ازقلم: عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری
زندگی کیا ہے؟ اسے جینے کا کیا مقصد ہے؟ عمر بے مقصد گزاری جائے یا بامقصد؟
شادماں زندگی کا راز کیا ہے؟؟
کیا آپ نے اپنی منزل کا تعین کیا ہے؟؟
زندگی کے بارے میں پالن ہار رب نے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہم نے انسانوں اور جنوں کو پیدا ہی اس لیے کیا کہ وہ اپنے رب کی عبادت کریں” ۔
میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سر فرازی
میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی
آئیےہم اس راستے کو تلاش کریں ، جس پر چل کر ہم اپنی مسرتوں کو دوام بخش سکتے ہیں ۔
زندگی کی پلاننگ
(1) علم کی تلاش، کیوں کہ
علم ذریعہ راحت، ذریعہ آراستگی، ذریعہ آگہی ہے۔اس کی آراستگی کا احساس گفتگو میں ملتااور اس کا لطف تنہائی میں عطا ہوتا ہے۔اس مقصد کی آبیاری کے لیے علم، مطالعہ، تجربہ اور بہتر ساتھیوں کا انتخاب راہ نمائی کرتا ہے۔
صحبت صالح ترا صالح کنند
صحبت طالع ترا طالع کنند
(2)اللہ کی رضا کے لیے کوشش۔ عبادات کا اہتمام ۔توکل، شکر اور صبر کی روش اپنائی جائے۔۔
(3)الله نے قسمت میں جو لکھ دیا ہےاس پر راضی ہو جائے ۔
(4)اچھے اخلاق اور عمدہ اقدار کی پاسبانی کیجیے۔انھیں اپنی عادات بنالیجیے۔ تقویٰ، علامات تقویٰ، متقیانہ زندگی، حیا، پاک دامنی، رازداری امانت ودیانت، سخاوت،فیاضی، قناعت، سادگی، میانہ روی، وسعت
ظرف، عفووحلم وغیرہ
(4) مہارتوں کا ادراک کیجیے۔ان سے بھر پور لطف اٹھائیے ۔ "عظمت حالات میں نہیں انسان کے اندرون میں ہوتی ہے، اسے روشن اور سُلگائے رکھنے کی ضرورت ہے” ۔اس کی ترقّی کے لیے شعوری کوشش کیجیے۔
(5) میٹھے بول میں جادو ہے۔اسی لیے کہا گیا کہ "زباں شیریں ملک گیریں”۔۔تواضع وانکسار، نرم خوئ، زندہ دلی، خوش دلی سیکھیے۔ ہمیشہ مسکراہٹ اپنے چہرے پر سجائے رکھیے ۔
(6)ایسے کام میں دخل نہ دیجیے جس سے آپ کاتعلق نہیں ہے ۔ دخل در معقولات سے بچیے۔ہر فرد کے لیے اس کی مناسبت سےرویّہ اختیار کیجیے۔دوسروں کی خو بیوں پر جم کر تعریف اور حوصلہ افزائی سے ان کی توقیر کیجیے۔تعلیم شعور نہیں دیتی بلکہ شعور تو تربیت سے آتا ہے۔
(7) Do not criticise
دوسروں پر تنقید کریں نہ تنقیص۔ لوگوں کی قدر کریں۔رذائل اخلاق سے بچیے ۔تکبّر،تُنک مزاجی،کم ظرفی، تنگ دلی، بخل، خود غرضی بے غیرتی، سفلہ پن، حرص، تصنع، نقالی ، اسراف، مایوسی، پست ہمتی ۔گوگوں کی عزت نفس اور ان کی نفسیات و مرتبہ کا خیال رکھیں ۔ہم اختلاف کرتے ہیں اس کے باوجود ہم گہرےدوست ہیں۔
کوئل نے آ کے کوک سنائی بسنت رت
(8) اگر غلطی ہوئی ہے تو فوراً اپنی غلطی کا اعتراف کیجیے۔ ہر طرح کے تکبر سے بچیے۔غلطی کے ازالے کا مناسب طریقہ اختیار کرکے فریق کو خوش کردیجیے۔معافی، معذرت، نرمی اور خندہ پیشانی کی روش اختیار کیجیے ۔ در گذر کرنا اور معاف کرناsorry کہنا سیکھیے ۔مسرتوں کی کانیں آپ کے اطراف ہی ہیں۔ کھیل کود، خوش نما منظر، جمال فطرت حسن، شیریں نغمہ،پرندوں کی چہکار، گرتے آبشار، کِل کِل کرتے جھرنے، اچھّی نظم،اشعار، اچھے آہنگ، تفریح اور مشغلے میں ۔خوش رہنا سیکھیے، کیونکہ خوش دلی کام کو آسان اور پُر لُطف بنا دیتی ہے اور بوریت اسے مشکل اور بد مزہ ۔من مارنے کی بجائے من لگانے کے ہُنر کو تلاش کیجیے۔
میں جمال فطرت حسن ہوں
میری ہرادا ہے حسین تر
جو جھکوں تو شاخ گلاب ہوں
جو اٹھوں تو ابر بہار ہوں
(9) گھر خاندان میں دشمنیاں بڑھتیں ہیں ہروقت تنقید، تنقیص،طنز، تحقیر، نکتہ چینی ،رعونت،چغلی،سوءظن،غیر ذمہ دارانہ، پھبتی، گفتگو، غیبت اور کیڑے چُننے سے۔ استاد بنے کی کبھی بھی کوشش نہ کیجیے۔ اپنے علم کا بکھان نہ کیجیے۔اپنی زبان کی حفاظت کیجیے ۔کم بولیں اورخاموش رہنا سیکھیں۔
Art of Listenning اور Art of discussion
سے بہت سارے
مسائل حل ہوجاتے ہیں ۔
کہاں سے فصل گلاب اس سرزمیں پہ ہوگی
وہ کشت جاں میں بیج ببول کے بو گیا
(10)ماضی کی تلخیاں بھلا کر مستقبل اور حال کے لیے تعمیری جدوجہد کیجیے۔مایوسی، یاس، قنوطیت، احساس کمتری سے باہر نکلیے۔قدر و منزلت وبرتری کی جدوجہد کیجیے۔خود اعتمادی کا راستہ تلاش کیجیے۔
(11) اولاد، کے ساتھ شفقت ،رحمت ،پیار کےخوش گوار تعلقات۔بیوی شوہر کے درمیان خوش گوار ازدواجی تعلقات ۔مسرت آمیز پیار بھرے صبح شام ،خوش مزاجی و دل جوئی۔قریبی رشتہ داروں سے گہرے مراسم، صلہ رحمی، محبت وہمدردی کا رویہ۔دوست احباب سے حُسن معاملات۔ کمزوروں سے رعایت، حسن سلوک اور مدد۔
(12) اُجلے کپڑے پر ہلکا سا دھبّہ بھی نظر میں آجاتا ہے۔دامن بد اخلاقی اور گناہ سےداغ دار نہ ہو۔اپنا دل دوسروں کے بارے میں صاف ستھرا کدورت سے پاک رکھنے کی کوشش کیجیے۔اپنی جنّت خود بنائیے۔کاملیت سے دور رہیے کہ کوئی بھی عیب سے خالی نہیں ۔
(12)بخیل شخص محتاجی میں زندگی گذارتا ہے، مالداری میں مرتا ہے، اپنی اولاد کے لیے مال سینت سینت کر رکھتا ہے۔آپ اپنی مسرتوں کا سودا کسی بھی قیمت نہ کیجیے۔سخاوت صرف مال دولت میں نہیں کشادہ دلی اور عمدہ اخلاق میں ہے۔
تمام امور میں اعتدال بہتر ہے۔یاد رکھیے زندہ لوگ اپنی دنیا آپ پیدا کرتے ہیں۔
(عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری کی زیر تصنیف کتاب فن پرورش وتربیتperanting سے ایک مضمون)