کورونا کے پس پردہ ظلم وزیادتی کا بڑھتا گراف۔۔

تحریر:زین العابدین ندوی
کرونا وائرس کے سبب کتنے لوگوں کی موت ہوئی اور کتنے لوگ اس سے متاثر ہوئے، یہ سب کچھ ہوا بھی یا نہیں، یہ تو حتمی اور یقینی طور پر نہیں بتایا جا سکتا، اس لئے کہ ہم تک یہ ساری خبریں میڈیا کے واسطہ پہنچتی ہیں، اور میڈیا جیسا کہ پہلے بھی بتایا جا چکا دجالیت کا آلہ کار ہے، جو اپنے مفاد کی خاطر دنیا کو جہنم کدہ بنا سکتا ہے اور بنا رہا ہے، آپ سب نے یہ دیکھا ہوگا کہ میڈیا کے توسط سے کرونا کے نام پر جو دہشت پھیلائی گئی اور خوف و ہراس کا جو ماحول بنایا گیا وہ کس قدر بھیانک اور اندوہناک ہے، جس کے نتیجہ میں وائرس سے زیادہ لوگ دہشت کا شکار ہوے اور نفسیاتی مریض ہو گئے، اور پھر اس وائرس کے پس پردہ پوری دنیا میں بالخصوص بھارت میں جو تماشا جاری ہے اس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے، یہاں تو حکومت نے اپنے مقصد کے حصول کے لئے اس وائرس کو مسلم سماج سے ہی جوڑ دیا، اور پھر مسلمانوں کو بلی کا بکرا بنا دیا گیا، کئی واقعات اب تک ویڈیوز کی شکل میں سامنے آچکے ہیں، جس میں انہیں بلا سبب پریشان کیا جا رہا ہے، اور ہم ہیں کہ دیش بھکت بنے بیٹھے ہیں، اس گندے اقدامات اور بد ترین زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھانا حب الوطنی کے خلاف سمجھ رہے ہیں، کیا واقعی ہم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں؟ اگر یہی فکر بنی رہی اور اس میں تبدیلی نہیں آئی تو ہمیں ہمیشہ ذلت بھری زندگی جینے کے لئے تیار ہو جانا چاہیے، اس قدر سطحی افکار کی حامل قوم ذلت ہی کی حق دار ہے۔
آج ملک ہندستان میں قوم مسلم جن حالات سے گزر رہی ہے، مجھے تو نہیں لگتا کہ بھارت میں اتنے برے دن بھی کبھی آئے رہے ہوں گے، بار بار مار کھانے کے باوجود بھی ہم سمجھنے کو تیار نہیں، جب ہم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو ہم اسی در پر کاسہ گدائی لئے پہونچتے ہیں جہاں انصاف کا گلا گھونٹا جا چکا ہے، تمام تر ثبوتوں کے باوجود عدل وانصاف کا خون کیا جا چکا ہے، جہاں اصولوں اور ثبوتوں کے بجائے حکومت ودولت کے زیر سایہ فیصلے سنائے گئے، اور اب پھر ہم وہیں اپنی فریاد لئے ہوے پہونچ رہے ہیں، اور یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم نے اپنا حق

ادا کر دیا، ذرا سوچو تو صحیح یہ بھی کوئی ادائی حق کا کردار ہے، جہاں سے چوٹ دی جاے وہیں سے دوا کی مانگ کی جاے؟ یاد رکھنا چاہیے کہ جب تک ہماری یہ روش باقی رہی ہماری حالتوں میں تبدیلی نا ممکن ہے، ہمارے خلاف ظلم و زیادتی کے بھڑکتے شعلے کبھی بھی نرم نہیں پڑنے والے، ظالم درندوں کی درندگی سے بچنے کے لئے ہمیں اب خود تدبیر کرنا ہوگا، اور یہ سلسلہ ظلم اس وقت تک بند نہیں ہوسکتا جب تک ہماری قوم کے بھیڑیے ہمارے لوگوں کو کھاتے رہیں گے اور ان کا استحصال کرتے رہیں گے۔

دجالیت اور عہد دجل وفریب پر لمبی لمبی باتیں کرنے والے کہاں گئے؟ کیا انہیں اس وائرس کے پس پردہ دجالی منصوبہ بندی نظر نہیں آتی؟ یا وہ بھی اسے ایک بھیانک مہلک مرض سمجھ رہے ہیں؟ کہیں ان کی نظر بصیرت پر بھی تو لاک ڈاؤن کا نفاذ نہیں ہوگیا کہ وہ سمجھنے بوجھنے سے عاجز ہو گئے؟ کیا انہیں ایسا نہیں لگتا کہ یہ سب ایک نئے صہیونی عالمی نظام کی تیاریاں ہیں؟ جس کے ذریعہ پوری دنیا کو بطور مشین استعمال کیا جائے گا اور اسکی حریت انسانی کو سلب کر لیا جائے گا، اگر ایسا ہے تو پھر دبک کر بیٹھے رہنے کے کیا معانی ہیں؟ اگر یہ حقیقت ہے تو لوگوں کے سامنے یہ باتیں پیش کرنے میں اس قدر تاخیر کیوں؟ اگر ہم حقیقتاً قوم اور وطن کے تئیں مخلص ہیں اور ان کا بھلا چاہتے ہیں تو لوگوں کو اصل معاملہ سے آگاہ کرنا ہمارا فرض ہے، ورنہ ہزاروں لوگ خوف ودہشت سے اپنی جان گنوا بیٹھیں گے، اور جان تلفی کا سلسلہ جاری ہے، لوگ بھکمری، احساس اور خوف و ہراس سے موت کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے