسی کفرہے،اسلئےہمیں پوری قوت کے ساتھ یہ عزم مصمم کرناہوگاکہ ہمیں اپنی بقاء کےلئے اعلی اورمعیاری تعلیم گاہیں،
کالج ویونیورسیٹیاں بھی ہوں،دینی ادارے اور دینی درسگاہیں بھی ہوں،مساجد بھی ہوں اورمدارس ومکاتب بھی، اسکے علاوہ قومی سطح کے معیاری اخبارات اورمیڈیاہاؤس بھی ہو، آپسی اتحادو اتفاق کی جدوجہد بھی چلتی رہے آئیے ہم سب مل کراسکےلئے کوشش کریں،اورشاعر کےاس پیغام کے ساتھ میدان میں اتریں کہ
انجام اسکے ہاتھ ہے آغاز کرکے دیکھ
بھیگے ہوئے پروں سے ہی پروازکرکے دیکھ