تحریر: مشرف شمسی
بچپن سے یہ سنتا آ رہا ہوں کہ اس ملک میں مسلمانوں کی حکومت میں غیر مسلموں خاص کر اکثریت ہندوؤں کے ساتھ کافی ظلم ہوا ہے ۔مسلم بادشاہوں کے ذریعے ہندو مندروں کو توڑے گئے تھے ۔خاص کر اسّی کی دہائی میں جب بابری مسجد کا معاملہ طول پکڑ رہا تھا تو بھارت کے مسلمانوں کو بابر کی اولاد تک کہا جاتا تھا ۔لیکن 2014 کے بعد تو بابری مسجد کا قضیہ ختم ہو گیا یعنی کورٹ نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کی اجازت دے دی ۔لیکن مہاراشٹر میں اورنگ زیب کو لیکر تنازعہ ہو یا کرناٹک میں ٹیپو سلطان کا معاملہ ہو یا پھر تاریخ کی کتاب سے مغلوں کو ختم کر دینا ہو یا مہا رانا پرتاپ کو ہندو ہیرو کی شکل میں پیش کیے جانے کی بات ہو آخر یہ سب کیوں کیا جا رہا ہے ؟ ان سوالوں کا جواب ایک عام آدمی یہی دیگا کہ اس سے یعنی مسلم بادشاہوں کو ظالم اور جابر بتا کر اس ملک کے مسلمانوں کو ایک جانب خوف و ہراس میں مبتلا کیا جاتا رہے دوسری جانب ہندوؤں کو باور کرایا جاتا رہے کہ اگر اس ملک کی باگ ڈور مسلمانوں کے ہاتھ میں چلا گیا تو جس طرح مسلم بادشاہوں کے دور میں ہندوؤں پر ظلم ہوتا تھا اسی طرح کا ظلم یہ اب بھی کریں گے کیونکہ مسلمانوں کے نفسیات میں اب بھی کوئی فرق نہیں آیا ہے ۔جبکہ حالات اس کے برعکس ہے ۔غیر منقسم بھارت میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 35 فیصدی تھی اور تقسیم کے بعد محض چودہ فیصدی ره گئی ہے ۔چودہ فیصدی مسلمان اپنی پارٹی بنا کر بھارت میں حکومت میں نہیں آ سکتے ہیں اور دوسری پارٹی کسی مسلمان کو اپنا سربراہ بنا نہیں سکتا ہے ۔تو مسلمانوں کا اس ملک میں راج آ جائےگا اس میں کوئی سچائی نہیں ہے ۔
مسلم بادشاہوں کو لیکر ہندوتوا بریگیڈ طرح طرح کے معاملے اٹھاتی رہتی ہے اس کے پیچھے آخر کیا وجہ ہے ۔پوری دنیا میں بھارت واحد ملک ہے جہاں مسلمانوں نے اسلامی مرکز یعنی بغداد یا دمشق کا سندیش لے کر بھارت پر حملہ نہیں کیا ہے۔یعنی مسلمانوں کا حمله بھارت میں اسلام پھیلانے کا منصوبہ بنا کر نہیں ہوا ہے۔ہاں 712 میں محمد بن قاسم نے سندھ پر جو حملہ کیا تھا وہ بغداد کی ایما پر ہوا تھا لیکن وہ سندھ تک ہی محدود رہ گیا تھا اور محمد بن قاسم کے واپس بغداد بلا لیے جانے کے بعد وہ حکومت بھی ختم ہو گئی تھی ۔
محمد غوری کا 1191 اور 1192 میں حملہ بھارت میں حکومت کے غرض سے نہیں ہوا تھا ۔جس طرح محمود غزنوی نے لوٹ کے لئے بھارت پر حملہ کیا تھا اور چلا گیا ٹھیک اسی طرح محمد غوری 1191 میں شکست کھانے کے بعد 1192 میں پرتھوی راج چوہان سے پھر دو دو ہاتھ کرنے آ گیا اور اس لڑائی میں اُسے جیت ملی ۔محمد غوری پرتھوی راج چوہان کو شکست دے کر واپس غور چلا گیا اور پھر کبھی نہیں آیا۔تقریباً چودہ سال دلّی کا تخت محمد غوری کے انتظار میں خالی تھا تب 1206 میں محمد غوری کا ایک غلام قطب الدین ایبک کو دلّی کا بادشاہ بنایا گیا اور اس ملک میں غلام خاندان کی بادشاہت کی شروعات ہوئی۔قطب الدین ایبک دلّی پر حکومت کرنے والا پہلا مسلم بادشاہ بنا۔
غلام خاندان کے بعد کئی اور مسلم خاندان نے دلّی پر حکومت کی لیکن لودھی خاندان کا ابراہیم لودھی جب بھارت میں حکومت کر رہا تھا تو مہا رانا پرتاپ سنگھ کے والد رانا سانگا نے فرغانہ کے راجہ بابر کو دلّی آنے کی دعوت دی تھی ۔رانا سانگا نے بابر کو دلّی پر حملے کی دعوت اسلئے دی کہ بابر ابراہیم لودھی کو شکست دے کر فرغانہ واپس چلا جائے گا اس کے بعد دلّی پر اس کی حکومت ہوگی لیکن بابر پانی پت کی پہلی لڑائی میں ابراہیم لودھی کوشکست دے کر فرغانہ لوٹا ہی نہیں۔نتیجہ رانا سانگا کو 1527 میں بابر سے لڑائی لڑنی پڑی اور اس لڑائی میں بابر کی فتح ہوئی ۔
یہ تاریخ لکھنے کا صرف اتنا مطلب ہے کہ بھارت دنیا کا واحد ملک ہے جہاں مسلمانوں نے اسلام پھیلانے کے لئے حکومت نہیں کی۔ اگر اسلامی مرکز کے سندیش پر بھارت میں مسلم حکومت قائم ہوتی تو بھارت اس دور میں ہی مسلم اکثریت ملک بن جاتا ۔لیکن نہیں جیسا کہ اس دور میں ہوتا تھا کہ جہاں جس کی حکومت ہوتی تھی وہ اپنی حکومت کو مضبوط بناتے تھے اور دوسرے راجیہ میں لوٹ پاٹ کرتے تھے ۔مسلم دور حکومت میں تیمور لنگ،چنگیز خان اور نادر شاہ جیسے لُٹیرے کے بھی حملے ہوئے ۔
لیکن وہ سوال اب بھی قائم ہے کہ ہندوتوا بریگیڈ مسلم بادشاہوں کو نشانہ کیوں بناتے ہیں ۔کیوں کہ ہندوؤں کی اونچی ذات اپنی ناکامی اور بربریت کو چھپانے کے لئے مسلم بادشاہوں کو نشانہ بناتے ہیں ۔باہر کتنے مسلمانوں کے ساتھ بھارت آئے ہونگے ؟ پانچ ہزار یا دس ہزار ۔دس ہزار مسلمانوں نے اتنے بڑے ملک پر آخر کیسے قبضہ کر لیا ۔کیونکہ اس ملک کے لوگوں میں اتحاد نہیں تھا۔اونچی ذات کے ہندوؤں نے کبھی دلیت اور پچھڑے کو انسان مانا ہی نہیں ۔غلام خاندان کی حکومت شروع ہوئی تو اوپر سے نیچے تک حکومت کے کارندے یہی اونچی ذات کے ہندو ہوتے تھے ۔بادشاہ سے نزدیکی بتا کر یہی اونچی ذات کے لوگ اپنے ہی لوگوں پر ظلم کرتے تھے ۔یہ اپنے ظلم کو چھپانے کے لئے مسلم بادشاہوں کو ویلن کی شکل میں پیش کرتے رہے ہیں ۔یہ اُنکی مجبوری ہے۔کیونکہ لوگ سوال کریں گے کہ چند ہزار مسلمان بھارت آئے تھے آخر اُنہوںنے اتنے سال کیسے حکومت کر لیے ۔اس سوال کا جواب برہمن وادی ہندوتوا بریگیڈ کے پاس نہیں ہے ۔یہ نہیں کہہ سکتے ہماری وجہ سے بھارت کا سماج منقسم تھا ۔اونچی ذات کے ہندوؤں کو مسلمان اور انگریزوں کی غلامی پسند تھی لیکن کوئی دلیت اور پچھڑے مندر میں نہ گھس جائیں یا اُنکے برابر نہیں آ جائے وہ منظور نہیں تھا۔اسلئے برہمن وادی ہندوتوا بریگیڈ راجاؤں اور بادشاہوں کی تاریخ کی بات تو کرتے
ہیں لیکن اس وقت کے کسان ،دلت ،پچھڑے اور عورتوں کی تاریخ پر کوئی چرچا نہیں کرنا چاہتے ہیں ۔کیونکہ مسلم بادشاہوں کے وقت کے ہندو سماج کی چرچا جیسے ہی شروع ہوگی ان برہمن وادی ہندوتوا بریگیڈ کا اصلی چہرہ لوگوں کے سامنے آ جائے گا
تحریر: مشرف شمسی
میرا روڈ ،ممبئی
موبائیل 9322674787