اس بچے کو گرجا گھر کے کتب خانے سے انجیل کا غیر مُحرف نسخہ پڑھ کر ہدایت ملی، جس میں میسح علیہ السلام کا یہ قول درج تھا: میرے بعد رسول احمد (محمد ﷺ) آٰئیں گے، تم ان کی اتباع کرنا۔
یہ نومسلم بچہ متعدد صفات کا حامل ہے۔ ننھا محمد، دین محمد ﷺ کی ایسی موثر تبلیغ کرتا ہے کہ اس کے ہاتھوں درجنوں غیر مسلم مشرف بہ اسلام ہو چکے ہیں۔ اس کی باتیں سن کر بڑے بڑے علماء بھی اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتے۔ اسلام لانے کی پاداش میں محمد کو نہ صرف قید و بند کی سزائیں دی گئیں، بلکہ اسے قتل کرنے کے لیئے زہر بھی پلایا گیا اور ملک بدر بھی کیا گیا۔
علماء نے نومسلم محمد کو زندہ معجزہ قرار دیا ہے۔ مصری جریدے المحیط کے مطابق، مکہ مکرمہ سے تعلق رکھنے والے عالمِ دین ڈاکٹر عبدالعزیز بن احمد سرحان کی گزشتہ دنوں جنوبی افریقہ میں اس نو مسلم بچے سے ملاقات ہوئی، جس میں دس سالہ نو مسلم بچے نے قبولِ اسلام کرنے اور اس راہ میں پیش آنے والے مصائب کی پوری تفصیل بیان کی ہے۔
شیخ عبدالعزیز کا کہنا ہے کہ گزشتہ دنوں دعوتی کاموں کے سلسلے میں میرا جنوبی افریقہ جانا ہوا۔ جوہانسبرگ میں، مقامی ساتھی ابو محمد نے بتایا کہ یہاں امریکی نو مسلم بچے نے دھوم مچائی ہوئی ہے، جو پادری کے بیٹے سے اسلام کا داعی بن گیا۔ مجھے یہ سن کر اس بچے سے ملنے کا شوق ہوا، مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا کہ اچانک مجھے عربی لباس پہنے ہوئے دس سالہ بچہ نظر آیا۔ اس بچے نے میرے پاس سے گزرتے ہوئے مجھے سلام کیا تو میں نے سلام کے جواب کے بعد پوچھا: کیا تمھارا تعلق سعودی عرب سے ہے؟
اس نے کہا: جی نہیں میرا تعلق اسلام سے ہے اور یہی میری پہچان ہے۔
ڈاکٹر عبدالعزیز کے مطابق چھوٹے سے بچے کے اس خوبصورت اور فی البدیہہ جواب سے میں حیران ہوا پوچھا کہ: تم نے یہ لباس کیوں پہن رکھا ہے؟
اس نے کہا کہ یہ اسلام کے مرکز سعودی عرب کا لباس ہے۔ میں اسے پسند کرتا ہوں۔
میری اس سے گفتگو جاری تھی کہ اس دوران مقامی شخص کا وہاں سے گزر ہوا، تو اس نے کہا کہ شائد آپ اس بچے کو نہں جانتے، اس سے پوچھیں اس نے اسلام کیسے قبول کیا؟
چونکہ میں نے اس بارے میں پہلے بھی سن رکھا تھا مجھے اس بچے کی زبانی اس کی قبول اسلام کی کہانی سننے کا شوق ہوا، نماز سے فارغ ہو کر میں نے اس بچے کو اپنی کہانی سنانے کا کہا تو، اس نے پوچھا کہ آپ کا تعلق کہاں سے ہے؟
میں نے کہا مکہ مکرمہ سے۔ یہ سننا تھا کہ وہ بچہ میرے ساتھ لپٹ پڑا اور میرے ہاتھوں کو چومتے ہوئے کہنے لگا: مکہ سے! اس مکہ سے جو اللہ کا شہر ہے؟ میں کتنا خوش نصیب ہوں کہ میری آنکھیں اس شخص کا دیدار کر رہی ہیں جس کا تعلق مکہ مکرمہ سے ہے۔
میں نے اس سے کہا بیٹے تجھے تیرے رب کی قسم! مجھے اپنے قبولِ اسلام کی کہانی سنا۔
تو اس بچے نے کہا: میرا نیا اور اسلامی نام محمد ہے، میں اپنا پرانا اور عیسائی نام لینا نہیں چاہتا، میں امریکی شہر شکاگو کے معروف کیتھولک پادری جیمس کا بیٹا ہوں۔ میرے والد نےمجھے کلیسا کے زیرِ انتظام چلنے والے ایک سکول میں داخل کیا اور عیسائی تعلیمات کے مطابق میری تعلیم و تربیت کا انتظام کیا۔ میرے والد مجھ سے بہت پیار کرتے تھے۔ اس لیئے اکثر مجھے اپنے ساتھ گرجا لے جاتے تھے۔ گرجے سے متصل ہزاروں مذہبی اور غیر مذہبی کتابوں پر مشتمل ایک بڑا کتب خانہ ہے۔ میرے والد اکثر وہاں ہی بیٹھ کر مطالعہ کرتے رہتے۔ اس دوران میں بھی ان کے پاس جاتا اور مطالعہ کرتا۔ وہ مجھے بچوں کی کہانیاں اور دلچسپ مسیحی قصوں پر مشتمل کتابیں اور رسالے دیتے تھے۔ ایک دن میں اپنے والد کے ساتھ مذکورہ کتب خانے میں کوئی کتاب ڈھونڈ رہا تھا کہ اچانک میری نظر ایک پرانی کتاب پر پڑی۔ یہ انجیل کا قدیم نسخہ تھا۔ میں نے جب اسے پڑھنا شروع کیا تو ایک عبارت پر آ کر میری نظرٹک گئی۔ لکھا تھا: اور مسیح نے فرمایا کہ میرے بعد رسولِ عربی آئیں گے، جن کا نام احمد ہو گا، تم ان کی اطاعت کرو۔ یہ عبارت مجھے عجیب سی لگی۔ میں نے اپنے والد سے پوچھا کی ابو! یہ رسولِ عربی احمد کون ہیں، جن کا ذکر یسوع مسیح نے کیا ہے؟ کیا وہ آئے ہیں یا ابھی تک ان کا انتظار ہو رہا ہے؟
اس سوال پر میرے والد نے مجھے سخت جھاڑا اور کہا کہ یہ تمہیں رسول عربی کے بارے میں کس نے بتایا ہے؟
میں نے کہا کہ آپ کے کتب خانے میں رکھی کتاب میں پڑھا ہے۔ میں نے والد کو اس بارے میں بتایا تو کہنے لگے آئندہ اپنی مرضی سے کوئی کتاب نہ پڑھنا۔ یہ سب جھوٹ ہے اور یسوع مسیح پر بہتان ہے، آپ نے ایسی کوئی بات نہیں کہی۔
میں نے کہا ابو! یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ یہ تو انجیل مقدس میں لکھا ہوا ہے۔
شیخ عبدالعزیزکا کہنا ہے کہ مکمن ہے یہ انجیل کا غیر محرف نسخہ برناباس ہو، جو صدیوں بعد دریافت ہوا ہے۔ عیسائی جانتے ہیں یہی انجیل کا غیر محرف اور اصل نسخہ ہے، جس میں نبی آخر الزمان کی بشارت صاف الفاظ میں موجود ہے۔ مگر عیسائی پادری اسے مانتے نہیں اور عوام سے حتٰی الامکان اس انجیل کو چھپاتے ہیں۔
محمد کے اس چبھتے سوال پر اس کے والد جیمس نے کہا کہ تم ابھی چھوٹے ہو، ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتے، یہ کہ کر وہ محمد کو لے کر گھر چلا گیا اور ساتھ اسے یہ دھمکی بھی دی کہ آئندہ کسی کے سامنے اس قسم کی باتیں نہ کرنا، ورنہ میں تمہیں سخت سزا دوں گا۔
محمد کا کہنا ہے: اس سے میرے دل میں شک پڑھ گیا کہ اس میں کوئی راز ضرور ہے،جسے میرے والد چھپانا چاہتے ہیں۔ لیکن میں نے فیصلہ کیا کہ میں رسول عربی کے بارے میں معلوم کر کے رہوں گا۔ میں نے سوچا کہ مجھے پہلے کسی شخص سے ملنا چاہیے تا کہ وہ مجھے رسول عربی کے بارے میں اچھی معلومات فراہم کرے۔ یہ سوچ کر میں اپنے علاقے
کے ایک عربی ریسٹورنٹ میں داخل ہوا اور اس کے مالک سے پوچھا کہ کیا آپ کو رسولِ عربی احمد کے بارے میں کچھ علم ہے؟ تو اس نے قریبی مسجد کا پتہ بتاتے ہوئے کہا تم وہاں چلے جاؤ۔ وہاں امام صاحب تمہیں مجھ سے بہتر آگاہی فراہم کریں گے۔ یہ سن کر میں مسجد کی جانب چل پڑا اور وہاں پہنچ کر پوچھا: یہاں کوئی عربی شخص ہے؟
تو کسی نے پوچھا کہ تمہیں عرب سے کیا کام ہے؟
تو میں نے کہا مجھے رسول عربی احمد کے بارے میں معلومات چاہئیں۔
یہ سن کر اس شخص نے مجھے محبت سے اپنے پاس بٹھایا اور پوچھا کہ تم رسولِ عربی کے بارے میں کیوں پوچھنا چاہتے ہو؟
میں نے انہیں بتایا کہ میں نے چرچ کے کتب خانے میں رکھی انجیل میں پڑھا ہے کہ یسوع نے فرمایا کہ میرے بعد ایک رسول عربی آئیں گے، جن کا نام احمد ہو گا۔ کیا یہ بات درست ہے؟
اس پر عربی نے پوچھا کہ کیا واقعی تم نے انجیل میں پڑھا ہے؟
میں نے اثبات میں جواب دیا تو اس نے کہا کہ تم نے جو پڑھا وہ بلکل صیح ہے۔ رسول عربی آ چکے ہیں، ہم ان پر ایمان لائے اور ہم مسلمان ہیں۔ان پر نازل ہونے والی کتاب میں بھی وہی کچھ لکھا ہے، جو تم نے انجیل پڑھا ہے۔
اس کے بعد ایک شخص انگریزی ترجمے والا قران لے آیا اور مجھے سورۃ الصف کی اس آیت کا ترجمہ پڑھ کر سنایا، جس میں یسوع مسیح نے فرمایا: میرے بعد ایک نبی آئیں گے، جن کا نام احمد (محمد) ہو گا۔ یہ سن کر گویا مجھے میری گم شدہ متاع مل گئی اور میں خوشی سے جھومنے لگا۔ پھر میں نے مسجد میں موجود لوگوں سے کہا کہ میں کس طرح اس نبی کا پیروکار بن سکتا ہوں، جس کی مسیح نے بشارت دی ہے؟ انہوں نے کہا یہ بلکل آسان ہے، تم یہ کلمات دھراؤ کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، محمد اس کے بندے اور رسول ہیں عیسیٰ، مریم کے بیٹے اور اللہ کے رسول ہیں خدا نہیں۔
میں نے یہ کلمات پڑھ کر اسلام قبول کیا، جس پر مجھے ایسی خوشی ملی جو زندگی میں کبھی نہیں ملی تھی۔ میں خوشی سے گھر بھاگا اور اپنے والد کو خوشخبری سنائی۔ یہ خوشخبری سن کر گویا میرے والد پر بجلی گری اور وہ مجھ پر ٹوٹ پڑے اور مجھے گھسیٹ کر ایک کمرے میں لے جا کر پہلے میری پٹائی کی اور مجھ سے کہا آئندہ ان لوگوں کے پاس گیا تو تیری خیر نہیں۔ اس کے بعد مجھے گھرکے ایک کمرے میں قید کر دیا گیا۔ دو وقت کا کھانا وہاں ہی لایا جاتا اور پھر دروازے کو باہر سے بند کر دیا جاتا۔ تاہم اس کے باوجود میں اپنے مؤقف پر ڈٹا رہا، مسلسل قید سے ایک تو میری پڑھائی متاثر ہونے لگی دوسرا میرے والد کو خدشہ ہوا کہ اگر پولیس کو پتہ چل گیا کہ میں نے اپنے بچے کو حبس بے جا میں رکھا ہوا ہے تو مقدمہ بن جاۓ گا، اس لیئے ایک ہفتے بعد مجھے رہا کر دیا اور میں سکول جانے لگا۔ اسکول میں، میں ہر بچے اور استاد کو اسلام کی دعوت دینا شروع کر دی۔ جس پر کلیسا کے اسکول کی انتظامیہ نے میرے والد کو نوٹس بھیجا کہ آپ کا بچہ گمراہ ہو گیا ہے اور دوسرے بچوں کے ذھن بھی خراب کر رہا بے۔ جس پر میرے والد نے مجھے میرے دادا کے پاس تنزانیہ بھیجنے کا پروگرام بنایا۔ میرے دادا وہاں مشنری خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اگلے ہفتے مجھے تنزانیہ روانہ کر دیا گیا۔ وہاں پہلے تو دادا نے مجھے نرمی سے سمجھانے کی کوشش کی، لیکن میں اپنے مؤقف پہ ڈٹا رہا۔ تنزانیہ میں بھی بہت مسلمان تھے۔ میں ان کے پاس مسجد میں آتا جاتا رہا اور میری اسلامی معلومات میں اضافہ ہوتا رہا۔ امریکہ میں مجھے گھر والوں کی جانب سے زیادہ مار پٹائی کا سامنا نہیں تھا، لیکن دادا مجھ پر بدترین تشدد کرنے لگے۔ وہاں موجود مسلمانوں نے ہر قیمت پر میرا ساتھ دینے کا عزم کیا، جس سے مجھے کافی حوصلہ ملا۔ جب دادا نے دیکھا کہ میں باز نہیں آنے والا تو انہوں نے میرے والد سے مشورہ کر کے مجھ سے جان چھڑانے کا منصوبہ بنا لیا۔ ایک مرتبہ مجھے کھانے میں زہر ملا کے کھلایا گیا۔ کھانا کھانے کے بعد ہی مجھے احساس ہو گیا کہ کھانے میں کچھ ملا ہوا ہے۔ میں نے باہر آ کر قے کی اور وہاں موجود مسلمانوں کی مدد سے اسپتال پہنچا۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ مجھے انتہائی خطرناک قسم کا زہر کھلایا گیا ہے، مگر اللہ کے فضل و کرم سے اس سے مجھے کوئی نقصان نہیں ہوا۔اسپتال سے فارغ ہو کر میں مقامی مسلمانوں کے ہمراہ روانہ ہو گیا۔ دادا کو چونکہ میرے زندہ بچ جانے کا علم تھا، اس لیئے انہوں نے شرمندگی سے دوبارہ رابطہ نہیں کیا اور نہ ہی میرے والدین نے مجھے واپس بلایا۔ بعد ازاں میں تنزانیہ کے مسلمانوں کے ساتھ ایتھوپیا چلا گیا۔ وہاں کے مسلم علماء نے مجھے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اب پورے افریقہ میں،میں علماء کے ساتھ گھومتا ہوں اور اسلام کی دعوت دیتا ہوں اور زندگی بھر اسی کو مشن بنانے کا عزم کر رکھا ہے۔
شیخ عبدالعزیز کا کہنا کہ: نو مسلم اپنی ایمان افروز داستان بیان کر کے خاموش ہوا تو مجھے ہوش آیا اور دیکھا میری داڑھی آنسوؤں سے تر ہو چکی ہے۔ اتنے چھوٹے بچے کی ایسی استقامت پر میں حیرت کے سمندر میں غوطہ زن تھا۔
مصری جریدے المحیط سے اردو ترجمہ.