سونار بنگلہ (قسط نمبر 8)

پڑوسی ملک بنگلہ دیش کا ایک سفر

گزشتہ سے پیوستہ

ازقلم: آفتاب ندوی دھنباد، جھارکھنڈ

جامعہ دار المعارف چاٹگام میں حاضری
پھلے ہی سے طے تھا کہ آج 30 اکتوبر بروز اتوار شام کو دار المعارف جاکر اسکے بانی مولانا سلطان ذ وق صاحب ندوی مدظلہ سے ملاقات کرنی ھے ، معلوم ھوا کہ ایک عرصہ سے مولانا بیمار چل رہے ہیں ، مدرسہ کی وسیع خوبصورت مسجد میں استقبالیہ جلسہ منعقد ھوا ، ڈاکٹر اکرم صاحب اپنی علمی تصنیفات ودینی وتدریسی خدمات کی وجہ سے پوری دنیامیں میں شہرت رکھتے ہیں ، ھر جامعہ ، ھر ادارہ انکی آمد اور ان سے علمی استفادہ کا متمنی ھوتا ھے ، دوران جلسہ مولانا سلطان ذوق صاحب ندوی ویل چیر پر تشریف لائے ، ڈاکٹر صاحب کے علاوہ سنار گاؤں کے مدرسۂ شرف کے بانی ناظم مولانا عبید القادر صاحب ندوی ، مولانا سید خلیل حسنی اور راقم نے طلبۂ دا المعارف کو خطاب کیا ، ڈاکٹر صاحب نے بانئی مدرسہ سے اپنی ملاقاتوں کا ذکر کرتے ھوئے بتایا کہ مولانا سلطان ذوق صاحب اسی کی دہائی میں جب
ندوہ العلماء تشریف لائے تھے اور طویل قیام کیا اسی وقت سے مولانا سے شناسائی ھے ، مدرسہ کے نائب مہتمم مولانا فرقان اللہ خلیل صاحب جو روز اول سےذوق صاحب کے ساتھ ہیں نے بھی مختصر استقبالیہ تقریر کی ، اخیر میں مولانا ذوق صاحب ندوۃ العلماء اور حضرت مولانا ابو الحسن علی حسنی ندوی رح سے اپنے تعلقات کا ذکر کرتے ھوئے جذباتی ھوگئے ، دار المعارف کے قیام کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ھوئے انہوں نے کچھ تلخ حقائق کی طرف بھی اشارے کئے ، بنگلہ دیش بھی تو ہندوستان ہی کا کبھی ایک حصہ تھا ، مدارس ، علماء اور عوام سب کا تقریبا ایک ہی مزاج ھے ، بنگلہ دیش میں اگرچہ مولانا ذ وق صاحب سے پہلے بھی نصاب ونظام تعلیم میں زمانے کے تقاضوں کے مطابق اصلاح و تبدیلی کی متعدد بزرگوں نے آو از بلند کی لیکن ذوق صاحب کی آواز طاقتور تھی ، خاص طور پر حضرت مولانا علی میاں ندوی رح سے تعلق اور ندوہ میں کچھ عرصہ قیام سے انہیں اپنی فکر کی صحت کا کامل اذعان ھو گیا , یہاںتک کہ 1985میں دارالمعارف کی مولانا نے بنیاد رکھ دی ، دار المعارف کے نظم ونسق ، اسکے نصاب ونظام تعلیم ، طلبہ کی سلیقہ مندی وشائستگی اور انکی نشست وبرخاست ھر جگہ مولانا ذوق کے اعلی ذوق کی جلوہ نمائی محسوس ھوتی ھے ،‌ 1984میں حضرت مولانا علی میاں ندوی علیہ الرحمہ نے پہلی
مرتبہ بنگلہ دیش کا دورہ کیا ، مولانا ابو العرفان خاں ندوی ، مولانا عبد الکریم صاحب پاریکھ اور مولانا سلمان صاحب ساتھ میں تھے ،‌حضرت مولانا کو دعوت دینے والوں میں سر فہرست مولانا ذوق صاحب تھے ، یہ عجیب بات ھیکہ اس خطہ کا پہلا دورہ حضرت مولانا رح نے اکہتر سال کی عمر میں کیا جس خطہ کو حضرت سید احمد شہید کی خصوصی توجہ حاصل تھی ، مولانا کرامت علی جونپوری کو سرزمین بنگالہ میں بطور خاص دعوت وتبلیغ کیلئے بھیجا جہاں انہوں اپنی چہتر سالہ زندگی کے اکاون سال گزارے ،‌جونپوری رح بڑی شان سے دعوتی دورے کرتے تھے ، پہلے ایک بوٹ اور بعد میں دو بوٹ لیکر چلتے تھے ، بنگال کا چپہ چپہ سید احمد شہید کی تحریک سے مولانا کرامت علی جونپوری( وفات1290ھجری-مطابق 1873عیسوی ) کے توسط سے فیضیاب ھوا ، تاریخ بتاتی ھے کہ مولانا جونپوری کے ذریعہ پچاسوں لاکھ لوگوں کی اصلاح ھوئی یا اسلام میں داخل ھوئے آسام کے علاقوں میں قبائلیوں میں کپڑے بھی تقسیم کرتے تھے مولانا جونپوری بڑے عالم تھے ، جن موضوعات بر عوام کیلئے لکھنے کی ضرورت تھی آپ نے ان پر عام فہم اسلوب میں کتابیں بھی تصنیف کیں ، آج بھی ان کتابوں کی زبان عام فہم ھے ، بنگال کے اہل علم نے اس تاریخ کو مکمل طورپر فراموش نہیں کیا ھے ، مولانا جونپوری رح کے خاندان کے لوگ اج بھی بنگلہ دیش میں ہیں ، اس خاندان کا ایک نوجوان جس نے ندوہ میں پڑھا ھے تقریرو خطابت کا شہنشاہ سمجھا جاتا ھے ، لوگوں نے بتایا اسکا وقت لینے کیلئے دو دو تین تین سال تک انتظار کرنا پڑتا ھے ، ستر ھزار ٹکا اسکے ایک پروگرام کا نذرانہ ھے،،،

جاری۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے