ازقلم: شاہنواز فاروقی
برصغیر کی ملتِ اسلامیہ نے اسلام کو صرف ایک نظریہ نہیں سمجھا بلکہ اس نے اسلام کو ایک بہت بڑے تہذیبی تجربے میں ڈھال دیا۔
اسلام اور امتِ مسلمہ ساری دنیا کے مسلمانوں کا مسئلہ ہیں، مگر برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ نے اسلام اور امت سے ایسی وفاداری نبھائی ہے کہ جیسے اسلام کا ظہور عالمِ عرب میں نہیں، برصغیر میں ہوا ہو، اور امت کے تصور نے بھی اسی سرزمین پر جنم لیا ہو۔ تاریخ کے طویل سفر میں بالآخر وہ مرحلہ بھی آیا جب اہلِِ عرب نے مکہ اور مدینہ کی طرف دیکھنا چھوڑ دیا اور وہ واشنگٹن اور ماسکو کی جانب دیکھنے لگے، مگر برصغیر کے مسلمان مکہ اور مدینہ کو اس طرح سینے سے لگائے ہوئے ہیں جیسے وہ ہمیشہ سے ان دو مقدس شہروں کے وارث چلے آرہے ہیں۔
مؤرخین نے حضرت مجدد الف ثانیؒ اور جہانگیر کے درمیان ہونے والی کشمکش کو مختلف زاویوں سے دیکھا ہے، لیکن اس کشمکش کا مرکزی نکتہ اسلام کی عظمت و جلال اور امتِ مسلمہ کے جداگانہ تشخص پر اصرار تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ مجدد الف ثانیؒ نے یہ اصرار اُس وقت کیا جب سیاسی اور معاشی طاقت مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی اور مسلمان آسودہ حال تھے، لیکن حضرت مجدد الف ثانیؒ کو اس حال میں بھی چین نہیں تھا اور انہوں نے جہانگیر سے مطالبہ کیا کہ اسلام کی اصل قوت اور امتِ مسلمہ کی پوری شوکت کو ظاہر کرو۔ مجدد الف ثانیؒ کے اسی کارنامے کی بنیاد پر اقبال نے اپنی نظم ’’پنجاب کے پیرزادوں کے نام‘‘ میں حضرت مجدد الف ثانیؒ کو شاندار الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ اقبال نے فرمایا ہے:
حاضر ہوا میں شیخ مجدد کی لحد پر
وہ خاک کہ ہے زیرِ فلک مطلع ِانوار
اس خاک کے ذرّوں سے ہیں شرمندہ ستارے
اس خاک میں پوشیدہ ہے وہ صاحبِ اسرار
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفسِ گرم سے ہے گرمیِ احرار
وہ ہند میں سرمایۂ ملت کا نگہباں
اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار
کی عرض یہ میں نے کہ عطا فقر ہو مجھ کو
آنکھیں مری بینا ہیں، ولیکن نہیں بیدار
آئی یہ صدا سلسلۂ فقر ہوا بند
ہیں اہلِ نظر کشورِ پنجاب سے بیزار
عارف کا ٹھکانہ نہیں وہ خطہ کہ جس میں
پیداکلہِ فقر سے تھا ولولۂ حق
طرّوں نے چڑھایا نشہ ’خدمتِ سرکار‘
اورنگ زیب عالمگیر اور داراشکوہ کی آویزش کو بعض کم فہم لوگ دو شہزادوں کے درمیان اقتدار کی جنگ اور روایتی جنگ سمجھتے ہیں، لیکن ایسا نہیں تھا۔ داراشکوہ ہندو ازم سے اس حد تک متاثر تھا کہ اُس نے ہندوئوں کی مقدس کتاب ’گیتا‘ کو قرآن سے برتر قرار دیا ہے۔ وہ ہندو ازم اور اسلام کو فلسفیانہ اور دانش ورانہ سطح پر آمیز کرنے اور ایک نیا مذہبی تجربہ خلق کرنے کا خواہش مند تھا۔ اس کے زیراثر ہندوئوں کو یہ جرأت ہوگئی تھی کہ وہ سرِعام مساجد کو شہید کردیتے تھے۔ اکبر کی جانب سے دینِ الٰہی کی ایجاد ایک بھونڈی کوشش تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اکبر کی علمی حیثیت صفر تھی، مگر داراشکوہ کی علمی شخصیت توانا تھی اور وہ اکبر کے تجربے کو علمی اور تخلیقی سطح پر دہرانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ امتِ مسلمہ کا جداگانہ تشخص کمزور ہوجاتا۔ پھر برصغیر میں نہ کوئی شاہ ولی اللہؒ پیدا ہوتے، نہ برصغیر میں مولانا اشرف علی تھانویؒ، مولانا مودودیؒ اور اقبالؒ کا جنم ہوتا، اور نہ روئے زمین پر پاکستان نام کی ریاست موجود ہوتی۔ اورنگ زیب داراشکوہ کے حاکم بننے کے مضمرات کو سمجھتا تھا، چنانچہ اُس نے اسلام اور مسلمانوں کی بقا و سلامتی کے لیے داراشکوہ کی مزاحمت کی اور وقت کے بڑے بڑے علما اور صوفیہ نے اورنگ زیب کا ساتھ دیا۔
خلافتِ عثمانیہ پوری امتِ مسلمہ کی میراث تھی، مگر جب اسے خطرات لاحق ہوئے تو کہیں اور کیا مکہ اور مدینہ میں بھی سناٹے کا راج تھا، بلکہ عربوں نے خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے پر خوشیاں منائیں، اس لیے کہ عرب ترکوں کے سیاسی غلبے کو پسند نہیں کرتے تھے۔ اس غلبے نے عربوں سے ان کی فوقیت اور برتری چھین لی تھی۔ لیکن برصغیر کی ملتِ اسلامیہ بیدار اور مضطرب تھی۔ یہاں تک کہ اس نے ’’خلافت تحریک‘‘ کی صورت میں ایک عظیم الشان مذہبی، سیاسی، تہذیبی اور تاریخی تجربہ خلق کر ڈالا۔ یہ تحریک اتنی زوردار تھی کہ گاندھی جیسا ہندو رہنما بھی اس کا نوٹس لیے بغیر نہ رہ سکا۔ اس تحریک نے خلافت ِ عثمانیہ کو لاحق خطرات پر احتجاج کیا، رائے عامہ کو بیدار کیا، یہاں تک کہ ترکی کی مالی امداد کا بندوبست کیا۔ اس تحریک کے دوران یہ قول پورے برصغیر میں گونجتا رہا:
’’بولیں اماں محمد علی کی
جان بیٹا خلافت پہ دے دو‘‘
بلاشبہ یہ تحریک کامیاب نہ ہوسکی، لیکن نظریے، جذبے اور تہذیبی و تاریخی سطح پر اس نے بے مثال کامیابی حاصل کی۔ اس تحریک کا ایک اثر یہ ہے کہ ترکی میں پاکستان اور اہلِ پاکستان کے لیے بے پناہ محبت پائی جاتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ترکی کے لوگ پاکستان کو خلافت تحریک کا امین سمجھتے ہیں۔
برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ کا ایک تجربہ 1920ء میں برپا ہونے والی تحریک ِ ہجرت ہے۔ اس تحریک کا مرکزی خیال یہ تھا کہ ہندوستان اب دارالاسلام نہیں رہا بلکہ برصغیر اب مسلمانوں کے لیے دارالکفر ہے اور مسلمانوں کو دارالکفر سے دارالاسلام کی طرف ہجرت کرنی چاہیے۔ چنانچہ 1920ء میں دو، چار، دس ہزار لوگوں نے نہیں بلکہ پانچ لاکھ لوگوں نے ہندوستان کے مختلف علاقوں سے افغانستان کی طرف ہجرت کی۔ ان میں سے بہت سے لوگ راستے ہی میں جاں بحق ہوگئے، اور جو لوگ افغانستان پہنچنے میں کامیاب ہوئے وہ کچھ عرصے بعد واپس لوٹنے پر مجبور ہوگئے۔ لیکن اس ہجرت میں برصغیر کے مسلمانوں نے اسلام کے لیے بے پناہ قربانیاں دیں اور بے شمار صعوبتیں جھیلیں، لاکھوں لوگوں نے اپنی زمینیں اور جائدادیں چھوڑیں، بہت سوں نے نوکریاں ترک کیں۔
قائداعظم کہنے کو برصغیر کے رہنما تھے مگر اُن کی نظر پورے عالم اسلام پر تھی۔ چنانچہ انہوں نے فلسطین‘ انڈونیشیا اور ایران کے مسلمانوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی۔ انہوں نے 1945ء میں برطانیہ کے وزیراعظم ایٹلی کے نام ٹیلی گرام میں فلسطین کو یہودی ریاست میں تبدیل کرنے کی صہیونی سازش کی مذمت کی۔ انہوں نے امریکہ کے صدر ٹرومین کے اس بیان کو بھی ہدفِ تنقید بنایا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ایک لاکھ یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کا حق ہے۔ قائداعظم نے کہا کہ یہ بیان دوسرے ملک پر قبضے کے مترادف اور نہایت ظالمانہ و غیر منصفانہ ہے۔ اسی طرح انڈونیشیا میں سوئیکارنو کے اعلانِ آزادی کے باوجود جب ہالینڈ نے 1946ء میں انڈونیشیا پر دوبارہ قبضے کے لیے وہاں اپنے فوجی اتارے تو قائداعظم مشتعل ہوگئے۔ انہوں نے دھمکی دی کہ اگر ایسا ہوا تو بھارت کے مسلمان اتحادی فوجیوں کے سلسلے میں اپنی حمایت واپس لے لیں گے۔ قیام پاکستان کے بعد قائداعظم کو بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کی اتنی فکر تھی کہ انہوں نے ایک بیان میں بھارت کو خبردار کیا کہ اگر اُس نے اپنی اقلیتوں کی مناسب دیکھ بھال نہ کی تو پاکستان بھارت میں مداخلت کرے گا۔ ظاہر ہے کہ مداخلت بیانات سے نہیں ہوتی، مداخلت ہمیشہ فوجی مداخلت ہوتی ہے۔ لیاقت علی خان قائداعظم کا دایاں بازو تھے۔ ان کے یہاں بھی امت پرستی کی فراوانی تھی۔ انہوں نے 1951ء میں پالیسی بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے قیام کا مقصد ملکوں کی قطار میں ایک نئے ملک یا عالمی نقشے پر پہلے سے موجود رنگوں میں ایک رنگ کا اضافہ کرنا نہیں ہے، بلکہ پاکستان کے قیام کا مقصد اسلامی نظریے کو بسر اور مسلمانوں کی باہمی اخوت کو مجسم کرکے دکھانا ہے۔
برصغیر کے مسلمانوں کی اسلام اور امت سے وفاداری آزادی کی جدوجہد کا عنوان بن گئی۔ برصغیر کے مسلمانوں نے جب ایک الگ ملک کا مطالبہ کیا تو اُس وقت دنیا میں دو نظریات غالب تھے، ایک قوم پرستی اور دوسرا سوشلزم۔ اور دنیا کی ساری قومیں یا تو خود کو قوم پرست کہتی تھیں یا سوشلسٹ۔ قوم پرستی کا خمیر نسل، زبان اور جغرافیے سے اٹھا تھا اور دنیا کی ہر قوم اپنی نسل، زبان اور جغرافیے پر فخر کر رہی تھی اور کہہ رہی تھی کہ یہی اجزا ہمارا تشخص اور ہماری زندگی ہیں۔ اسلام عالمِ عرب سے آیا تھا مگر عالمِ عرب خود 20 ویں صدی کے اوائل میں عرب قوم پرستی کے نرغے میں تھا۔ سوشلزم ایک انقلابی نظریہ تھا اور وہ ایک نئے انسان، نئے معاشرے اور ایک نئی دنیا کے خواب کی علامت بنا ہوا تھا۔ اسلام اور اسلامی تشخص اس منظرنامے میں کہیں تھے ہی نہیں۔ مگر برصغیر کے مسلمانوں نے ایک علیحدہ مملکت کا مطالبہ کیا تو انہوں نے قوم پرستی اور سوشلزم کی جانب نگاہِ غلط انداز سے بھی نہ دیکھا۔ انہوں نے کہا تو یہ کہا کہ ہمارا تشخص اسلام کی بنیاد پر متعین ہونا ہے اور ہمیں جداگانہ تشخص کے تحفظ اور فروغ کے لیے ایک الگ ملک درکار ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسلام کی بنیاد پر پاکستان کے قیام کا مطالبہ عالمی سیاست کی سب سے بڑی ’’انہونی‘‘ تھی۔ لیکن چونکہ برصغیر کے لوگ اپنے اس دعوے اور مطالبے میں سچے تھے اور انہوں نے اسلام اور اس کے تصور سے وفاداری کو نبھا کر دکھایا تھا اس لیے ہزار مشکلات کے باوجود پاکستان بن کر رہا۔ اس سلسلے کی ایک اہم بات یہ ہے کہ بھارت کے مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کو معلوم تھا کہ پاکستان بنا تو انہیں اس سے کوئی سیاسی، معاشی یا مالی فائدہ نہ ہوگا، اس لیے کہ وہ اس نئی مملکت کے شہری نہیں ہوں گے۔ مگر چونکہ اجتماعی شعور میں اسلام اور امت کے تصورات راسخ تھے اس لیے انہوں نے اقلیتی صوبوں سے تعلق کے باوجود قیام پاکستان کے لیے بھرپور کام کیا اور اس سلسلے میں تن، من اور دھن پورے اخلاص سے بروئے کار لائے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کی اسلام اور امت پرستی کے اسباب کیا ہیں؟
اس کا ایک سبب یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے اسلام کی آفاقیت اور عالمگیریت کو جس طرح سمجھا اور جذب کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس سلسلے میں انہوں نے وحدت میں کثرت اور کثرت میں وحدت کا جلوہ دیکھا اور دکھایا ہے۔ یعنی انہوں نے نہ اسلام کی وحدت کو فراموش کیا، نہ اسلام کے تنوع کو۔ وہ ایک جانب اپنی انفرادیت پر اصرار کرتے رہے اور دوسری جانب انہوں نے پوری امت بلکہ پوری دنیا سے اپنا رشتہ برقرار رکھا۔ اس مزاج کا ایک سبب برصغیر کا مخصوص تاریخی تجربہ بھی تھا۔ برصغیر میں جس چیز کو ادبار کہا جاتا ہے وہ عرب، ترک، وسطی ایشیائی اور ایرانی مزاجوں کا مجموعہ تھا۔ اس طرح برصغیر کی ملتِ اسلامیہ اپنی تشکیل میں چھوٹی سی امت مسلمہ یا Mini Ummah ہے۔ لیکن مسئلہ صرف اتنا سا نہیں۔
برصغیر کی ملتِ اسلامیہ نے اسلام کو صرف ایک نظریہ نہیں سمجھا بلکہ اس نے اسلام کو ایک بہت بڑے تہذیبی تجربے میں ڈھال دیا۔ چنانچہ برصغیر کا اسلام صرف ایک نظری حقیقت نہ رہا بلکہ وہ ایک حِسّی واردات بن گیا۔ اس واردات میں ایک جانب عقیدے کا استقلال تھا، دوسری جانب جذبے کی فراوانی تھی، تیسری جانب اسلام کی تفہیم اور تخلیق کا سلسلہ تھا۔ اس حِسّی واردات نے امت کے تصور کو ’’ایک خاندان‘‘ کے تصور میں ڈھال دیا اور برصغیر کے مسلمانوں کو ایسا محسوس ہوا کہ دنیا بھر کے مسلمان ایک ہی خاندان کے بکھرے ہوئے اجزاء ہیں۔ امت کا تصور ’’معلوم‘‘ تو ساری دنیا کے مسلمانوں کے لیے ہے مگر یہ ’’معلوم‘‘ کبھی مسلمانوں کے لیے ’’محسوس‘‘ نہیں بن پایا۔ برصغیر کے مسلمانوں کا اعزاز یہ ہے) کہ انہوں نے معلوم کو بھی خوب معلوم کیا اور پھر اس معلوم کو ’’محسوس‘‘ میں ڈھال کر دکھا دیا۔
اس سلسلے میں ایک مخصوص تاریخی تجربہ بھی اہم ہے۔ برصغیر پر مسلمانوں نے ایک ہزار سال حکومت کی مگر وہ یہاں ہمیشہ ایک اقلیت ہی رہے، اور اقلیتوں کی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ مرکز کی طرف دیکھتی ہیں، اور مسلمانوں کا مرکز مکہ اور مدینہ تھے۔ چونکہ برصغیر نے ہمیشہ مکہ اور مدینہ کی طرف دیکھا اس لیے مکہ اور مدینہ ان کے لیے ’’وجودی معاملہ‘‘ بن گئے۔
اس سلسلے میں برصغیر کے مسلمانوں کا ’’انکسار‘‘ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر گزشتہ صدیوں پر نظر ڈالی جائے تو اسلام اور اسلامی تہذیب کی جیسی خدمت برصغیر کے مسلمانوں نے کی ہے کسی اور نے نہیں کی، مگر برصغیر کے مسلمانوں کا رویہ یہ رہا ہے کہ ہم توکچھ بھی نہیں، ہم تو ’’مرکز‘‘ سے دور بیٹھے ہوئے لوگ ہیں۔ برصغیر کے مسلمانوں کے اس انکسار نے اسلام اور امت ِ مسلمہ کے سلسلے میں ان کی حساسیت کو بڑھایا اور انہیں امتِ مسلمہ کا دل ہی نہیں، دماغ بنانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