رہ گئی رسم قربانی اٹھ گیا عشق خلیل

یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہے کہ انسانی زندگی عقیدت و فدائیت، عشق و محبت ، خود سپردگی ، عجز و نیاز اور پرستش و عبودیت کا مجموعہ ہے، انسان اپنے ان ہی جذبات کی تسکین کے لئے اور اپنے محبوب رب العالمین کی رضاو خوشنودی حاصل کرنے اپنا سب کچھ لٹانے کے لئے ہر وقت آمادہ وتیار رہتا ہے، اسی فطرت انسانی کی تکمیل کے سامان کے طور پر مسلمانوں کو عیدِ قربان عطا کی گئی جوکہ عینِ فطرت ہے.اللہ تعالیٰ جو تمام مخلوقات کا خالقِ برحق ہے اس نے روزاول سے آج تک عبادت کی ایک شکل جانور کی قربانی رکھی ہے۔ قربانی کا مقصد یہ ہے کہ بندہ ٔمومن صرف اور صرف خداوند عالم وحدہ لاشریک لہ کے سامنے سرتسلیم خم کردے اورجو کچھ وہ حکم کرے بے چون و چرا کرگزرے. چنانچہ ہر مذہب و شریعت میں ابتدائے آفر پیش ہی سے قربانی کا تصور کسی نہ کسی حیثیت سے رہا ہے ، تاریخ انسانی کی سب سے پہلی قربانی کا ذکر حق تعالیٰ نے ان الفاظ میں فرمایا و اتل علیھم نبأ ابنی آدم بالحق اذ قربا قربانا فتقبل احدھما ولم یتقبل من الآخر قال لا قتلنک قال اما یتقبل اللہ من المتقین.
دوسری طرف اگر ہم دیکھیں تو یہودیت میں بھی قربانی کا واضح تصور اس طرح پایا جاتا ہے کہ وہ حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کے واقعہ قربانی کو حضرت اسحاق علیہ السلام کی طرف منسوب کرتے ہوئے ان کو ذبیح اللہ قراردیتے ہیں ،اسی طرح مشرکین مکہ بھی قربانی کرتے تھے مگر وہ قربانی کا گوشت خود کھاتے تھے اور اس مذبوحہ کے خون کو دیوار کعبہ پر مل دیتے تھے؛ اور یہ سمجھتے تھے کہ خون
خدا تک پہنچ گیا اور ہماری قربانی قبول ہوگئی اللہ نے ان کے اس خیال فاسد کی تردید اور قربانی کی اصل روح کو بیان کرتے ہوئے فرمایا، لن ینال اللہ لحومہا ولا دماءھاولکن ینالہ التقوی منکم ہندوستانی مذاہب پر اگر طائرانہ نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ برہمن لوگ
اپنے دیوی دیوتاؤں کے نام پر جانوروں کی قربانیاں دیتے اور ان کا گوشت آپس میں تقسیم کرتے تھے ، اسی طرح قدیم ہندو مذہب ہندومت میں بھی قربانی معرفت و قرب الہی کا ایک وسیلہ سمجھی جاتی تھی.مذکورہ تمام واقعات سے یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ جانوروں کی قربانی زمانہ قدیم سے رسمی طور پرجاری وساری ہے، تاہم اس قربانی میں جو سوز و ساز پیدا ہوا ہے۔ وہ حضرت ابرہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی دین ہے جس کا ذکر قرآن میں یوں ہے رب ھب لی من الصالحین فبشرناہ بغلام حلیم فلما بلغ معہ السعی قال یا بنی انی آری فی المنام انی اذبحک فانظر ماذا تری ؟قال یاابت فعل ماتؤمر ستجدنی ان شاءاللہ من الصابرین.
اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر ابراہیم خلیل اللہ ؑکے اس عمل کو پسند فرما کر قیامت تک ان کی یاد کو زندہ رکھنے کے لئے قربانی کو ہر صاحب استطاعت پر واجب کر دیا۔چنانچہ رسول اکرم ﷺ، تمام صحابہؓ اور پوری دنیاکے مسلمان ہر خطے اور ملک میں بلا انقطاع اس سنت پر عمل کرتے رہے؛جس کا سلسلہ تاہنوز جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گا،ان شاء اللہ۔ قربانی کو شعائر اسلام میں شمار کیا گیاہے،سورۃ حج کی آیت 36 میں فرمایا:’’قربانی کے اونٹ اور گائے کو ہم نے شعائر اللہ یعنی اللہ کی عظمت کا نشان بنایا ہے ،اس میں تمہارے لئے خیر ہے‘‘۔قربانی کے اس عمل کے نتیجہ میں فائدہ یہ ہوگا کہ خدا کی رحمتیں وسیع تر ہوں گی، نیکی اور احسان کی صفات پیدا ہوں گی اور مغفرت الٰہی نصیب ہوگی۔
الغرض اسلام در حقیقت سراپا قربانی سے عبارت ہے، چاہے وہ جانی قربانی ہو یا مالی قربانی، یا ایمان نفس کی قربانی۔
قربانی کی تاریخ اگر چہ بہت قدیم ہے لیکن قربانی کی اس تاریخ کو اپنے کردار اور افعال سے جس قدر روشن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا اس کی مثال ان سے پیشتر نہیں ملتی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی توحید کے لیے بے مثال قربانیاں دیں۔ بت کدے میں داخل ہو کر کلہاڑے کو چلا دیا ، دربار نمرود میں صدائے تو حید کو بلند فرما دیا، نمرود کی جلائی ہوئی چتا میں اتر نا گوارا کر لیا اور باپ اور بستی والوں کی مخالفت کو سہہ لیا لیکن ابھی ایمان کے راستے پر چلتے ہوئے آزمائشوں کا سفر باقی تھا۔ آپ نے بڑھاپے کے عالم میں اللہ تعالیٰ سے ایک صالح بیٹے کے لیے دعا مانگی۔ تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا کو قبول فرماتے ہوئے حضرت اسماعیل علیہ السلام جیساحلیم بیٹا عطا فرما دیا۔ بیٹا ابھی گود میں ہی تھا کہ اللہ کے حکم پر جناب ہاجرہ اور اسماعیل علیہ السلام کو وادی بے آب و گیاہ میں تنہا چھوڑ دیا ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ہاجرہ علیہا السلام اور جناب اسماعیل علیہ السلام کے لیے زم زم کے چشمے کو رواں فرمادیا اور اچھے رفقاء اور ساتھی بھی عطا فرمادیے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام گاہے گاہے جناب ہاجرہ اور اسماعیل علیہ السلام کی خبر گیری کے لیے حجاز تشریف لاتے۔

