تحریر: محمد قمر الزماں ندوی
وہ مدینے سے واپسی میری
ابھی تک آنکھ تر ہے اور میں ہوں
آج مورخہ 15/ ربیع الثانی 46 ھج مطابق 20/ اکتوبر 2024ء بروز یک شنبہ مدینہ منورہ میں قیام کا آخری دن ہے، آج ہی مدینہ منورہ سے وایا دبئی کلکتہ اور پھر وہاں سےگھر واپسی ہے ، صبح فجر سے ایک گھنٹہ پہلے بیدار ہوگیا ، رات سامان سفر بھی تیار کرنا تھا ، اس لیے دیر رات سو سکا تھا ، دیگر ضروریات اور وضو سے فارغ ہو کر حرم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم آیا، ابھی فجر کی اذان نہیں ہوئی تھی ، تہجد کی نماز پڑھ کر کچھ دیر ذکر و اذکار میں مشغول رہا ، پھر اذان ہوئی،سنت سے فارغ ہوا ،اذان سے دس منٹ بعد جماعت کھڑی ہوگئی ۔ امام صاحب نے (نام نہیں معلوم ہوسکا)،پہلی رکعت میں سورہء قیامہ اور دوسری رکعت میں سورہ بلد (لا اقسم بھذا البلد)کی قرآت بڑی خوش الحانی سے کی ،آواز بالکل صاف اور بلند تھی،لہجہ بھی بڑا دلکش اور پیارا تھا ۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد سلام و درود پیش کرنے کے لئے روضئہ اطہر کی طرف گیا، پہلے ہی سے جگہ کا انتخاب اس طرح کیا تھا کہ فوری طور پر روضئہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری آسانی سے ہو جائے، اور جنت البقیع کی زیارت بھی ہو جائے ۔ الحمد للّٰہ آسانی سے یہ دونوں عمل ہوگئے اور پھر مسجد نبوی آکر زم زم پیا اور کچھ ڈبوں میں بھی بھر لیا، اشراق پڑھ کر اپنے ہوٹل آگیا۔
آج بھی روضئہ رسول پر اپنی طرف سے اور جن جن لوگوں نے سلام عرض کرنے کو کہا تھا، سب کا سلام پیش کیا ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مواجہ شریف میں حاضر ہوکر درود شریف پڑھتے وقت دل کی جو کیفیت ہوتی ہے، وہ کیفیت عجیب ہوتی ہے ،اس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا ۔
اور آج تو آخری حاضری تھی ، کیا کیفیت رہی ہوگی آپ سب سمجھ سکتے ہیں، جن کو یہاں حاضری کی سعادت نصیب ہوچکی ہے ۔
مدینہ منورہ میں قیام کرنا اور یہاں شب و روز گزارنا یقینا یہ بڑی سعادت کی بات ہے ، لوگ تو یہاں قصدا گلیوں میں بھٹکنے کی خواہش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ
ہم مدینے میں تنہا نکل جائیں گے اور گلیوں میں قصدا بھٹک جائیں گے
مدینے میں رہنے اور یہیں مرنے اور تدفین ہونے کی تمنا ہر مومن کے دل میں ہوتی ہے اور وہ شاعر کی زبان میں یہ آرزو، ارادہ اور تمنا کرتے ہیں کہ
مدینے میں رہنے کو جی چاہتا ہے
یہیں رہ کے مرنے کو جی چاہتا ہے
مقدر نے پہنچا دیا ان کے در تک
کہیں اب نہ جانے کو جی چاہتا ہے
یہاں آکے واپس نہ جاؤں خدایا
دعا، بس یہ کرنے کو جی چاہتا ہے
نظر پڑتی ہے ،سبز گنبد پر جب بھی
اسے تکتے رہنے کو جی چاہتا ہے
تلاطم میں ہے سامنے بحر رحمت
یہیں غرق ہونے کو جی چاہتا ہے
ولی ! عاجزی سے حضوری میں جاکر
یہی عرض کرنے کو جی چاہتا ہے
جگہ کوئی قدموں میں مل جائے آقا
یہیں خاک ہونے کو جی چاہتا ہے
(مولانا ولی اللہ ولی عظیم آبادی مقیم مدینہ منورہ)
آج مدینہ منورہ سے رخصتی ہے ،یہاں سے الوداع اور رخصتی کا منظر بھی ایک خاص منظر ہوتا ہے ،انکھیں آنسوؤں سے لبریز ،لبوں پر آہیں ،چہرہ اترا ہوا ،مغموم و منتشر ،دل ہے کہ بھرتا چلا آرہا ہے ،چلتا ہے اور پھر پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے اور دیکھنے سے جی نہیں بھرتا ،جی یہی چاہتا ہے کہ یہ منظر بھی نظروں سے اوجھل نہ ہو،بہانے ڈھونڈتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح کچھ دیر اور رکنا ہو جائے ۔
واپسی جب مدینے سے ہونے لگی
ہوک سینے میں رہ رہ کے اٹھنے لگی
ایک حسرت بھری ان نگاہوں سے ہم
مڑ کے باب حرم دیکھتے رہ گئے
ہم اپنی اس کیفیت اور اپنے ان جذبات کو مشہور شاعر کلیم عاجز مرحوم کے اشعار میں پیش کرتے ہیں، انہوں نے مدینہ منورہ سے رخصتی کے وقت یہ اشعار پڑھے تھے
بیمار عشق اے نبی پاک جاتے ہیں
ہم اہل کارواں جگر چاک جاتے ہیں
شاید کہ حکم ہوگیا بستر اٹھاؤ جاؤ
بستر اٹھائے اے شہ لولاک جاتے ہیں
اتنے دنوں رہے پہ تسلی کہاں ہوئی
نمناک چشم آئے تھے نمناک جاتے ہیں
اشکوں میں ڈھل کے درد کی خوشبو میں ڈوب کے
پہنے ہوئے جدائی کی پوشاک جاتے ہیں
جب حکم ہی ہے پھانکو جدائی کی خاک جاؤ
اچھا تو پھانکنے کے لیے خاک جاتے ہیں
چھانے کے کام کے نہ بچھانے کے کام کے
ہم تو ہیں واقعی خس و خاشاک جاتے ہیں
کرنے گداگری کو در پاک آئے تھے
اب یہ گداگران در پاک جاتے ہیں
اے کاش کوئی کہدے ہیمں دیکھ کر کلیم
دیکھو یہ خادمان شہ پاک جاتے ہیں
اب بس الوداع کا وقت ہے ہوٹل سے نکلنے والے ہیں زبان پر ماہر القادری مرحوم کے یہ اشعار ہیں
الوداع اے فضائے کیف و سرور الوداع اے ہوائے دامن نور
رخصت اے روضہ نبی کریم
رخصت اے حجلئہ رؤف و رحیم
رخصت اے جلوہ گاہ قدس جناب
رخصت اے بارگاہ وحی و کتاب
رخصت اے جالیوں کے نظارے
رخصت اے رحمتوں کے گہوارے
رخصت اے منبر رسول خدا
رخصت اے مرکز پیام ہدیٰ
رخصت اے حدود فلک حجاز
رخصت اے جلوہ گاہے اہل نیاز
شان حق کا ظہور کیا۔ کہنا
تیری راتوں کا نور کیا کہنا
اے عناں دور گردش ایام
تیری شام و سحر کو میرا سلام
اب بھی باقی ہے دل میں خلش
اے کہ تو ہے جہان جذب و کشش
پھر میرے سامنے یہ منظر ہو
پھر مجھے حاضری میسر ہو
دعا فرمائیں عمرہ کا یہ سفر ،حرمین کی یہ حاضری ،کعبہ کا طواف ،سعی بین الصفا و المروہ ،روضئہ اطہر پر درود و سلام اور مقامات مقدسہ کی زیارت بارگاہ ایزدی میں قبول ہو جائے اور زندگی میں ہم کو اور ہر ایمان والے کو بارہا اس کی توفیق ملے اور ہم سب یہاں سے اپنے ایمان کی تجدید کریں اور گناہوں سے توبہ کرکے ایک معصوم بچے کی طرح گھر لوٹیں اور مدینہ منورہ سے وہ سوغات لے کر ہم جائیں جس سوغات اور پیغام کو صاحب دل شاعر مولانا ولی اللہ ولی عظیم آبادی نے اپنے اشعار میں پیش ہے کہ
مدینے سے عشاق کیا لے کے جائیں
پیام رسول خدا لے کے جائیں
انہیں جستجو کھینچ لائی یہاں تک
یہاں سے وہ اب نقش پا لے کے جائیں
بصد شوق ،اخلاق و اعمال سب میں
وہ محبوب کی ہر ادا لے کے جائیں
جو تقسیم اب تک یہاں ہورہی ہے
وہ میراث خیر الورٰی لے کے جائیں
جو دونوں جہاں میں انہیں کام آئے
وہی دولت بے بہا لے کے جائیں
جو انصار طیبہ نے کرکے دکھایا
وہی صدق و عہد وفا لے کے جائیں
حضوری ہے! دامان دل کو بچھا کر
فیوض حبیب خدا لے کے جائیں
جو چاہیں ،جمال نبی منعکس ہو
تو نور رخ مصطفیٰ لے کے جائیں
لگانے کو مہجور کے زخم دل پر
مدینہ سے خاک شفا لے کے جائیں
رہیں گے معییت میں عشاق ان کے
وہ اک مژدہ جاں فزا لے کے جائیں
ولی ہو جنہیں آرزوئے شفاعت
لبوں پہ وہ صل علیٰ لے کے جائیں
15/ ربیع الثانی مطابق 20/اکتوبر بروز یک شنبہ بوقت ساڑھے نوبجے دن