ہندوستان ایک ایسا تکثیری ملک ہے جہاں مختلف رنگ ونسل کے انسان الگ الگ مذہبی روایتوں کے ساتھ انیکوں بولیاں بولنے والے زندگی جیتے ہیں،یہاں بسنے والے لوگوں میں مختلف” پرسنل لا “کے ماننے والے ہیں،ہر ایک کا کلچر اور تہذیب اپنے حساب سے ہے،یہاں کے دستور میں بھی اس پہلو کا پورا خیال رکھاگیا ہے،جس میں آزادی کے ساتھ عمل کی راہ اپنانے کی بات مضبوطی سے کہی گئی ہے،مذہبی روایتوں پر عملی مرحلے کو جبر واِکراہ سے آزاد رکھا گیا ہے اور یہی اِس ملک کی خوبصورتی ہے،ہندوستان کے اندرانگریزی حکومت کے دور اقتدار میں ایک مرحلہ ایسا بھی آیا جب انگریزون نے اپنا قانون نافذ کرنے کاعمل شروع کردیا تھا،اِس درمیان دیگر پرسنل لا کے علاوہ مسلم پرسنل لا بھی نشانے پر رہا ،مسلمانوں کے بڑے علماوں نے کسی بھی پرسنل لا کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی سخت مخالفت کی اور مسلم پرسنل لا کو تحفظ فراہم کرنے کے جذبے سے باضابطہ شریعت اپلیکیشن ایکٹ منظور کروایا گیا۔ مسلم پرسنل لا دراصل مسلمانوں کے شخصی وخاندانی وہی مسائل ہیں، جنہیں برٹش حکومت میں شریعت اپلیکیشن ایکٹ کے تحت 1937ء میں وقت کے اکابر علما نے غیر معمولی جد وجہد کے بعد تحفظ فراہم کیا تھا،اِسی طرح شرعی قوانیں کا یہ حصہ مسلم پرسنل لا قرآن وحدیث سے ماخوذ فقہ کے وہ مسائل ہیں جن میں نکاح ،طلاق ،وراثت،حضانت، خلع،فسخ،مہر ،نفقہ، رضاعت،ایلاء، ظہار، وصیت،ولایت اور اوقاف وغیرہ خصوصیت سے شامل ہیں ،مسلم پرسنل لا کا تعلق خالص مسلمانوں کی شخصی وانفرادی زندگی سے ہے ، شرعی قوانین کایہ حصہ آج بھی انڈین دستور کے مطابق قابل عمل ہے یعنی اگردونوں فریقین مسلمان ہوں تو ملکی عدالت اس بات کے لئے پابندعہد ہے کہ ا±ن کے حق میں شرعی قانون کی رو سے معاملہ کا فیصلہ سنائے۔
اس وضاحت کے بعدمسئلے کا یہ پہلو ذہن میں محفوظ رہنا چاہئے کہ مسلم پرسنل لا ہمارے دین ومذہب کا جز ہے،مسلم پرسنل لاکے تحت جو مذکورہ بالا مخصوص مسائل ہیں ،ان کا براہ راست جذباتی تعلق ہر کلمہ گو کی انفرادی اور مدنی وشہری زندگی سے ہے اور اِس معاملے میں نبی امی محمد ﷺکا ہرامتی جواب دہ ہے ،ہماری ایمانی ذمہ داری ہے کہ شریعت کے اِس حصے پر عمل کی راہ سے ہمارا کوئی لمحہ غفلت کا شکار نہ ہو،بے زاری اور لاپر وائی کا مرتکب نہ ہو،اِن امور شرعیہ سے غفلت کا صاف مطلب ہے کہ ہم نے عملاً مسلم پرسنل لا سے خود کو کنارہ کرلیا ہے اور اسلام کو محض عبادتوں کے لئے مخصوص سمجھ لیا ہے۔امیر شریعت رابع حضرت مولنا سید شاہ منت اللہ رحمانی ؒ نے تحفظ شریعت اور مسلم پرسنل لا کے حوالے سے کتنی ذمہ دارانہ بات کہی ہے ایک بار پہلے اِسے پڑھ جائیے !
” مسلم پرسنل لا مسلمانوں کی مستقل تہذیب اور عائلی نظام کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ، مسلمانوں کی انفرادی ، عائلی اور سماجی زندگی سے مسلم پرسنل لا کا بہت گہرا رشتہ ہے اور انہیں قوانین کی بنیاد پر ان کی عائلی اور سماجی زندگی تشکیل ہوتی ہے۔ اگر مسلم پرسنل لاختم ہو جائے تو نہ صرف یہ کہ اسلامی قوانین عملاً عبادات کے دائرہ میں سمٹ کر رہ جائیں گے؛ بلکہ سماجی روح کا بھی خاتمہ ہوجائے گا ، اور جڑ ہی خشک ہو جائےگی جس کے پتوں کا مخصوص رنگ اسے دوسرے درختوں سے ممتاز کرتا ہے“(مسلم پرسنل لا زندگی کی شاہ راہ،ص:14)
ایک سچے مسلمان کی طرف سے خدا اور رسول کی کامل اطاعت وپیروی کا مطلب ہے کہ اسلامی قانون سے ہمارا دل پورے طور پر مطمئن ہو،اس معاملے میں شک اور تردد سے ہمارا ذہن پاک ہواور زندگی کے کسی گوشے میں بھی اسلامی قوانین کوہلکا سمجھنے کی غلطی سے ہمارا دل وماغ محفوظ ہو ،ہمارے روز وشب کے وہ مذہبی مسائل جن کا تعلق بلاواسطہ نجی اور ذاتی زندگی سے ہے ،جیسے کہ نکاح ،طلاق،خلع،فسخ،مہر ،نان ونفقہ،رضاعت وغیرہ اِن احکام شرعیہ کی مکمل پاسداری ہم اپنی ایمانی ذمہ داری سمجھ کر کرنے والے بنیں،ہمارا مذہب دیگر مذاہب کے مقابلے کئی جہتوں سے ممتاز ہے،اِس سچائی کو ہمارا ذہن بھی یقین کے ساتھ قبول کرے اوریہ امتیاز تب باقی رہے گا جب ہم جذباتی احساس کے ساتھ اس کو عملی زندگی میں برتنے والے بنیں گے۔مذاہب کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس کا تعلق مضبوط عمل آوری سے ہے،جہاں جہاں محض نعروں سے مذہبی راہ ورسم نبھانےکی کوششیں ہوئی ہیں ، اصل مذہبی روایات رخصت ہوتی گئیں اور اس کی جگہ خرافات جڑپکڑتے گئے۔یہ کوئی ڈھکی چھپی حقیقت نہیں ،بلکہ واضح حقیقت ہے کہ ہمارا یہ دین ،ہمارے رب کو بھی پسند ہے اور ہم سبھوں کے نبی محمد ﷺنے بھی اِسی پاکیزہ دین پر عمل کا حکم دیا ہے ،عمل کی مضبوط کڑیاں ہی ہماری مذہبی روایات کو خرافات سے بچاکر نجات اور کامیابی کے خط مستقیم سے جوڑتی ہیں،یہی وہ عملی راستہ ہے جس پر چل کر ہم اپنی آئندہ نسلوں کے لئے دین کو محفوظ رکھ سکتے ہیں اور اپنے آپ کی بھی حفاظت کرسکتے ہیں۔شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒنے ارشاد فرمایا تھا کہ :
”حفاظت اسلام کے نعرے تو بہت بلند کئے جاتے ہیں،مگر عملی پہلوو?ں سے ہم خود گریزاں رہتے ہیں،اسلام کوئی مجسمہ نہیں جس کی حفاظت کے لئے کوئی لاو لشکرکی ضرورت ہو آپ اپنے اندر اسلام کو سمو لیجئے !آپ بھی محفوظ ہوجائیں گے،اور اسلام بھی محفوظ ہوجائے گا“(ملفوظات مدنی)
مسلمان کا اس بات پر ایمان ہوناچاہئے کہ روح وقلب سے عزیز تر اس کا مذہب ،مذہب اسلام ہے اور اسلامی احکام ہیں،محمد رسول اللہ ﷺنے جو راز زندگی بخشا ہے اور جو نسخہ جاودانی عطاکیا ہے ،اس کا دل اس کو اپنی جان وتن سے زیادہ قبول کرنے پر آمادہ عمل ہو،زندگی اور مذہبی تقاضوں میں فرق کے ساتھ اسے اختیار کرنے کا علم وشوق ہو ،زندگی میں ذاتی گھریلو تقاضوں کو اسلام کے تقاضوں پر قربان کرنے کا مزاج واخلاق اس کے پاس ہو،ذہن اس طور پر تیار ہونا چاہئے کہ شہنشاہ کونین ﷺنے جو کچھ تمہیں دیا ہے اسے پکڑلو اور جس چیز سے تمہیں روکا ہے اس سے باز آجاواور ہر حال میں مرضی مولی ازہمہ اولی کی فکر ہو
سارا جہاں خلاف ہو پروانہ کیجئے پیش نظر تو مرضئی جانا ناں چایئے
مفکر اسلام حضرت امیر شریعت سابع مولانا سید محمد ولی صاحب رحمانی ؒسابق جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے کتنی پیاری بات کہی ہے :
”یقین کیجئے، دینی فکر اور مذہب سے سچا عشق اور اس پر عمل شاہراہ حیات ہے ، روحانی قدروں کو اپنے اندر سمولینا زندگی کی معراج ہے ، اور ایسی ہی زندگی کیلئے لاخوف علیہم ولا ہم یحزنون کی بشارت ہے ، ہم سب جواس بشارت کے طلبگار اور امیدوار ہیں ، رسول کریم علیہ التحیةوالتسلیم کی ہدایتوں کو ہر گھر میں پہونچاد یں اور ہر دل میں اتاردیں تو ساری بگڑی بن سکتی ہے ، ہم محاسبہ نفس بھی کر یں، محاسبہ معاشرہ بھی ، اصلاح نفس بھی کر یں اور اصلاح معاشرہ بھی ، اور یہ بھی بتاتے چلیں کہ حب الدنیا راس کل خطیئة( دنیا کی محبت ہر غلطی کی جڑ ہے ) اور دلوں میں اتارتے چلیں کہ جب بھی دنیا کی محبت اورموت کا خوف ہوگا ، وہ عہد ہوگا ہم پر امتوں کے ٹوٹ پڑنے کا یہی سبق ہے ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کا ! (مسلم پرسنل لا اور ہندستانی قانون،ص:۲۵)
حضور نبی کریم ﷺکے اسوہ کے مطابق صحابہ کرام ؓ اور بعدکے نفوس قدسیہ نے اِس دین متین کے لئے جو قربانیاں دی ہیں وہ تاریخ کا روشن باب اور مستقل تاریخ کا حصہ ہیں ،اکابرین اولیا اللہ نے جس طرح سے عزیمتوں کی راہ اپنا کر دین کے ایک ایک حصے کو ہم تک پہنچانے کے لئے عمریں کھپائی ہیں،اُنہیں لفظوں میں بیان کرنے کا نہ مقصد اور نہ یہاں اس کا موقع ،مگر ان کی پاک نفسی ،فنائیت اور اسلام پر ثبات قدمی نے ہمارے لئے دین کو سمجھنے کی راہ آسان کی ہے،اُنہوں نے اگر کل قربانی نہ دی ہوتی تو زندگی ،موت ،روزہ ،نماز یہاں تک کہ اپنی خواہشات تک کو اُس دین کے تابع نہ کی ہوتی جس دین کو رسول عربی محمد ﷺنے دنیا کے سامنے پیش کیاتھا ،تویقین کیجئے !کہ ہم اس بھیس بھوسا میں شاید ہرگزنظر نہ آتے۔ آج اگرہندوستان جیسے ملک میں ہماری پہچان ایک کلمہ گوکی حیثیت سے ہے تو وہ بس کانٹوں کی سیج پر چل کر دین کو تحفط فرہم کرنے والے اور گالیاں کھاکر دعائیں دینے والوں کی تبلیغ دین کا صدقہ ہے۔ان یاران باصفاکا اپنے دین ومذہب سے سچی پکی عقیدت ومحبت اور بے پناہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔ملت اسلامیہ کے مخلص داعی سابق قاضی القضاةامارت شرعیہ بہار اڑیسہ وجھارکھنڈ حضرت مولنا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒکے اس احساس کو بھی ایک بار پڑھ جائے کہ اس بندہ خدانے ملت کے لئے کس طرح دل نکال کر رکھ دیا ہے:
”اسلام کی اصل روح کیا ہے ؟ اگرآ پ کتاب وسنت اور تاریخ وسیر کا مطالعہ کریں تو آپ میرے اس خیال سے پوری طرح اتفاق کریں گے کہ ملت ابراہیمی اور دین محمدی کی اصل روح بس اتنی ہے کہ انسان خدا کی مرضی اور خوشی میں اپنے کو فنا کر دے ، یہی وہ مقام ہے جہاں بندہ اللہ کی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور اس کے کان سے سنتا ہے ، اور اسی کی زبان سے بولتا ہے۔ سیدنا ابراہیم کو مقام خلیلیت ملا ، اس کی وجہ یہی تو تھی کہ انہوں نے اللہ کی خوشی کے لیے آگ میں کودنا ، بیوی بچوں کو وادی غیر ذی زرع میں چھوڑ نا اور اکلوتے بیٹے کی گردن پر چھری چلا نا گوارہ کیا“ ۔۔۔۔۔”مسلم پرسنل لا ءاصل میں اُن قوانین کا نام ہے ، جو اللہ کی کتاب اور جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث شریف میں مذکور ہے ، ان کی حفاظت کے لیے جہاں تک سرکار کے حملہ سے بچاوضروری ہے اِس کے لیے ہم سب نے اِس کا عہد کیا ہے کہ ہم آخری وقت تک اللہ کی شریعت میں تبد یلی گوار نہیں کریں گے لیکن اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ہمارامسلم سماج اس کو اپنے اوپر نافذ کرے“(اذان مجاہد ،ص۸۶،مرتب مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی ،مطبوعہ امارت شرعیہ پٹنہ)
زیر نظر تحریر لکھے جانے کے وقت لگاتار یہ خبر آرہی ہے کہ ملک کی برسر اقتدار پارٹی یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے لئے مصر ہے مگر سیکولر ذہن عوام لیڈران اس ہنگامے کو آئین مخالف بتلا رہے ہیں اور ملک کے تانے بانے کے لئے خطرہ قرار دے رہے ہیں،مگر اقتدار میں بیٹھی پارٹی کے اراکین مسلسل کمیٹی تشکیل دینے کی مانگ کررہے ہیں، یہ ملک کی آبادی کے لئے صدمے کی بات ہے ایک سیکولر ملک کہے جانے والے بھارت میں یکساں سول کوڈ کا فارمولہ ملک یا اس کی آبادی کے مفاد میں کبھی بھی مفید نہیں ہوسکتا ،بلکہ ملک کی ایکتا واکھنڈتا کو شدید نقصان پہنچانے والا ہوگا ،اس کے لئے ہم کبھی تیار نہ ہوںگےاور آخری دم تک اس کی مخالفت کی جاتی رہے گی۔مگر یہاں یہ عرض کرنا ہے کہ آپ مسلمان بن کر زندگی گذارنے کا عہد کریں ،اپنی نسلوں کو بھی دین حنیف پر قائم رکھ کر زندگی جینے کا عہد کریں ،اگر آپ نے عملاً اپنے پرسنل لا کی حفاظت کرلی ،اپنے شرعی قوانین کو عزیز رکھ کر اس کے مطابق اپنی شخصی وانفرادی زندگی جینے کاعزم مصمم رکھتے ہیں تو ملک چاہے جس رخ پر جائے،دنیا کی کوئی طاقت آپ کو اپنے پرسنل لا سے نہ دست بردار کرسکتی ہے اور نہ آپ کے پرسنل لا کو کوئی مٹا سکتا ہے۔ مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندوی ؒکے اس درد کو بھی محسوس کر لیجئے جس کا اظہار انہوں نے محض آپ کی اور آپ کے کلمے اور ایمان کی محبت میں کیا ہے:
’ ’ آپ کو اس ملک میں ہر حال میں مسلمان بن کر رہنا ہے۔ آپ جانوروں اور پرندوں کی طرح زندگی نہیں گزاریں گے جن کو راتب کا ملنا کافی ہے۔ ہم محض ’ ’ را تب“پر اس ملک میں نہیں ، کسی عرب یا خالص مسلمان ملک کی سرزمین پر بھی رہنے پر تیار نہیں جہاں ”راتب ‘ ‘ کے سوا ہم کوباعزت آزاد اور ضمیر وعقیدہ کے مطابق زندگی گزارنے کی دولت میسر نہیں۔ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جس دن آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ آپ کو ایمان سب سے بڑھ کر عزیز ہے ، ایمان کے بغیر جینا بھی آپ کو مطلوب نہیں اسی وقت سے حالات میں تبد یلی آجائے گی اور مشکلات کے پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائیں گے(تکبیر مسلسل،ص: ۱۱)
رب کائنات ہم مسلمانوں کو اپنے دین ومذہب سے سچا پکا عشق عطا فرمائے اور مشکل سے مشکل حالات میں بھی ہمیں اپنے پسندیدہ دین پر صبر وشکر کے ساتھ ثابت قدم رکھے ، ہمارے ایمان واعمال کو اپنی رضاو خوشنودی کا سبب بناکر دارین میں سرخ روفرمائے۔آمین یارب العالمین
تحریر: عین الحق امینی قاسمی
معہد عائشہ الصدیقہ ،بیگوسرائے