خلاصہ تاریخِ قربانی کا یہ ہے ؎

بشارت خواب میں پائی کہ اٹھ ہمت کا ساماں کر
پئے خوشنودی مولی اسی بیٹے کو قرباں کر

خلیل اللہ اٹھے خواب سے دل کو یقین آیا
کہ آخر امتحاں بندے کا ہے مالک نے فرمایا

اٹھا مرسل اسی حالت میں رسی اور تبر لے کر
پئے تعمیل چل نکلا خدا کا پاک پیغمبر

پہاڑی پر سے دی آواز اسمعیل ادھر آؤ
ادھر آؤ خدائے پاک کا فرمان سن جاؤ

پدر کی یہ صدا سن کر پسر دوڑا ہوا آیا
رکا ہرگز نہ اسمعیل کو شیطاں نے بہکایا

پدر بولا کہ بیٹا آج میں نے خواب دیکھا ہے
کتاب زندگی کا اک نرالا باب دیکھا ہے

یہ دیکھا ہے کہ میں خود آپ تجھ کو ذبح کرتا ہوں
خدا کے نام سے تیرے لہو میں ہاتھ بھرتا ہوں

سعادت مند بیٹا جھک گیا فرمانِ باری پر
زمین و آسماں حیراں تھے اس طاعت گزاری پر

رضا جوئی کی یہ صورت نظر آئی نہ تھی اب تک
یہ جرائت پیشتر انساں نے دکھلائی نہ تھی اب تک

کہا فرزند نے اے باپ اسمعیل صابر ہے
خدا کے حکم پر بندہ پئے تعمیل حاضر ہے

مگر آنکھوں پر اپنی آپ پٹی باندھ لیجے گا
مرے ہاتھوں میں اور پیروں میں رسی باندھ دیجے گا

مبادا آپ کو صورت پہ میری رحم آجائے
مبادا میں تڑپ کر چھوٹ جاؤں ہاتھ تھرائے

پسر کی بات سن کر باپ نے تعریف فرمائی
یہ رسی اور پٹی باندھنی ان کو پسند آئی

ہوئے اب ہر طرح تیار دونوں باپ اور بیٹا
چھری اس نے سنبھالی تو یہ جھٹ قدموں میں آلیٹا

پچھاڑا اور گھٹنا سینئہ معصوم پر رکھا
چھری پتھر پہ رگڑی ہاتھ کو حلقوم پر رکھا

زمیں سہمی پڑی تھی آسماں ساکن تھا بیچاره
نہ اس سے پیشتر دیکھا تھا یہ حیرت کا نظارہ

پدر تھا مطمئن بیٹے کے چہرے پر بحالی تھی
چهری حلقومِ اسمعیل پر چلنے ہی والی تھی

مشیت کا مگر دریائے رحمت جوش میں آیا
کہ اسمعیل کا اک رونگٹا کٹنے نہیں پایا

ہوئے جبریل نازل اور تھاما ہاتھ حضرت کا
کہا بس امتحاں مقصود تھا ایثار و جرائت کا

یہ طاعت اور قربانی ہوئی منظورِ یزدانی
کہ جنت سے یہ مینڈھا آگیا ہے بہرِ قربانی

ہمیشہ کے لئے اس خواب صادق کا ثمر لیجے
اسی مینڈھے کو بیٹے کے عوض قربان کردیجے

غرض دنبہ ہوا قربان اسمعیل کے صدقے
ہوئی یہ سنت اس ایمان کی تکمیل کے صدقے

خطاب اس دن سے اسمعیل نے پایا ذبیح اللہ
خدا نے آپ ان کے حق میں فرمایا ذبیح اللہ

مگر آج کل کچھ ملحد لوگ اور بے دین لوگ قربانی پر اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قربانی کرناپیسے اور وقت کا ضیاع ہے؛ حالانکہ ان کی یہ بات شرعاً وعقلاً قابل قبول نہیں ہے؛اس لیے کہ اگر قربانی کرناپیسے اور وقت کا ضیاع ہوتا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی کرنے کی اتنی زیادہ تاکید وارد نہ ہوتی،خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول اور عمل سے یہ بات ثابت ہے کہ قربانی کرنا اللہ تبارک و تعالی کی رضا اور خوشنودی کا باعث ہے،اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک و تعالی کے ساتھ عشق و محبت کا اظہار بھی ہے،اور مومن بندے کی مغفرت کا باعث بھی ہے؛اس لیے ایسے لوگوں کی باتوں کی طرف التفات نہیں کرنا چاہیے۔
بہر حال آج ضرورت ہے کہ دکھاوا، ریاکاری اور دوسروں کے سامنے اترانے کو چھوڑ کو اخلاص للہیت کے ساتھ قربانی کے اس عمل کو انجام دیں رہ گئی رسم قربانی اٹھ گیا عشق خلیل کی رسم کو طاق نسیاں کردے اور عزم مصصم کریں کہ ہم اس سنت ابراہیمی تاابد کماحقہ باقی رکھیں گے مختصر یہ کہ ؎

عزائم جن کے پختہ ہو نظر جن کی خدا پر ہو
تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے

از قلم: محمد علی عمیرگلبرگہ
متعلم: عربی ہفتم دارالعلوم دیوبند

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے