رضا اکیڈمی پر پابندی کے مطالبے

تحریر: سمیع اللہ خان

پاپولر فرنٹ پر پابندی کےبعد اب رضا اکیڈمی پر پابندی کا مطالبہ زوروں پر ہے، بعض سنگھی ذرائع کی مانیں تو مہاراشٹر سرکار اس سلسلے میں نوراتری کےبعد کوئی پالیسی بناسکتی ہے،
حالانکہ رضا اکیڈمی پی ایف آئی کی طرح کوئی ملک گیر منظم کیڈر والی تنظیم نہیں ہے بلکہ وہ ایک طرح سے سنی بریلوی مسلمانوں کی مذہبی لیڈرشپ ہے جس کا اکثریتی دائرہء کار ممبئی مہاراشٹر میں ہے، رضا اکیڈمی پاپولر فرنٹ کی طرح Socio-Political بھی نہیں ہے، وہ بس اپنے مخصوص ایجنڈوں پر کام کرتی ہے، جن میں سے بیشتر ایشوز نیشنلزم اور سیکولرزم کے ہی ہوتےہیں، صرف ناموسِ رسالتﷺ اور کہیں کوئی مسلم مخالف فسادات ہوں تو ان موضوعات پر رضا اکیڈمی مسلمانوں کے جذبات کی نمائندگی کرتے ہوئے ان کےخلاف آواز اٹھاتی ہے، خاص طورپر ناموسِ رسالتﷺ کے موضوع پر رضا اکیڈمی کا کام بہت اچھا اور قابلِ تعریف ہے، بڑی بڑی مسلم جماعتیں جو آئینی اور احتجاجی کام ناموسِ رسالتﷺ کے لیے کرتے ہوئے کتراتی ہیں وہ کام رضا اکیڈمی کر جاتی ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں، اور یہی وہ ایشو ہے جس کی بنیاد پر ہندوتوا لیڈروں کو یہ جماعت بھی پسند نہیں ہے حالانکہ پاکستان، کشمیر اور نیشنلزم کے بےشمار ایشوز پر رضا اکیڈمی نے خاطرخواہ سیکولر اور وطن پرست ہونے کا ثبوت بھرپور انداز میں دیا ہے، لیکن یہ ساری نیشنلسٹ مشقیں بھی نفرتی سنگھیوں کے نزدیک قابلِ تسلیم نہیں ہیں اُنہیں رضا اکیڈمی کے ناموسِ رسالتﷺ والے کاز سے ضد ہے، بھاجپا کے مہاراشٹر ممبراسمبلی نے واضح طورپر رضا اکیڈمی کو دہشتگرد جماعت قرار دیتے ہوئے پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے، سب جانتےہیں اور مانتے بھی ہیں کہ رضا اکیڈمی ۱۰۱% سیکولر نیشنلسٹ اکیڈمی ہے اور یہ کسی بھی طرح پی ایف آئی کے مانند نہیں ہے لیکن چونکہ وہ ایک ایشو پر بولتے ہیں اس لیے انہیں نشانہ بنانے کی کوشش ہورہی ہے اب یہاں پر بڑا سوال یہ ہوگا کہ رضا اکیڈمی کے ذمہ داران اُس ایک ناموسِ رسالتﷺ کے ایشو پر معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتےہیں یا ڈٹ جاتےہیں؟ حالانکہ دباؤ قبول نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ناموس کے معاملے میں اکیڈمی کا کوئی بھی قدم غیرقانونی کبھی نہیں رہا ہے، بلکہ ہونا یہ چاہیے کہ رضا اکیڈمی بھاجپا لیڈران کو قانونی نوٹس بھیجے جو انہیں public domain میں دہشتگرد کہہ رہےہیں نیز پیشگی اقدام کرتے ہوئے پریس کلب سے ان پابندیوں کے مطالبے پر اپنا موقف جاری کرنا چاہیے اور اپنی سابقہ نیشنلسٹ کارگزاریوں کو پیش کرکے سنگھیوں کو عار دلانی چاہیے، اور رضا اکیڈمی کےپاس نیشنلسٹ سرگرمیوں کا خاصا ریکارڈ بھی موجود ہے،
اس سے ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ سرکار انہیں نرم چارہ نہیں سمجھے گی اور دوسری طرف ملک میں یہ پیغام بھی عام ہوگا کہ مسلمان چاہے کتنا ہی سیکولر یا نیشنلسٹ ہوجائے پھر بھی وہ سَنگھ کی آنکھوں میں کھٹکے گا اگر وہ ظلم و ستم ناانصافی اور ہندوتوا نفرت کےخلاف زندگی کا ثبوت دےگا، ویسے پی ایف آئی کے برخلاف رضا اکیڈمی کی حمایت میں لوگ بولیں گے کیونکہ رضا اکیڈمی کا ریکارڈ سیکولرزم کے سلسلے میں کافی ہے
بھارت میں مسلمانوں کا نیشنلسٹ ہونا یا نہیں ہونا یہ ایشو نہیں ہے، اصل ایشو ہے مسلمانوں سے آر ایس ایس کی نفرت و عداوت، آر ایس ایس بھارت میں غلام اور مظلوم مسلمانوں کی آبادی چاہتی ہے، پاپولر فرنٹ پر سرکاری بربادی اور سنگھی پابندی کا تماشا دیکھنے والے اگر یہ سوچتے ہیں کہ اُن کی باری نہیں آئےگی تو وہ صریح غلط فہمی میں ہیں، رضا اکیڈمی بھی پاپولر فرنٹ کے مسلمانوں پر آئی آزمائش کے وقت خاموش تھی لیکن یہ خاموشی اس کے کام نہیں آرہی ہے
رضا اکیڈمی مسلمانوں کی جماعت ہے اور مسلمانوں کے حقوق کے لیے بھی آواز اٹھاتی ہے اور ہمارا ان سے اسلامی اخوت کا رشتہ ہے اکیڈمی کے ذمہ داروں نے ناموسِ رسالتﷺ کے مسئلے پر ہمیشہ جرات کا مظاہرہ کیا ہے، ہماری مکمل ہمدردی، اور حمایت رضا اکیڈمی کے ساتھ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے