ازقلم: محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اسلام میں بیٹی اللہ کی رحمت ہے ، جنت میں لے جانے کا سبب ہے ، بیٹی بیوی بن جائے تو شریک حیات بن کر گھرکوپرسکون بنانے کا ذریعہ ہے ، اور جب وہ ماں بن جائے تو اس کے قدموں تلے جنت ہے ، بہن ہے تو اپنے بھائیوں اور خاندان کے لئے مونس وغم خوار ہے اور یہ عورت ہی ہے جو بڑی مصیبت اٹھا کر ہمیں دنیا میں لانے کا ذریعہ بنی ۔اسلام میں شادی کے وقت لڑکی والے پر کوئی مالی بوجھ نہیں ہے ،نان ونفقہ ، رہائش کے لئے مکان وغیرہ کی فراہمی لڑکے کے ہی ذمہ ہے ، خوشی میں بھوج دینا بھی جسے ولیمہ کہا جاتا ہے،اسی کی ذمہ داری ہے، ان سارے اخراجات کے ساتھ مہر کی ادائیگی بھی لڑکے کو ہی کرنی پڑتی ہے، جونکاح کے بنیادی لوازمات میںسے ہے ، اس لئے مسلمانوں کے یہاں دختر کشی کا عمل حمل کی حالت میںنسبتا ً کم ہے ،یہ اور بھی کم ہوسکتا ہے اگر ہم شریعت کے احکام کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے سلامی اور جہیز کے ذریعہ معیار زندگی بڑھانے کا خیال دل سے نکال دیں ، بدقسمتی سے یہ بیماری بہت سارے علاقوں میں مسلم سماج میںبھی داخل ہوگئی ہے ، جس کی وجہ سے بڑی عمر تک لڑکیوں کے ہاتھ پیلے نہیں ہو پارہے ہیں،مختلف شہروں اور علاقوں میں بڑی تعدادمیںلڑکیاں کنواری بیٹھی ہوئی ہیں ، اس صورت حال میں دخل ’’کفو‘‘ کے نام پر غیر ضروری میچنگ Maching دیکھنے کا بھی ہے ، دین داری اصل ہے ، اس میںبرابر ی کا تصور کم ہوتا جارہا ہے اور اس کی جگہ دوسری مختلف چیزوں کو’’ ناک‘‘ کا مسئلہ بنالیا گیا ہے ، شریعت کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ ایسا رشتہ جس کے دین واخلاق سے اطمینان ہو ، اس کو قبول کرلینا چاہئے ، اگر ایسا نہیں کیا گیا تو زمین میں بگاڑ پیدا ہونے کا خطرہ ہے ۔واقعہ یہ ہے کہ ہماری بدعقلی ، بے شعوری اور شرعی احکام کی ان دیکھی کی وجہ سے بگاڑ پیدا ہوچکاہے ، اور مختلف مذاہب کے مابین غیر شرعی شادی کا مزاج بڑھتا جارہاہے اور ہماری لڑکیاں محفو ظ نہیں ہیں ۔
ان دنوں لڑکیاں ایمان وعقیدہ کے اعتبار سے بھی غیر محفوظ ہو رہی ہیں، آئے دن غیر مسلموں کے ساتھ ان کے رشتے کی خبریں آ رہی ہیں ، فرقہ پرست طاقتوں کی طرف سے اسے مہم کی شکل دی گئی ہے، اس مہم میں کامیاب نوجوانوں کو خطیر رقم دی جاتی ہے، پہلے وہ لوگ بھولی بھالی مسلم لڑکیوں کو پیار ومحبت کے جھانسے میں پھنساتے ہیں، ساتھ گھومانے پھرانے کے ساتھ مختلف قسم کے تحائف دے کر انہیں خود سے قریب کرتے ہیں، پھر انہیں شادی کی پیش کش کرتے ہیں، اور جب وہ شادی کے لیے تیار ہوجاتی ہیں تو ان کا مذہب تبدیل کراکر ہندو رسم ورواج کے مطابق ان سے سات پھیرے لگوائے جاتے ہیں، کچھ دنوں کے بعد جب جی بھر جاتا ہے تو ان لڑکیوں کا قتل کرادیا جاتا ہے لاش کسی ریل کی پٹری پر مل جاتی ہے اور حکومتی سطح پر اسے خود کشی قرار دے کر فائل بند کر دی جاتی ہے ۔ملک کے مختلف حصوں اور بہار کے بہت سارے اضلاع سے اس قسم کی تشویشناک، المناک اور پریشان کن خبریں ہر دن موصول ہو رہی ہیں، اس طرح ان لڑکیوں کو دین وایمان سے بے زار کرکے ہندو مذہب میں داخل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس لیے بیٹیوں کے ایما ن وعقیدہ، عزت وآبرو کی حفاظت کے لیے انتہائی مستعدی کی ضرورت ہے اور ظاہر ہے جو اسباب وعوامل ہیں اس کو دور کیے بغیر ہم بیٹیوں کی حفاظت نہیں کر سکتے۔
ہماری لڑکیاں ان کے جال میں جن وجوہات سے پھنستی ہیں، ان میں ایک بڑا سبب اختلاط مرد وزن ہے، یہ اختلاط تعلیمی سطح پر بھی ہے اور ملازمت کی سطح پر بھی، کوچنگ کلاسز میں بھی پایا جاتا ہے اور ہوسٹلز میں بھی، موبائل انٹرنیٹ، سوشل میڈیا کے ذریعہ یہ اختلاط زمان ومکان کے حدود وقیود سے بھی آزاد ہو گیا ہے، پیغام بھیجنے اور موصول کرنے کی مفت سہولت نے اسے اس قدر بڑھا وا دے دیا ہے کہ لڑکے لڑکیوں کی خلوت گاہیں ہی نہیں، جلوت بھی بے حیائی اور عریانیت کا آئینہ خانہ بن گئی ہیں، یہ اختلاط اور ارتباط آگے بڑھتا ہے تو ہوسناکی تک نوبت پہونچتی ہے، جسے محبت کے حسین خول میں رکھ کر پیش کیا جاتا ہے، والدین اور گارجین یا تو اتنے سیدھے ہیں کہ انہیں لڑکے لڑکیوں کے بے راہ روی کا ادراک ہی نہیں، یا اتنے بزدل ہیں کہ وہ اس بے راہ روی پر اپنی زبانیں بند رکھنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں، یا تلک جہیز کی بڑھتی ہوئی لعنت، شادی کے کثیر اخراجات کے خوف سے اسی میں عافیت سمجھتے ہیں کہ لڑکیاں اپنا شوہر خود تلاش لیں، کورٹ میریج کرلیں؛ تاکہ یہ درد سر ان سے دور ہوجائے، ان خیالات کے پیچھے ان کی غربت اور دینی تعلیم وتربیت سے دوری کا بڑا دخل ہوتا ہے، اگر بنیادی دینی تعلیم وتربیت والدین اور لڑکے لڑکیوں کے پاس ہو تو انہیں اس کا ہرپل احساس ہوگا کہ غربت اور شادی کے حوالے سے پریشانیاں وقتی ہیں اور ایمان چلے جانے کی صورت میں آخرت کا عذاب حتمی اور لازمی ہے تو شاید ان کے لیے ان وقتی پریشانیوں کو جھیل جانا آسان ہوجائے۔
اس بُرائی سے گذرنے والی لڑکیوں کے اندر ایک طرف تو خوف خدا نہیں ہوتا دوسری طرف عدالت کے مختلف فیصلے کے ذریعہ جس میں عورتوں کی آزادی کے نام پربے لگام جنسی تعلقات کو جائز قرار دیا گیا اور طوائفوں کی طرح ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کو قانونی حیثیت حاصل ہو نے کی وجہ سے وہ جری ہو گئی ہیں، اب وہ ایک مرد کی بیوی رہتے ہوئے دوسرے کے بستر گرم کرنے کے لیے آزاد ہیں، شوہر اس بے راہ روی پر طلاق کی عرضی عدالت میں دے سکتا ہے؛ لیکن اس پر کوئی دارو گیر نہیں کر سکتا، اس قسم کے فیصلے نے ان کے دل سے سماجی خوف کو نکال دیا ہے اور وہ اپنی من مانی پر اتر آئی ہیں، انہیں نہ اللہ رسول کا خوف ہے اور نہ سماج کا، رہ گیا قانون تو وہ ان کی پیٹھ پر ہاتھ رکھے ہوئے کھڑا ہوا ہے، ایسے میں بے
راہ روی عام ہوتی جا رہی ہے۔
یہ بے راہ روی کنواری لڑکیوں میں تاخیر سے شادی کی وجہ سے بھی آتی ہے اور عورتوں میں شوہر کے بسلسلہء ملازمت ان سے دور رہنے کی وجہ سے بھی، یہ دوری ملکی ملازمت میں بھی ہوتی ہے؛ لیکن غیر ملکی ملازمت کے حدود وقیود کی وجہ سے دوسرے ملکوں میں کام کرنے والے شوہروں کے یہاں کچھ زیادہ ہی ہوجاتی ہے۔ مجبوریاں اپنی جگہ؛ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس دوری کی وجہ سے بڑے مفاسد پیدا ہوتے ہیں،ارتداد کی اس نئی لہر سے ہر ایمان والے کا بے کل اور بے چین ہونا فطری ہے، ضرورت ہے کہ ان اسباب کو دور کیا جائے، جس کی وجہ سے ہماری لڑکیاں مرتد ہو رہی ہیں اور غیر مسلم لڑکوں سے شادی کرکے اپنی عاقبت خراب کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔
ظاہر ہے اس فتنہ کا تدارک کسی ایک شخص اور تنظیم کے بس میں نہیں ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ گاؤں اور محلہ کے مسلم اور غیر مسلم دانشورسر جوڑ کر بیٹھیں، اس لیے کہ اس مسئلہ سے سماج میں تناؤ پیدا ہوتا ہے، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہونچتا ہے، اس کے علاوہ وقفے وقفے سے خواتین کے اجتماعات رکھے جائیں ان میں جوان لڑکیوں کو خصوصیت سے بلایا جائے، آر اس اس کی ترغیبی مہم سے آگاہ کرنے کے ساتھ انہیں اس راہ پر بڑھنے کے دنیوی اور اخروی نقصانات کو تفصیل سے بیان کیا جائے، اس کام کے لیے تمام ملی تحریکیں اور تنظیمیں آگے آئیں اور اپنے اپنے حلقہ اثر میں اس فتنہ کے تدارک کی کوشش ترجیحی بنیادوں پر کریں، مسلم گھرانوں کے اندرونی حالات پر بھی نگاہ رکھی جائے اور مقامی سطح سے اصلاح کا کام شروع کیا جائے، غیر مسلم لڑکوں کے مسلم محلہ میں ٹیوشن پڑھانے اور دوسرے مقاصد سے آنے پر بھی نگاہ رکھی جائے، مرد وزن کے اختلاط سے بچا جائے، اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں لڑکے لڑکیوں کے سکشن الگ الگ کرنے کے لیے اداروں کے ذمہ داروں سے باتیں کی جائیں، مدارس والے بھی لڑکیوں کے لیے الگ تعلیم کا نظم کریں، تلک وجہیز کی لعنت کو ختم کیا جائے، انڈرائڈ موبائل سے لڑکیوں کو بچایا جائے اور ان کی حرکات وسکنات پر خصوصی توجہ دی جائے، تاکہ پہلے مرحلہ میں ہی اس کا سد باب ہوسکے، لڑکیوں کو وراثت میں حصہ دینے کی مہم چلائی جائے اور مورث کو ان کی حق تلفی سے روکا جائے۔
جن علاقوں میں ارتداد کی یہ نئی قسم سامنے آئی ہو، اس کا مقامی سطح پر سروے کرایا جائے، گارجین کی جانب سے گم شدگی کا اف آئی آر درج کرایا جائے، وکلاء سے قانونی مدد لی جائے، تاکہ ایسی لڑکیوں کی گھر واپسی کا کام آسان ہوجائے، حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم اس سلسلے میں کافی فکر مند ہیں، اور ممکن ہے کہ جلد ہی بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ میں اصلاح معاشرہ کے عنوان سے کوئی تحریک شروع کی جائے، تحریک اسی وقت کامیابی سے ہم کنار ہوگی جب سماج کے ہر طبقہ کا تعاون اسے ملے گا۔