ازقلم: عبدالرحمن قاسمی
ایڈیٹر نگارشات ڈاٹ کام
شکیل رشید صاحب (25اگست 1960ء) معروف صحافی، ممتاز تجزیہ نگار اور تبصرہ نگار ہیں، اُن کی صحافتی خدمات تقریباً تین دہائیوں پر محیط ہے، اُنہوں نے ممبئی کے مشہور انجمن اسلام ہائی اسکول سے میٹرک کرنے کے بعد مہاراشٹرا کالج سے سیاسیات میں گریجویشن کیا ، اس کے بعد ایل ایل میں داخلہ لیا ، لیکن ایک سال بعد گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے وہ اپنی تعلیم مکمل نہیں کرسکے ، اُنہوں نے صحافت کی ابتداء روزنامہ ’ہندوستان‘ سے کی پھر ہفتہ روزہ ’اخبار ِ عالم‘سے وابستہ ہوئے اور ایک طویل عرصے تک اس اخبار سے مربوط رہے، مختلف موضوعات و عناوین پر رپورٹس کیے ، اُس کے بعد ’روزنامہ انقلاب‘ سے منسلک ہوئے اور پھر ’اردو ٹائمز‘ جوائن کیا ، ابھی آپ ممبئی کے مشہور اخبار ’ممبئی اردونیوز‘ کے ایڈیٹر ہیں، اور بے باک و بے لاگ انداز میں صحافتی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
آپ صحافت کی باریک بینی سے بخوبی واقف ہیں، آپ کئی صحافیوں کے استاذ ہیں، اللہ نے آپ کو مطالعہ ٔ کتب کا خوب شوق دیا ہے، آپ کثیر المطالعہ ہیں، یہ وہ خوبی ہے جو آپ کو اپنے ہم عصر دیگر صحافیوں، تجزیہ نگار وں اور تبصرہ نگاروں سے ممتاز کرتی ہے، آپ کی امتیازی وصف بہ کثرت مختلف زبان میں لکھی گئیں کتابوں کا مطالعہ کرنا ہے، ہفتہ میں آپ کے تین طرح کی تحریریں ممبئی اردو نیوز بالخصوص اور ملک بھر کے اخبارات میں بالعموم شائع ہوتی ہیں۔ ایک’خاص کالم‘ مفصل لکھتے ہیں، جس میں آپ موجودہ مسائل پر گفتگو کرتے ہیں، تجزیہ پیش کرتے ہیں اور کھل کر بے باک انداز میں لکھتے ہیں،حق شناس ہیں، حق لکھنے کے عادی ہیں، اُس کے علاوہ ’اتواریہ‘ شائع ہوتا ہے، جو اس کے بالمقابل مختصر ہوتا ہے، اُس میں بھی حالات حاضرہ سے ہم آہنگ مسئلہ یا پیش آمدہ کسی ضروری مدعی پر لکھتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ بلاناغہ ہر جمعہ کو ’باتیں کتابوں کی..‘کے عنوان کے تحت علمی، ادبی ، فکری، تحریکی، سیاسی، سماجی وثقافتی موضوعات پر لکھی گئی کتابوں، رسائل و مجلات پر تبصرہ پیش کرتے ہیں، آپ کا تبصرہ ادب سے پُر، معلومات سے لبریز اورحقیقت کاعکس و آئینہ ہوتا ہے۔
کسی بھی کتاب پر تبصرہ کرنا وقت طلب اور دماغ سوزی کا کام ہے ،ڈاکٹر خوشتر منصور تبصرہ نگاری کے حوالے سے لکھتے ہیں :
’’ تبصرہ صحیح معنوں میں ایک مشکل عمل ہے۔ جس کے لیے تحقیقی و تنقیدی بصیرت کے ساتھ علوم و فنون سے بھی واقفیت لازمی ہے، تبھی وہ صحیح معنی میں تبصری نگاری کا حق ادا کر سکتا ہے‘‘
ایک بہترین اور ایماندار تبصرہ نگار پوری کتاب کا مطالعہ کیے بغیر تبصرہ نہیں کرتا ہے، اسی طرح وہ ایک کتاب پر تبصرہ کرتے وقت ہر ہر پہلو پر نظر رکھتا ہے، وہ جہاں مصنف و مرتب کی کوشش و کاوش کو سراہتا ہے وہیں خامیوں پر بھی نظر رکھتا ہے اور تنقیدی تبصرہ کرتا ہے، صرف تعریف کے پل نہیں باندھتا ہے ، اس طرح کےتبصرے ’اخلاص‘ سے لکھے جاتے ہیں ، اور اس طرح لکھنے والے نایاب نہیں تو کم یاب ضرور ہیں، ورنہ تو آج جس کے ہاتھ کسی کی طرف کوئی کتاب ہدیہ میں ملتی ہے ،یا صاحب ِکتاب تبصرہ کے لیے بھیجتا ہے تو دیکھنے میں آتا ہے کہ کتاب مطالعہ کیے بغیر صرف چند اوراق الٹ پلٹ کر، فہرست عناوین اور تقریظ و تاثرات کے کچھ اقتباسات نقل کرکے خانہ پُری کردی جاتی ہیں، جو کہ بالکل دیانت کے خلاف ہے۔کتاب کے حرف حرف کو پڑھنا اور پھر اُس پر اپنے تاثرات کا اظہار کرنا مشکل ضرور ہے ،مگر اُس اخلاص کی برکت تحریر میں عیاں ہوتی ہےاور اس طرح کے تبصرے جاندار ہوتے ہیں۔بحمد اللہ یہ اوصاف شکیل رشید صاحب کے تبصروں میں پایا جاتا ہے، وہ جس کتاب پر تبصرے کرتے ہیں ، اُس کا حق ادا کردیتے ہیں، حالاں کہ اُنہیں اخبار کی ادارتی ذمہ داری بھی ہے، اخبار میں شائع ہونے والے ہر خبر پر نظر، عناوین کے انتخاب اور عدم ِ انتخاب میں درستگی اور غیر درستگی میں غور و فکر کرنا، حسب ِضرورت حذف و ترمیم کرنا ، ہرروز کے مراسلات دیکھنا ، اہم خبروں کو چھاٹنا، اور پھر خبروں کی اہمیت وضرورت کے اعتبار سے ترتیب دینا، یا یہ کہ اپنے ماتحت کام کررہے صحافیوں اور رپورٹروں کی توجہ مبذول کرانا اور بتانا، خبروں کا تجزیہ کرنا یہ ہردن کےوہ ذمہ داریاں ہیں جس سے کسی بھی اخبار کے ایک ایڈیٹر کو چھٹکارا نہیں ہے، پھر بھی اِن ذمہ داریوں کے باوجود وقت نکال کر پوری محنت اور شوق کے ساتھ کتابوں کا مطالعہ کرنا اور پھر اپنے تاثرات کا اظہار کرنا کوئی شکیل رشید صاحب سے سیکھے، کبھی ایسا نہیں ہوا ہے کہ کوئی کتاب، رسالہ یا مجلہ چاہے وہ جس فن کی بھی ہو ’ممبئی اردو نیوز ‘ کے دفتر گئی ہو ،دیر نہ سہی اُس پر آپ نے تبصرہ نہ کیا ہو، شکیل رشید صاحب چارکتابوں کے اجتماعی طور پر مختصرا تعار ف کے تمہیدی گفتگو میں لکھتے ہیں :
’’کسی اخبار کے دفتر میں، کوئی دن ایسا نہیں ہوتا جب پوسٹ یاکورئیر سے کتابیں نہ آتی ہوں۔ اور کبھی کبھی تو یوں ہوتا ہے کہ کتابیں دستی آجاتی ہیں ، صاحبِ کتاب خود کتابیں لے کر دفتر پہنچ جاتے ہیں۔ ہر ایک کی یہ خواہش ہوتی ہے، اور وہ اپنی خواہش میں حق بجانب بھی ہوتے ہیں، کہ ان کی کتابوں پر تبصرے دے دیے جائیں یا کتابوں کا تعارف ہی آ جائے ۔ یہ ممکن نہیں کہ اخبار کا کام کرتے ہوئے سب کتابیں پڑھی جا سکیں۔ یہ میرے اور میرے اخباری ساتھیوں کے بس سے باہر ہے ۔ لیکن چونکہ کتابیں دی گئی ہیں اس لیے، ان پر تفصیلی تبصرہ نہ سہی، ان کا تعارف کرانا ضروری ہے۔یہ اخلاقی تقاضہ بھی ہے‘‘
(زیر ترتیب کتاب’باتیں کتابوں کی’ سے اقتباس)
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ شکیل رشید صاحب ممبئی اردو نیوز کے دفتر کے پتہ پر بھیجی گئی ہرطرح کے رطب
و یابس کے مجموعوں (کتابوں ) پر تبصرہ لکھ دیتے ہیں، نہیں بلکہ وہ اس سے حد درجہ احتیاط کرتے ہیں وہ اپنے ایک اعلامیہ میں لکھتے ہیں :
’’روزنامہ ممبئی اردو نیوز میں جولوگ کتابوں پر لکھے لکھائے تبصرے بھیجتے ہیں، انہیں یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ دفتر کے پتے پر کتابیں بھیجیں، پسند آنے پر، ان پر تبصرے کیے یا بھیجے ہوئے تبصروں کو درست کرکے شائع کیا جائے گا، دفتر تک نہ پہنچنے والی کتابوں پر تبصرے شائع نہیں کیے جائیں گے۔ (شکیل رشید)
حاصل یہ ہے کہ شکیل رشید صاحب کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ ’ممبئی اردو نیوز ‘ کے دفتر میں بھیجی گئی کتابوں پر پڑھنے کے بعد اپنا تبصرہ ضرور لکھیں، چناں چہ وہ حسب ِفرصت لکھتے بھی ہیں، اُن کی تبصراتی تحریروں کے ترتیب و جمع کے دوران تقریباً ایک سو دس کتابوں، رسائل اور مختلف مجلات کے شمارے پر لکھے گئے تبصروں کو بغور پڑھنے کے بعد راقم السطور کا خیال یہ ہے کہ اب تک اس قدر ایماندار تبصرہ نگار کم از کم میری آنکھوں نے نہیں دیکھا، اس لیے مجھے اُن کی زندگی کے ایک خاص پہلو ’بہ حیثیت تبصرہ نگار‘ معاصر تبصرہ نگاروں میں سب سے ممتاز معلوم ہوتا ہے۔اسم کاویانی کی کتاب ’اکبر الہ آباد ی اپنی شکست کی آواز ‘ پر لکھے گئے تبصرے کے اس ابتدائی پیرا گراف کو پڑھیے:
’’اسیم کاویانی اردو زبان وادب کے ان لکھاریوں میں سے ہیں ،جن کی تحریروں سے، اتفاق اور اختلاف کرنے والے ، دونوں ہی لطف لیتے ہیں ۔ میں بھی ان میں سے ایک ہوں ۔ ان کی زبان رواں ،سلیس اور ابہام سے پاک تو ہے ہی
، ایک خوبی ،تحریروں میں زیریں سطح پر پائی جانے والی وہ کاٹ بھی ہے جسے طنز کہا جاتا ہے۔محاوروں ، کہاوتوں اور ضرب الامثال اور مصرعوں کا بر محل استعمال ان کے طنز کو دھار دار بنا دیتا ہے،کچھ اتنا دھار دار کہ’ تحریر کی لذت‘ میں کھوئے قارئین اُن جملوں پر بس سرسری توجہ ہی دے پاتے ہیں،جن میں وہ ،اپنی بات ثابت کرنے کے لیے، حوالے دینے کی بجائے ’ راقم کا خیال ہے کہ ‘ یا ’ اگر غور کیا جائے تو ‘ جیسے جملے لکھ کر اپنی دلیل کو زوردار بناتےنظر آتے ہیں۔ لیکن وہ ایسا کم ہی کم کرتے ہیں، ان کی زیادہ تر دلیلیں، حوالوں کے ساتھ ہی ہوتی ہیں ۔ اور جہاں حوالے نہیں ہوتے وہاں بات ایسی ٹھوس لگتی ہے کہ دل و دماغ کی گواہی کے باوجود کہ ’ایسا نہیں ہو سکتا‘ ان کی بات صحیح لگتی ہے۔ اسیم کاویانی کی ایک خوبی کسی جھجک اورکسی کی پرواہ کیے بغیر وہ بات’ جو وہ کہنا چاہتے ہیں’کہہ دینا ہے۔ اکثر ان کے ’ لبرل ‘ خیالات اور تحریریں لوگوں کو اکساتی اور طیش دلاتی ہیں ‘‘
(زیر ترتیبباتین کتابوں کیسے اقتباس)
اِس اقتباس کو پڑھیے اور سر دھنیے کہ شکیل رشید صاحب نے کس خوش اسلوبی کے ساتھ اسیم کاویانی کی تحریری خصوصیات و امتیازات کا داد دیتے ہیں، اور پھر پوری کتاب پر مفصل تبصرہ کے لکھنے کے بعد تنقیدی پہلو سے کچھ اس طرح رقم طراز ہیں :
’’کتاب کا موضوع اچھا تھا، اگر اسیم کاویانی ’ نظریاتی عصبیت ‘ کو دور رکھ کر اسے لکھتے تو یہ کتاب کہیں شاندار ہوتی، اس میں تضادات نہ ہوتے اور نہ ہی اس پر ایک خاص نظریے کی چھاپ ہوتی ۔ مجھے کتاب پڑھ کر لطف آیا، لیکن میں اس سے کُلی اتفاق نہیں کرسکا، بلکہ کہیں کہیں کچھ جملے بے چینی کی کیفیت پیدا کر گئے، دوسرے پڑھنے والے بھی اس کیفیت سے گزر سکتے ہیں۔ میں لوگوں کو مشورہ دوں گا کہ وہ اس کتاب کو ضرورپڑھیں تاکہ اس موضوع پر مزید گفتگو ممکن ہو سکے ۔کتاب ادبی پرچے ’ نیا ورق ‘ کے مدیر شاداب رشید کے اشاعتی ادارے ’ کتاب دار ‘ نے شائع کی ہے ( 9869321477)۔چلتے چلتے : کیا ’ اختتامیہ ‘ میں اسیم کاویانی نے شمس الرحمٰن فاروقی کے انتقال کی خبر پر جو لکھا ہے ،وہ لکھا جانا چاہیے تھا؟ یہ سوال ان سب قارئین سے ہے جنہوں نے یہ کتاب پڑھی ہے یا پڑھیں گے‘‘
(زیر ترتیب کتاب سے اقتباس )
ان دونوں اقتباسات سے بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شکیل رشید صاحب کے تبصروں کامعیار کیا ہوتا ہے، اور اُن کے تبصرے کیوں قارئین کو بے حد پسند آتی ہے، وہ کیوں اپنے قارئین میں اس قدر محبوب ہیں۔ اس کی ایک وجہ ’اثبات کتابی سلسلہ ‘ کے مدیر اشعر نجمی لکھتے ہیں :
مؤقر روزنامہ ’ممبئی اردو نیوز ‘ اور اس کے ایڈیٹر شکیل رشید صاحب کی کرم فرمائی مجھ پر اور میری کتابوں پر شروع سے ہی رہی ہے۔ کتابوں پر تبصرے آنے عام بات ہیں، تقریباً ہر اخبار میں تبصرے چھپتے رہتے ہیں لیکن ان میں سے بیشتر تبصرے صرف کالم بھرنے کے لیے لکھے جاتے ہیں۔ شکیل رشید بہت کم تبصرے کرتے ہیں اور جب بھی کرتے ہیں، کتاب پڑھنے کے بعد ہی کرتے ہیں ، حتیٰ کہ ضرورت پڑنے پر وہ صاحب کتاب سے رابطہ کرکے کتاب مذکور پر اپنے کچھ تجسس کو شانت بھی کرتے ہیں، اسی لیے ان کے تبصروں میں انہماک، بے ساختگی اور ارتکاز نمایاں نظر آتے ہیں۔
الحاصل شکیل رشید کی صحافتی خدمات قابل رشک ہے ہی ، اُس سے بڑھ کراُن کی کتابوں سے محبت، کتابوں کا مطالعہ اور کتابوں کا تعارف اُن کی خاص شناخت ہے ،اللہ انہیں اس پہچان کے ساتھ طویل عمر دے ، خدمات کو قبول فرمائے اور کوششوں کو بارآور کرے ۔(آمین)