بابری مسجد ہم نہیں بُھولے ہیں

ازقلم: محمد ہاشم القاسمی
خادم دارالعلوم پاڑا ضلع پرولیا مغربی بنگال
فون نمبر :=9933598528

6/دسمبر ہندوستان کی تاریخ کا ایک ایسا سیاہ ترین دن ہے جو کبھی بھلایا نہیں جاسکتا اور نہ ہی بھولنا چاہئے بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی اس سیاہ تاریخ سے باخبر رکھنا ہماری ذمہ داری میں شامل ہونا چاہیے ورنہ گردشِ زمانہ کی گرد و غبار تلے سلطنت مغلیہ کی عظیم نشانی، تاریخ ہند کا ایک ناقابل فراموش باب "بابری مسجد” اور اس میں صبح وشام دی گئی اذانوں کی گونج اور محراب و منبر سے بلند ہونے والی توحید و رسالت کی صدائیں دب کر رہ جائیں گی. جبکہ مساجد کے بارے میں اسلام کا نقطۂ نظر دو اور دو چار کی طرح بالکل واضح ہے، اور جمہور امت کا اِس بات پر اتفاق ہے کہ جس مقام پر ایک مرتبہ مسجد تعمیر کر دی گئی، وہ تاقیامت مسجد ہی رہے گی ،
آج کی نوجوان نسل جو سنہ 2000 کے آس پاس یا اُس کے بعد پیدا ہوئی ہے، وہ تصور بھی نہیں کر سکتی کہ ان کے والدین کی جوانی کے دور میں ایل کے اڈوانی کا سیاسی کردار کیا تھا؟ اگر صاف لفظوں میں کہا جائے تو انہوں نے پورے ملک میں فرقہ پرستی کا ایسا زہر گھولا جس میں کئی ایسے اقدامات شامل ہیں جن کی وجہ سے ملک کے مسلمانوں کا لہو اور فرقہ وارانہ فسادات کے زخم آج بھی تازہ ہیں. یہ الگ بات ہے کہ اب اڈوانی جی حاشیہ پر ہیں لیکن اپنی اس گھناؤنے یاترا اور ہندو مسلم منافرت کی بدولت ایل کے اڈوانی جی نے رام جنم بھومی کی تحریک عروج پر پہنچا دی تھی جس کی بنا پر بی جے پی کے سب سے قدآور رہنماء بن کر ابھرے تھے۔
حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی جن تین ایجنڈوں کے سہارے انتخابات میں ووٹ مانگتی تھی، ان میں سے دو ایجنڈے پورے ہوچکے ہیں، (1) جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت دفعہ 370 کو ختم کرنا (2) بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر شامل تھا۔ اب تیسرا ایجنڈا ملک میں یونیفارم سول کورڈ کا نفاذ باقی رہ جاتا ہے۔ جس کے لئے ہر روز نت نئے بیانات دیئے جا رہے ہیں. ان میں سے بابری مسجد قضیہ نے خاص طور پر بی جے پی کو زبردست سیاسی فائدہ پہنچایا، جس کی بدولت مرکز میں حکومت سازی کے علاوہ اکثر صوبوں میں حکمرانی ہاتھ آئی.
ہمیں اپنی نسلوں کو بتانا ہوگا کہ 16ویں صدی عیسوی میں ریاست اترپردیش کے شہر ایودھیا میں رام کوٹ پہاڑی پر تین گنبدوں والی یہ قدیم مسجد شہنشاہ بابر کے دور میں اودھ کے حاکم میر باقی اصفہانی نے 1528ء میں تعمیر کرائی تھی۔ جو ریاست اتر پردیش کی بڑی مساجد میں سے ایک تھی۔ جہاں شروع ہی سے نماز پنج گانہ اور نماز جمعہ ہوا کرتے تھے ، عدالتی کاغذات سے معلوم ہوتا ہے کہ 1858ء سے 1870ء تک اس مسجد کے امام و خطیب مولانا محمد اصغر تھے۔ سنہ 1870ء تا 1900ء کی درمیانی مدت میں مولوی عبدالرشید نے امامت کے فرائض انجام دیے، 1901ء سے 1930ء کے عرصے میں یہ خدمت مولوی عبدالقادر کے سپرد رہی، اور 1930ء سے 1939ء مسجد کے قرق ہونے کی تاریخ تک مولوی عبدالغفار کی اقتداء میں مسلمان اس مسجد میں نماز پنج وقتہ اور جمعہ ادا کرتے تھے۔
آئیے بابری مسجد کی تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈالتے جائیں.
1528 ۔ ایودھیا میں میر باقی نے بابری مسجد کی تعمیر کرائی۔
1949 ۔ خفیہ طور سے بابری مسجد میں رام کی مورتی رکھ دی گئیں۔
1959۔ نرموہی اکھاڑے کی طرف سے متنازعہ مقام کے تعلق سے ٹرانسفر کی عرضی داخل کی ۔ بعد ازیں 1961 میں یو پی سنی سنٹرل بورڈ نے بھی بابری مسجد پر قبضہ کی عرضی داخل کی۔
1986۔ متنازعہ مقام کو ہندو عقیدت مندوں کے لئے کھول دیا گیا۔ اسی سال بابری مسجد ایکشن کمیٹی تشکیل ہوئی۔
1990۔ لال کرشن اڈوانی نے ملک گیر رتھ یاترا کا آغاز کیا، جس میں ایک ٹویوٹا گاڑی کو رتھ کی شکل دی گئی تھی ۔ اڈوانی کی رتھ یاترا ملک کی 8 ریاستوں سے گزری یہ یاترا سومناتھ سے نکل کر ایودھیا جانا طے پائی تھی۔ یاترا جس شہر سے بھی گزرتی وہاں بی جے پی اور سنگھ کے کارکنان گھنٹیاں بجا کر، تالیاں پیٹ کر اور جذباتی نعرے لگا کر اسکا استقبال کرتے۔ جذباتی ہندو، رتھ کی مٹی سے تلک کرتے اور جذبات کے اظہار کے طور پر خون کا عطیہ پیش کرتے۔ یاترا نے متعدد مقامات پر فسادات بھڑکائے جس سے ہزاروں معصوم لوگوں کی جانیں گئیں۔ اس لیے اسے خونی یاترا بھی کہا جاتا ہے۔ رام چندر گوہا نے اسے ’’مذہبی، متشدد، بھڑکاؤ اور مسلم مخالف‘‘ یاترا قرار دیا۔ اڈوانی کی تقریریں بابر اور رام ان ہی دو ناموں کے گرد گھومتیں۔ اڈوانی جہاں بھی جاتے انہیں ہتھیار تحفے میں دیے جاتے ۔ اڈوانی کو تحفے میں اتنے ہتھیار ملے کہ پرمود مہاجن نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ان ہتھیاروں کی مدد سے ہم ایک دن میں رام جنم بھومی آزاد کروا سکتے ہیں۔ آخر کار 23 اگست کو بہار کے وزیر اعلیٰ لالو پرساد یادو نے اڈوانی کی یاترا کو بہار کے سمستی پور میں روکا اور اڈوانی کو حراست میں لے لیا۔ اس طرح اس خونی یاترا کا خاتمہ ہوا۔
1991 ۔ رتھ یاترا کی لہر سے بی جے پی اتر پردیش کے اقتدار میں آگئی۔ اسی سال مندر تعمیر کے لئے ملک بھر سے اینٹیں بھیجی گئیں۔
6 دسمبر 1992۔ ایودھیا پہنچ کر ہزاروں کار سیوکوں نے بابری مسجد کو شہید کر دیا۔ اس کے بعد جگہ جگہ فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات رونما ہوئے۔ پولس نے لاٹھی چار ج کیا اور فائرنگ میں کئی لوگوں کی موت ہو گئی۔ جلد بازی میں ایک عارضی رام مندر بنا دیا گیا۔ سابق وزیر اعظم نرسمہا راؤنے مسجد کی از سر نو تعمیر کا وعدہ کیا۔
16 دسمبر 1992 ۔ بابری مسجد انہدام کے لئے ذمہ دار صورت حال کی جانچ کے لئے ایم ایس لبراہن کمیشن تشکیل دی گئی۔
1994۔ الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ میں بابری مسجد انہدام کے تعلق سے مقدمہ کا آغاز ہوا۔
4 مئی 2001 ۔ خصوصی جج ایس کے شکلا نے بی جے پی رہنما لال کرشن اڈوانی ، مرلی منوہر جوشی سمیت 13 رہنماؤں کو سازش کے الزام سے بری کر دیا۔
یکم جنوری 2002 ۔ اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے ایک ایودھیا کمیشن کا قیام کیا جس کا مقصد تنازعہ کو حل کرنا اور ہندو و مسلمانوں سے بات کرنا تھا۔
یکم اپریل 2002 ۔ ایودھیا کے متنازعہ مقام پر مالکانہ حق کے تعلق سے الہ آباد ہائی کورٹ کی تین ججوں کی بنچ نے سماعت کاآغاز کیا۔
5 مارچ 2003 ۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے محکمہ آثار قدیمہ کو کھدائی کرنے کا حکم دیا تاکہ مندر یا مسجد کے حوالے سے ثبوت مل سکیں۔
22 اگست 2003 ۔ محکمہ آثار قدیمہ نے ایودھیا میں کھدائی کے بعد الہ آباد ہائی کورٹ میں رپورٹ پیش کر دی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ مسجد کے نیچے 10 ویں صدی کے مندر کے باقیات کا اشارہ وہاں ملتا ہے۔ اس رپورٹ کو آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے چیلنج کیا۔
ستمبر 2003 ۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ مسجد انہدام کے لئے اکسانے والے 7 ہندو رہنماؤ ں کو پیشی پر بلایا جائے۔
جولائی 2009 ۔ لبراہن کمیشن نے کمیشن تشکیل کے 17 سال بعد وزیر اعظم منموہن سنگھ کو اپنی رپورٹ سونپی۔
26 جولائی 2010۔ معاملہ کی سماعت کر رہے الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے فیصلہ محفوظ رکھا اور تمام فریقین سے آپسی رضامندی سے حل نکالنے کی صلاح دی۔ لیکن کوئی فریق آگے نہیں آیا۔
28 ستمبر 2010 ۔ سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے متنازعہ معاملہ میں فیصلہ دینے سے روکنے والی عرضی خارج کردی جس کے بعد فیصلہ کی راہ ہموار ہوئی۔
30 ستمبر 2010 ۔ الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے تاریخی فیصلہ سنایا، جس کے تحت متنازعہ زمین کو تین حصو ں میں تقسیم کر تے ہوئے ایک حصہ رام مندر، دوسرا سنی وقف بورڈ اور تیسرا نرموہی اکھاڑے کو دے دیا ۔
9 مئی 2011 ۔ سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگا دی۔
21 مارچ 2017 ۔ سپریم کورٹ نے معاملہ کو آپسی رضامندی سے حل کرنے کی صلاح دی۔
19 اپریل 2017 ۔ سپریم کورٹ نے بابری مسجد انہدام کے معاملے میں لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی سمیت بی جے پی اور آر ایس ایس کے کئی رہنماؤں کے خلاف مجرمانہ مقدمہ چلانے کا حکم سنایا۔
16 نومبر 2017۔ ہندو گرو شر ی شری روی شنکر نے معاملہ کو حل کرنے کی کوشش شروع کی اور اس ضمن میں انہوں نے کئی فریقوں سے ملاقات بھی کی۔
فروری 2018۔ باقاعدگی سے سماعت کی اپیل خارج کر دی گئی۔ 8 فروری کو سنی وقف بورڈ کی طرف سے پیش ہوئے سینئر وکیل راجیو دھون نے سپریم کورٹ سے اپیل کی کہ وہ اس معاملے پر باقاعدہ سماعت کریں لیکن بنچ نے ان کی اپیل مسترد کر دیا۔
27 ستمبر 2018۔ ’مسجد اسلام کا لازمی جز نہیں‘ معاملہ کو بڑی بینچ کے سامنے بھیجنے سے انکار۔ عدالت نے 1994 کے اسماعیل فاروقی بنام یونین آف انڈیا معاملہ میں فیصلہ سناتے ہوئے فیصلہ سنایا تھا کہ ’مسجد اسلام کا لازمی جز نہیں‘۔ اس کو چیلنج کرنے والی عرضی کو سپریم کوٹ مسترد کر دیا لیکن یہ بھی واضح کیا کہ وہ فیصلہ مخصوص صورت حال میں زمین کو تحویل میں لینے کے لئے دیا گیا تھا اور اس کا اثر کسی دوسرے معاملہ پر نہیں ہوگا۔
29 اکتوبر 2018۔ سپریم کورٹ نے مقدمہ کی جلد سماعت کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے معاملہ کو جنوری 2019 تک کے لئے ملتوی کر دیا۔
8 مارچ 2019۔ سپریم کورٹ نے معاملے کو ثالثی کے لئے بھیجا۔ پینل سے 8 ہفتوں میں کارروائی ختم کرنے کو کہا گیا۔
اگست 2019: ثالثی پینل حل تلاش کرنے میں ناکام رہا.
یکم اگست کو ثالثی پینل نے رپورٹ پیش کی۔ 2 اگست کو سپریم کورٹ نے کہا کہ ثالثی پینل اس کیس کو حل کرنے میں ناکام رہا ہے اور اس معاملہ کی روزانہ سماعت 6 اگست سے سپریم کورٹ میں شروع ہوئی۔
16 اکتوبر 2019۔ سپریم کورٹ میں بابری مسجد معاملہ کی سماعت مکمل ہوئی اور فیصلہ محفوظ رکھا گیا۔
9 نومبر 2019۔ سپریم کورٹ کی طرف سے فیصلہ سنایا گیا کہ بابری مسجد کے مقام پر رام مندر تعمیر کے لئے اراضی ٹرسٹ کو سونپ دی جائے اور حکومت اس ٹرسٹ کو تشکیل دے۔ اس کے علاوہ متبادل کے طور پر سنی وقف بورڈ کو کسی دوسرے مقام پر مسجد تعمیر کے لئے زمین دی جائے۔
اس کے بعد حکومت کی طرف سے ٹرسٹ کا اعلان کر دیا گیا اور 5 اگست کو وزیر اعظم نریندر خود اپنے ہاتھوں سے مندر تعمیر کے لئے بھومی پوجن کیا.
اس وقت سے بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کا کام جنگی پیمانے پر جاری و ساری ہے اور امید ہے کہ 2024 کے لوک سبھا الیکشن سے پہلے پہلے رام مندر کا دروازہ عقیدت مندوں کے لئے کھولا جائے گا اور ہندوؤں کے جذبات کو بھڑکا کر تیسری مرتبہ مرکز کی حکومت سازی اور وزیراعظم کی کرسی کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے