رہ گئی رسم قربانی، اٹھ گیا عشقِ خلیل

تحریر: شاہ مدثر،عمرکھیڑ

حضرت ابراہیم علیہ السلام
اولو العزم۔۔۔
ثابت قدم۔۔۔
عزیمت واستقامت۔۔۔
تسلیم و رضا اور اطاعت ربانی کے پیکر تھے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام تین رات متواتر خواب دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے۔ ” اے ابراہیم ! تو ہماری راہ میں اپنے اکلوتے بیٹے کو قربان کر دے۔” ذرا تصور کیجیئے! یہ سخت ترین آزمائش حضرت ابراہیمؑ کے لئے تھی، یہ بھی کوئی معمولی امتحان نہ تھا، سخت آزمائش کا مرحلہ تھا۔
لیکن قربان جائیے۔۔!
بڑھاپے اور پیرانہ سالی کی تمناؤں کا مرکز، راتوں اور دنوں کی دعاؤں کا ثمر،
قلب ونظر کا چراغ،
سیّدنا حضرت اسماعیل علیہ السلام پر۔۔۔۔۔ جو حکم الہیٰ کی تعمیل میں قربان ہونے کے لئے تیار ہیں۔۔ چوں کہ اس امتحان و آزمائش میں حضرت اسماعیل علیہ السلام بھی شریک تھے۔۔۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام بھی اپنے والد کی طرح اطاعتِ الہیٰ کے پابند تھے۔ فوراً ہی سر تسلیم خم کردیا اور کہا ” اگر خدا کی یہی مرضی ہے تو آپ انشاء اللہ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔” باپ بیٹے کی ایسی اطاعت و فرمانبرداری۔۔۔ ایثار وقربانی۔۔۔ یقیناً چشمِ فلک نے کبھی ایسا منظر نہیں دیکھا ہوگا۔

یہ فیضانِ نظر تھا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل ؑ کو آداب فرزندی

معزز قارئین! ماہ ذی الحجہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کا وہ عمل ہے جسے پڑھ کر اور سن کر ملت اسلامیہ میں صبر و استقامت‘ اطاعت و فرمانبرداری اور ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ انبیائے کرام علیہم السلام کو اسلام کی سربلندی کی خاطر بے شمار امتحان وآزمائش سے دو چار ہونا پڑا۔ ہر نبی اور رسول کے امتحان کا انداز مختلف تھا۔ اللہ تعالیٰ کے انہیں برگزیدہ پیغمبروں میں سے ایک حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنا خلیل ( گہرا دوست) قرار دیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ساری زندگی دین کے لیے پیش کی جانے والی عظیم قربانیوں سے عبارت ہے۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام کا مختلف طریقوں سے امتحان لیا گیا اور آپ ہر امتحان میں کامیاب ہوگئے: وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ (سورۃ البقرہ:124) اور جب پروردگار نے چند باتوں میں ابراہیم کی آزمائش کی تو ان میں پورے اترے۔ خدا نے کہا کہ میں تم کو لوگوں کا پیشوا بناؤں گا۔ غرض کہ ابراہیمؑ ہرآزمائش پر صبر وتحمل کی چٹان اور استقامت کے پہاڑ بنے رہے، بڑے سے بڑا امتحان آپ کے پائے استقامت میں ذرہ برابر فرق نہ لاسکا، کٹھن سے کٹھن آزمائش آپ کی ثابت قدمی کو بدل نہ سکی۔ یہی صبر و استقامت اور بے مثال قربانی اللّٰہ کو بہت پسند آئی ۔ اس لئے اللّٰہ تعالٰی نے حضرت ابراہیمؑ کی یاد کو قیامت تک کے لئے باقی رکھا، آپ کی سیرت طیبہ سے ہمیں یہ پیام ملتا ہے کہ مصائب ومشکلات خواہ کتنے ہی سخت کیوں نہ ہوں، بندہ کو چاہئے کہ ہمیشہ صبر و تحمل کو اختیار کرے، استقلال واستقامت کا مظاہرہ کرے، اپنے عقیدہ وایمان پر قائم رہے اور ہر حال میں راضی رہے۔ ‌حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یاد اہل اسلام کو ایک نئے جوش وخروش سے ہمکنار کرتی ہے، آپ کے تذکرہ سے مردہ دلوں کو نئی زندگی ملتی ہے، مایوس دل کوحوصلہ ملتاہے، آپ کے واقعات سننے سنانے سے عقیدہ میں پختگی اور عمل میں چستی پیدا ہوجاتی ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ آج ہمارے دل جذبۂ ابراہیمیؑ سے بالکل خالی ہوچکے ہیں۔ عید الاضحیٰ کے دن سینکڑوں نہیں بلکہ لاکھوں جانور قربان ہوتے ہیں،لیکن دل روحِ ابراہیمیؑ سے خالی ہوتا ہے۔ قربانی کا عمل جذبۂ قربانی کو پیدا کرنے کا عمل ہے۔ بغیر قربانی کے کسی بھی طرح کا انقلاب ممکن نہیں ہے، ہر دور میں قوم و ملت کو قربانی کی ضرورت رہی ہے۔اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے جان، مال، وقت، اولاد، وطن، نفسانی خواہشات سمیت ہر طرح کی قربانیاں دینا پڑتی ہیں اور حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی اسی چیز کا ہمیں درس دیتی ہے ہمیں یہ بات ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ قربانی صرف جانور ذبح کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ اپنی ناجائز خواہشات پر بھی چھری پھیرنے کا نام قربانی ہے۔قربانی کا اصل مقصد تو یہی ہے کہ ہم اپنی خواہش کو شریعت کا تابع بنا دیں۔ لیکن ہم قطعًا اس سے غافل رہتے ہیں۔ اسی لئے یہ قربانی اور اسوہ ابراہیمی ہمیں ہر سال جھنجھوڑتی ہے۔ پھر ہم نے یہ کبھی سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی جو ہر سال ہم جانوروں کی قربانی دیتے ہیں آخر اس کا مقصد کیا ہے؟؟ قربانی کا عمل ہمیں کیا سیکھا رہا ہے؟؟ اور ہمیں کس مشن کے لئے تیار کررہا ھے؟؟ ہماری یہ کوشش ہی نہیں ہوتی کہ ہم اس قربانی کے عمل سے کچھ سبق حاصل کریں۔اگر ایسا ہوتا تو آج ہم جانوروں کے گوشت اور ان کے پکوانوں اور لذتوں پر پرلطف تبصرے نہ کرتے، بلکہ ایک دوسرے کو عیدالاضحٰی کے موقع پر جذبۂ ابراہیمیؑ کا ذکر کرتے ہوئے نظر آتے، اگر ہم نے اب بھی قربانی کے اصل مقصد کو نہ سمجھا تو گویا ہمارا جانور کی گردن پر چھری گھمانا فائدہ سے خالی ہوگا۔ جس وقت جانور کے گلے پر چھری چلے تو ہر بندۂ مومن کو یہ خیال کرلینا چاہیے کہ یہ چھری آج میرے اس نفس پر چل رہی ہے جو مجھے اپنے رب سے دور اور اس کی نافرمانی پر ہمیشہ اکساتا ہے۔ قربانی کا عمل محض ایک رسم یا رواج نہیں بلکہ یہ ایک تجدیدِ عہدِ وفا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ کے حکم پر اس دن صرف جانور قربان کردینا مقصد نہیں ہے بلکہ ہمیں ساری زندگی میں اللہ کی رضا کی خاطر اپنے مال واسباب، تن من، اولاد غرض یہ کے ہر اُس خواہش اور حسرت کی قربانی دینی ہے جس سے ہمارا رب راضی ہوجائے۔ اپنی ہر خواہش کو، اپنی ہر چاہت کو، ہر محبت کو اور ہر جذبے کو اللہ کی محبت اور حکم پر قربان کرنا ہی ابراہیمیت ہے۔ آج ہر مسلمان کو اسی جذبہ کی ضرورت ہے۔ اظہارِ بندگی کے لیے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کرنا بندہ مومن کا شیوہ ہونا چاہیے۔کیونکہ ہمارا جینا، ہمارا مرنا اور ہماری پوری زندگی اللہ تعالیٰ کے لیے وقف ہے۔ اور یہی ایک مسلمان کی زندگی کا حقیقی مقصد ہے۔ معزز قارئین! آج ملکی سطح سے لے کر عالمی سطح تک اسلام اور اہلِ اسلام کو مٹانے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں، کفر ایک صف میں کھڑا ہوکر زور آزما رہا ہے۔ ان حالات میں انتہائی ضروری ہوجاتا ہے کہ ہم اپنے دلوں میں عشقِ ابراہیمیؑ کو پروان چڑھائے، ہر طرح کی قربانیوں کے لئے خود کو تیار رکھیں۔ یہ ”سنت ابراہیمی” ہمیں اس بات کا درس دیتی ہے کہ ہم دین کی عظمت وسر بلندی، اسلام کی ترویج واشاعت، اعلائے کلمۃ اللہ، اسلام کی بقاء اور امت مسلمہ کے اتحاد کے لیے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کریں۔لہٰذا ان پر آشوب حالات میں قربانی کے عمل سے اپنے اندر عشقِ ابراہیمیؑ کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔۔۔اس لئے پورے خشوع و خضوع اور اخلاص وللہیت کے ساتھ قربانی کا عمل انجام دیں۔۔کیونکہ جذبہ قربانی کا شوق بارگاہ الٰہی میں ہمارے تقویٰ کا ا ظہار اور قرب الٰہی کا ذریعہ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے