ازقلم: شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار
مسلمانو کبھی نہ چلنا راہ بدعت پر
بدعت کی تعریف
ھی اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول ﷺ لا بمعاندۃ بل بنوع شبھۃ : (در مختار ، حاشیہ شامی)
ترجمہ ۔ جو چیز رسول اللہ صلی اللہ وسلم سے معروف و منقول ہے اس کے خلاف کا اعتقاد رکھنا ضد و عناد کے ساتھ نہیں بلکہ کسی شبہ کی بنا پر ۔
اور علامہ شامی نے علامہ شمسی سے اس کی تعریف ان الفاظ میں نقل کی ہے :
ما ا حدث علی خلاف الحق المتلقی عن رسول اللہ ﷺ من علم أو عمل أ و حال بنوع شبھۃ واستحسان و جعل دینا قویما وصراطا مستقیما ؛
ترجمہ ۔ جو علم ، عمل یا حال اس حق کے خلاف ایجاد کیا جائے جو رسول اللہ ﷺ سے منقول ہے کسی قسم کے شبہ یا استحسان کی بنا پر اور پھر اسی دین قویم اور صراط مستقیم بنالیا جائے وہ بدعت ہے ۔ خلاصہ یہ کہ دین میں کوئی ایسا نظریہ طریقہ اور عمل ایجاد کرنا بدعت ہے جو طریقۂ نبوی کے خلاف ہو کہ آپ ﷺ سے نہ قولا ثابت ہو، نہ فعلا ، نہ صراحتاً ، نہ دلالۃ ، نہ اشارۃ ۔ جسے اختیار کرنے والا مخالفت نبوی کی غرض سے بطورِ ضد و عناد اختیار نہ کرے بلکہ بزعم خود ایک اچھی بات اور کار ثواب سمجھ کر اختیار کرے ۔ وہ چیز کسی دینی مقصد کا ذریعہ و وسیلہ نہ ہو بلکہ خود اسی کو دین کی بات سمجھ کر کیا جائے ۔
بدعت کی قسمیں ۔
بدعت کی دو قسمیں ہیں ایک بدعتِ شرعیہ ، دوسری بدعتِ لغویہ۔ بدعتِ شرعیہ یہ ہے کہ ایک ایسی چیز کو دین میں داخل کر لیا جائے جس کا کتاب و سنت ، اجماعِ امت اور قیاس مجتہد سے کوئی ثبوت نہ ہو یہ بدعت ہمیشہ بدعتِ سیئہ ہوتی ہے اور یہ شریعت کے مقابلے میں گویا نئ شریعت ایجاد کرنا ہے ۔
بدعت کی دوسری قسم وہ چیزیں ہیں جن کا وجود رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں نہیں تھا جیسے ہر زمانے کی ایجادات ۔ ان میں سے بعض چیزیں مباح ہیں جیسے ہوائی جہاز کا سفر کرنا وغیرہ اور ان میں جو چیز یں کسی اور مستحب کا ذریعہ ہوں وہ مستحب ہوں گی جو کسی امر واجب کا ذریعہ ہوں وہ واجب ہوں گی مثلاً صرف و نحو وغیرہ علوم کے بغیر کتاب و سنت کو سمجھنا ممکن نہیں اس لئے ان علوم کا سیکھنا واجب ہوگا اسی طرح کتابوں کی تصنیف مدارسِ عربیہ کا بنانا چونکہ دین کے سیکھنے اور سکھانے کا ذریعہ ہیں اور دین کی تعلیم و تعلم فرض عین یا فرض کفایہ ہے تو جو چیزیں کہ بذات خود مباح ہیں اور دین کی تعلیم کا ذریعہ اور وسیلہ ہیں وہ بھی حسبِ مرتبہ ضروری ہوں گی ان کو بدعت کہنا لغت کے اعتبار سے ہے ورنہ یہ سنت میں داخل ہیں ۔
اس دنیا سے رسول اللہ ﷺ کے رخصت ہو جانے کے بعد آپ کی لائی ہوئی اللہ کی کتاب قرآن مجید اور آپ ﷺ کی تعلیمات جن کا معروف عنوان سنت ہے اس دنیا میں ھدایت کا مرکز و سرچشمہ اور گویا آپ ﷺ کی مقدس شخصیت کے قائم مقام ہیں اور امت کی صلاح و فلاح ان کی پیروی و پابندی سے وابستہ ہے رسول اللہ ﷺ نے اس بارے میں امت کو مختلف عنوانات سے ہدایت و آگاہی دی ہے اور محدثات و بدعات سے اجتناب کی تاکید فرمائی ہے اگلی امتیں اسی لئے گمراہ ہوئیں کہ محدثات و بدعات کو اپنا دین بنا لیا ۔ اعتقادات، اعمال ، اخلاق اور جذبات وغیرہ کے بارے میں انسانوں کو جس مثبت یا منفی ہدایت ( امر بالمعروف ونہی عن المنکر ) کی ضرورت ہے یقیناً کتاب اللہ اور سنتِ نبوی و طریق محمدی اس کے پورے کفیل ہیں اس کے بعد گمراہی کا ایک دروازہ جاتا ہے کہ اللہ و رسول اللہ ﷺ نے جن باتوں کو دین قرار نہیں دیا ان کو دین کا رنگ دے کر دین میں شامل کیا جائے اور قرب و رضائے الہی اور فلاح اخروی کا وسیلہ سمجھ کر اپنا لیا جائے دین کے رہزن شیطان کا سب سے خطرناک جال یہی ہے اگلی امتوں کو اس نے زیادہ تر اسی راستہ سے گمراہ کیا ہے مختلف امتوں کے مشرکوں میں بت پرستی عیسائیوں میں تثلیث اور حضرت مسیح کی انبیت و ولدیت اور کفارہ کا عقیدہ اور احبار و رہبان کو اربابا من دون اللہ بنانے کی گمراہی یہ سب اسی راستے سے آئی تھیں اور رسول اللہ ﷺ پر منکشف کیا گیا تھا کہ اگلی امتوں میں جو گمراہیاں آئی تھیں وہ سب آپ کی امت میں بھی آئیں گی اور انہیں راستوں سے آئیں گی جن سے پہلی امتوں میں آئی تھیں اسی لئے آپ اپنے مواعظ و خطبات میں بار بار یہ آگاہی دیتے تھے بس کتاب اللہ اور میری سنت کا اتباع کیا جائے صرف وہی حق و ہدایت ہے اور اسی میں خیر و فلاح ہے اور محدثات و بدعات سے اپنی اور دین کی حفاظت کی جائے بدعت خواہ ظاہری نظر میں حسین وجمیل معلوم ہو فی الحقیقت وہ صرف ضلالت اور ہلاکت ہے ۔
امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی نے اپنے مکتوبات میں فرمایا ہے کہ جن علماء نے بدعت کو دو خانوں ( بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیئہ ) میں تقسیم کیا ہے ان سے بڑے علمی غلطی ہوئی ہے بدعت حسنہ کوئی چیز نہیں ہے بدعت ہمیشہ سیئہ اور ضلالت ہی ہوتی ہے اگر کسی کو کسی بدعت میں نورانیت محسوس ہوتی ہے تو وہ اس کے احساس و ادراک کی غلطی ہے بدعت میں صرف ظلمت ہوتی ہے ۔
کام خواہ کتنا ہی بہتر اور نیک کیوں نہ ہو اگر سنت کے مطابق نہیں تو و ہی بد سے بدتر ہے روزے نماز عبادت خدا کوئی بری چیز نہیں لیکن جب یہ خلاف سنت ہوں تو ان کی وجہ سے اللہ کے رسول اللہ ﷺ کی بیزاری ہو جاتی ہے یہ جو آج کل لوگ کہہ دیتے ہیں کہ صاحب تیجے میں کیا حرج ہے؟ اللہ کے نام کا دینا ہی ہے میلاد میں کیا حرج ہے ؟ذکر اللہ ہی تو ہے تعزیہ داری میں کیا حرج ہے؟ نواسۂ رسول اللہ ﷺ کی عزت و عظمت کا اظہار ہی تو ہے یہ یاد رکھیں کہ گو کام کتنا ہی اچھا اور بالکل ہی عمدہ کیوں نہ ہو چونکہ سنت سے ثابت نہیں ہے اس لئے بد سے بدتر ہے ان کاموں کے کرنے والے قیامت کے دن امت رسول میں شمار کئے جائیں گے اس بات کو کبھی نہ بھولیں کہ حضور صلی اللہ ﷺ کے بعد کسی کام کو دین میں نکالنا نہایت ہی برا ہے یہاں تک کہ ایسے لوگوں کی پک
ڑ کے بعد ان کو شفاعت رسول خدا بھی میسر نہیں ہونے کی حالانکہ اور گناہگار شفاعت سے چھوڑ دئیے جائیں گے لیکن بدعتیوں سے خود رسول خدا ﷺ بیزار ہو جائیں گے اور صاف فرما دیں گے ان کا منہ جلاؤ اور انہیں میرے سامنے سے ہٹاؤ جنہوں نے میرے بعد میرے دین کو بدل ڈالا تھا
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالی قبول نہیں کرتا صاحب بدعت ( یعنی بدعتی ) سے روزہ نہ نماز نج زکوۃ نہ خیرات نہ حج نہ عمرہ نہ جہاد اور بدعتی دائرہ اسلام سے ایسے نکل جاتا ہے جیسے بال گوندھے ہوئے آٹے سے نکل جاتا ہے (ابن ماجہ)
بدعتی کا اللہ تعالی نماز روزہ اور کوئی عمل اس لئے قبول نہیں کرتا کہ بدعتی خانہ ساز مسئلے بنا کر رسول اللہ ﷺ کی رسالت کا مقابلہ کرتا ہے حضور ﷺ بھی خدا کی وحی سے کار ثواب بتائیں اور مقابلہ میں بدعتی بھی مسئلے بناۓ اور کار ثواب جاری کرے اس نبوت کا مقابلہ کرنے والے بدعتی کا اللہ کوئی عمل قبول نہیں کرتا اس پر خدا کا قہر آتا ہے وہ مردود ہو جاتا ہے شرک نہ اللہ اپنی ذات میں برداشت کرتا ہے اور نہ حضور ﷺ کی رسالت میں خدا کی قولی بدنی اور مالی عبادت میں شرک کرنے سے سب اعمال حبط اور برباد ہو جاتے ہیں اور بدعت پر عمل کرنے سے اللہ بدعتی کا کوئی نیک کام قبول ہی نہیں کرتا تو مشرک اور بدعتی اگر ہزار سال کی عمر پاۓ اور ہزار سال تک نمازیں پڑھے سینکڑوں روزے رکھے حج کرے ہر سال زکوۃ دے کروڑ وں روپے خیرات کرے تہجد اشراق بھی پڑھتا رہے مر کر دوزخ میں جائے گا ( اگر بلا توبہ مر گیا) الحاصل ترک سنت اکبر الکبائر گناہ ہے اور فعل بدعت اس سے بھی بڑھ کر کبیرہ گناہ ہے تو ہر عورت اور مرد کو چاہیے کہ شرکیہ عقیدوں اور عملوں کو جانے بوجھے اور ان سے تازیست بچے اور بدعت کے کاموں کو بھی معلوم کرے کہ کون کون سے ہیں پھر ان سے حذر کرے۔