اسلام میں خاندانی اور گھریلو زندگی

از قلم: مجاہد عالم ندوی
استاد : ٹائمس انٹرنیشنل اسکول محمد پور شاہ گنج ، پٹنہ
رابطہ : 8429816993

خاندان کی ساخت

اسلام خاندان کو معاشرے کی ایک اکائی قرار دیتا ہے ، مسلمان خاندان پورے مسلم معاشرے کا ایک بہت چھوٹا نمونہ ہے ، اسلام میں شادی ایک مقدس معاہدہ ہے جس میں شوہر اور بیوی دونوں کے فرائض اور حقوق ہیں ، شوہر کا فرض ہے کہ وہ خاندان کی مکمل کفالت کرے چاہے اس کی بیوی مالدار اور اقتصادی طور پر اس کی کفالت کی محتاج نہ ہو ، بیوی کو حصول معاش کی کوئی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔

اگر کسی عورت کا شوہر نہ ہو ، نہ باپ تو وہ خاندان کے وسیع تر حلقے میں پناہ لے سکتی ہے ، دوسری طرف بیوی کا فرض ہے کہ وہ شوہر اور خاندان کی نگرانی اور خبر گیری کی پوری طرف ذمہ داری قبول کرے ، گھر بار پر پوری طرف اس کا کنٹرول ہوتا ہے ، بچوں کی تعلیم و تربیت میں وہ نمایاں کردار ادا کرتی ہے ۔

اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا : ٫٫ لوگو! تمہاری بیویوں پر تمہارے حقوق ہیں اور تم پر تمہاری بیویوں کے حقوق ہیں ٬٬۔ ایک دوسرے موقع پر فرمایا :
٫٫ ایمان لانے والوں میں جو لوگ مکمل ایمان کا نمونہ پیش کرتے ہیں وہ لوگ ہیں جو بہترین اخلاق کے مالک ہوتے ہیں اور اپنے گھر والوں کے ساتھ انتہائی شفقت اور مرحمت کا معاملہ کرتے ہیں اور آپ نے یہ بھی فرمایا : جب کوئی شخص اپنی بیوی بچوں پر اپنا مال خرچ کرتا ہے تو وہ اس کی طرف سے صدقہ شمار ہوتا ہے ٬٬۔

والدین

والدین اپنے بچوں کے لیے بڑی قربانیاں کرتے ہیں ، ہمیں ان سے اپنے دلوں کی گہرائیوں سے محبت کرنی چاہیے اور انہیں خوش رکھنا چاہیے ، جیسے جیسے تم بڑے ہوتے جاؤ تم والدین کی مدد کرو ، ان کے ساتھ تمہارا معاملہ مفاہمت کا ہونا چاہیے ، تم اپنی زائد ضرورت توانائیوں کے ساتھ خوشی خوشی گھر کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لو ، تمہیں اس کا انتظار نہیں کرنا چاہیے کہ ان کو خالی کر دینے ، کھانے کی تیاری میں امداد کرنے اور پالین کو ویکیوم کلینر سے پاک کر دینے کی یاد دہانی کرائی جائے ، اگر تم اپنی والدہ سے یہ کہہ کر باہر گئے ہو کہ تم کھیل کر سات بجے واپس آ جاؤ گے تو تمہارا فرض ہے کہ وقت پر گھر واپس آ جاؤ ، اپنے والدین کا اعتماد حاصل کرنے کا یہ بہترین طریقہ ہے ۔

اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : ٫٫جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے ٬٬۔ اور یہ بھی فرمایا : ٫٫ اس کی ناک خاک آلود ہو ، جس نے اپنے والدین میں سے کسی ایک یا دونوں کو بڑھاپے کی طرف بڑھتے دیکھا اور ان کی خدمت کر کے جنت میں داخل نہ ہوا ٬٬۔

بڑوں کی عزت

ایک حدیث میں آتا ہے : ٫٫ وہ جو ہمارے چھوٹوں سے شفقت اور بڑوں سے محبت و احترام سے پیش نہیں آتا وہ ہم میں سے نہیں ہے ٬٬۔

پڑوسی

اسلام پڑوسیوں کے ساتھ اچھے سلوک پر بہت زور دیتا ہے ، ایک حدیث میں آتا ہے کہ وہ مومن نہیں ہے جو خود تو پیٹ بھر کر کھانا کھاتا ہے اور اس کا پڑوسی بھوکا سوتا ہے ۔
٫٫ بخدا وہ مومن نہیں ہے بخدا وہ مومن نہیں ہے ، بخدا وہ مومن نہیں ہے ، یہ پوچھے جانے پر کہ وہ کون ہے پیغمبر صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے جواب دیا : ٫٫ وہ جس کے شر سے اس کا پڑوسی محفوظ نہیں ہے ٬٬۔

ایک دفعہ ایک شخص نے پیغمبر صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے کہا : ٫٫ ایک عورت ہے جو اللّٰہ کی عبادت بہت زیادہ کرتی ہے مگر پڑوسیوں کے ساتھ اس کا سلوک بہت برا ہے ، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ٫٫ اس کا ٹھکانہ نار جہنم ہے ٬٬ ۔ اس شخص نے پھر آپ سے کہا ، ٫٫ ایک دوسری عورت ہے جو اللّٰہ کی عبادت تو زیادہ نہیں کرتی اور صدقہ بھی کم ہی کرتی ہے لیکن وہ اپنی بد زبانی سے پڑوسیوں کو دکھ نہیں دیتی ٬٬ ۔ پیغمبر نے فرمایا وہ جنت میں جگہ پائے گی ٬٬۔

مکان

کسی کے گھر میں اس کی اجازت کے بغیر داخل ہونا اخلاق کی کھلی خلاف ورزی ہے جیسا کہ قرآن و حدیث میں اس پر زور دیا گیا ہے ، قرآن کہتا ہے : اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہو ، جب تک کہ گھر والوں کی اجازت نہ لے لو اور گھر والوں پر سلام نہ بھیج لو ، یہ طریقہ تمہارے لیے بہتر ہے ، توقع ہے کہ تم اس کا خیال رکھو گے ، پھر اگر وہاں کسی کو نہ پاؤ تو داخل نہ ہو جب تک کہ تم کو اجازت نہ دے دی جائے ، اور اگر تم سے کہا جائے کہ واپس چلے جاؤ تو واپس جاؤ ، یہ تمہارے لئے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے ، اور جو کچھ تم کرتے ہو ، اللّٰہ اسے خوب جانتا ہے ۔۔ ( سورہ نور)

مہذب طریقے سے داخلے کی اجازت لینے اور گھر کے لوگوں پر سلامتی بھیجنے کے اسلامی اصول سے خلوت کا تحفظ ہوتا ہے ، یہ دوستی اور محبت کو بے جا آزادی اور بے تکلفی کے بغیر برقرار رکھتا ہے ، اگر طلب کرنے پر اجازت نہ ملے تو اس سے گھر میں بلا اجازت داخل ہونے کا حق حاصل نہیں ہو جاتا ، تمہیں تین بار دستک دینے ( یا گھنٹی بجانے ) پر اگر اجازت نہ ملے تو واپس ہو جاؤ ، اگر تم سے واپس ہونے کے لئے کہا جائے تمہیں ( بغیر کسی ناگواری کے ) لوٹ جانا چاہیے ، گھر والے تمہارے بے کلف دوست ہی کیوں نہ ہوں ، تمہیں ان کی خواہش کے برعکس بغیر اطلاع و اجازت کے ان کے ہاں نازل ہو جانے کا کوئی حق نہیں ہے ۔

گھر میں خلوت کا احترام

اسلام گھریلو زندگی میں آداب و مراسم کے اصولوں کی پابندی پر بہت زور دیتا ہے ، گھر کے ملازموں کو نسبتاً زیادہ آزادی حاصل ہوتی ہے اس لیے کہ وہ ہر وقت آتے جاتے رہتے ہیں لیکن ان کی اس آزادی کے بھی کچھ متعین حدود ہیں ، تین وقتوں میں انہیں داخل ہونے سے پہلے اجازت لینی چاہیے ، 1. فجر کی نماز سے پہلے ، 2. دو پہر میں جب لوگ لباس کے معاملے میں تکلف ترک کر دیتے ہیں ، 3. عشاء کی نماز کے بعد خاص طور پر جب بچے بالغ ( سمجھدار ) ہو جائیں تو انہیں بھی ان اوقات میں اسی طرح اجازت لینے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ تخلیہ کے اوقات ہیں ، خلوت کا لحاظ بہت ضروری ہے ، یہ صاف ستھری اور منظم زندگی کے لئے بہت ضروری ہے ، گھر کے سب افراد کو دروازے پر آنے والے لوگوں سمیت ، ان صحتمند اصولوں کی پابندی کرنی چاہیے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے