زوجین کا رشتہ قرآن کی روشنی میں

’’ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسُ لَّھُنَّ‘‘ ترجمہ: ’’وہ تمہارے لیے لباس کی مانند ہیں اور تم ان کے لیے لباس کی مانند ہو۔‘‘ (البقرۃ:۱۸۷)

اللہ رب العزت نے اس تعلق کو ایک انتہائی بلیغ تشبیہ دے کر بات کو سمجھایا ہے کہ میاں بیوی فقط رسمی تعلق کا نام نہیں، بلکہ لباس سے تشبیہ دے کر سمجھایا کہ لباس انسانی بدن کے لیے کئی اعتبار سے اہم ہے، مثلاً: ستر، عزت، تحفظ، زینت، صحت، تہذیب، وغیرہ، یعنی جس طرح لباس ہمارے ستر کا ذریعہ ہے، یہ رشتہ بھی ہمارے عیوب کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔ جس طرح لباس کی زینت عزت بخشتی ہے، ایسے ہی یہ رشتہ عزت افزائی کا زریعہ ہے، جس طرح لباس ہمیں سردی گرمی سے محفوظ رکھتا ہے، اسی طرح لباس بھی ہماری عزت وزینت کا ایک مجموعہ ہے۔ ٹھیک اسی طرح میاں بیوی کا معاملہ ہے، ان کی عزت، ذلت، ان کا مقام، ایک دوسرے سے وابستہ ہے، ان دونوں میں ہر ایک کے ذمّے ہے کہ وہ اپنے رشتے کو دھوپ، سردی، گرمی، بارش، حادثات اور آفات سے بچا بچا کر رکھے۔
لباس سے متعلق ایک اہم بات یہ ہے کہ ہمارے لباس پر اگر راہ چلتے کوئی کیچڑ، گند یا داغ لگ جائے تو ہم افسوس کا اظہار کرتے ہیں اور اسے پھینکنے، پھاڑنے یا اس حصے کو کاٹنے کی بجائے بہت خیال کے ساتھ فوری طور پر صاف کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ٹھیک یہی معاملہ میاں بیوی کے تعلق کا ہے کہ انسانی فطرت کے سبب اگر کوئی اَن بن، جھگڑا، اختلاف یا ناراضگی ہوجائے تو ان کو اپنے گھر کا خیال رکھتے ہوئے اس اختلاف کو فوری سمیٹنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
درحقیقت یہ رشتہ ذمہ داریوں کی تقسیم کا معاملہ ہے۔ اس میں کسی ایک کو مکمل قصور وار ٹھہرانا حماقت ہے۔ انسان خطا کا پتلا ہے اور انسان کا نام ہی نسیان سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب اس کی فطرت میں بھلکّڑ پن اور غلطیاں کرنا موجود ہے، لہٰذا جس طرح شوہر ایک انسان ہے، اسی طرح بیوی بھی ایک انسان ہے اور انسان ہونے کے ناطے دونوں کو اپنی کارکردگی پر نظر رکھنا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم اور احادیثِ مبارکہ اور فقہِ اسلامی کے ماہرین فقہاء نے دونوں کی ذمہ داریوں کے حوالے سے تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔

شکایات کا حل
اس ضمن میں سب سے پہلی بات یہ سمجھنے کی ہے کہ ہر جوڑا شکایات کی ایک طویل لسٹ ذہن میں لیے پھرتا ہے اور جہاں کہیں ادھورا موقع ملتے ہی مکمل شکایات سنانا شروع کردیتا ہے، جس میں رشتہ ٹھیک جگہ نہ ہونا، خدمت میں کوتاہی، جھگڑا، گالم گلوچ، مارپیٹ، طعنے، رہائش، والدین، گھر والے، جمال، کمال غرض ہر طرح کی شکایتیں سننے کو ملتی ہیں۔ ان تمام کے بعد ایک بہت بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا اتنی برائیاں سامنے آجانے کے بعد آپ کس صورت حال تک پہنچتے ہیں؟ آیا آپ نے ان خرابیوں کی وجہ سے یہ رشتہ ختم کرنا ہے؟ اگر ہاں! تو شریعت نے ہر دو کو یہ موقع دیا ہے، تاکہ کوئی انسان فضول میں اپنی مختصر زندگی کا سکون غارت نہ کرے، بلکہ خلع یا طلاق کے اختیارات استعمال کرکے علیحدہ ہوجائے اور اپنی نئی زندگی شروع کرے۔
لیکن حیرت انگیز طور پر اکثریت اس اختیار کو استعمال کرنے کی نہیں سوچتی، بلکہ ساتھ رہنا چاہتی ہے، جس سے معلوم ہوا کہ جوڑا ایک دوسرے کے ساتھ رہنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ اب اس موقع پر یہ بات بہت اہم ہے کہ جب آپ نے ساتھ ہی رہنا ہے تو آپ شکایات، اعتراضات کا بھاری بوجھ اُٹھانے کے بجائے معاملات کو حل کرنے والی گفتگو کی طرف آئیں۔ آپ اعتراض نہ کریں، بلکہ سوال کریں کہ میرا مسئلہ کیسے حل ہوگا؟ میں کیسے اپنی بیوی کے ساتھ پرسکون رہ سکوںگا؟ میں کیسے اپنے شوہر کے ساتھ اچھی زندگی گزار سکوںگی؟ لہٰذا یہ پہلو واضح ہوا کہ وقت بے وقت، موقع بے موقع شکایتوں سے فقط غیبت، حسد، بہتان، گالم گلوچ، اور فتنہ وفساد کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آتا، بلکہ اپنی قوت ِ فیصلہ کو استعمال میں لاتے ہوئے کرنے یا نہ کرنے والی صورت کی طرف آنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ان اُمور کو سمجھنے کی ضرورت ہے، جن کا تعلق بیوی سے ہے۔

الْمرْأۃُ إِذَا صَلَّتْ خَمْسَھَا وَصَامَتْ شَھْرَھَا وَاَحْصَنَتْ فَرْجَھَا وَاَطَاعَتْ بَعْلَھَا فَلْتَدْخُلْ مِنْ أیِّ اَبْوَابِ الْجَنَّۃِ شَائَتْ۔‘‘ (حلیہ ابو نعیم)
’’ایک بیوی جب پنج وقتہ نماز کی پابندی کرے اور رمضان کے روزے رکھے اور اپنی عزت و عصمت کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی خدمت کرے تو اس کو اجازت ہے کہ جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہوجائے۔‘‘
اس حدیث میں آپ علیہ السلام خواتین کی چار ذمہ داریاں بتارہے ہیں: ۱:- فرض نماز کی ادائیگی، ۲:- فرض روزوں کی ادائیگی، ۳:- عزت وعصمت کی حفاظت کرنا، ۴:-شوہر کی اطاعت وفرمانبرداری کرنا۔
اس حدیث میں آپ علیہ السلام خواتین کو ایک بہت بڑی بشارت سنارہے ہیں کہ جنت کے تمام دروازے اُن کے لیے کھل جائیںگے، لیکن بدلے میں مطالبہ کسی لمبی چوڑی عبادت کا نہیں کیا جارہا ہے، بلکہ فقط فرائض کی ادائیگی جس میں نماز اور روزے کی فرض عبادتیں اور اپنی عصمت کی حفاظت، (جس میں پردہ خاص طور پر) شامل ہے اور آخری اہم بات اپنے شوہر کی خدمت ہے اور شوہر کی خدمت میں وہ تمام کام آجاتے ہیں، جو ایک بیوی اپنے گھر میں انجام دیتی ہے، جس میں بچوں کی پیدائش، اُن کی تربیت، کچن کا انتظام، صفائی کا انتظام وغیرہ شامل ہے۔

١:- تحفظ:بیوی اپنے شوہر سے بھرپور اُمید اور توقع رکھتی ہے کہ میری اور میرے بچوں کی مکمل ذمہ داری میرا شوہر ادا کرے گا اور وہ رہائش، خرچ اور ضروریات کی فکر میں لگے بغیر اپنے گھر کو سنبھالتی ہے، اس کے لاشعور میں یہ کھٹکارہتا ہے کہ میرا اب اس دنیا میں کوئی بھی نہیں سوائے میرے شوہر کے، تبھی وہ اپنے شوہر سے بے پناہ توقع رکھتی ہے ۔
۲:- عزت: بیوی اپنی، اپنے بچوں کی اور اپنے والدین کی عزت چاہتی ہے، اسے عزت نہ ملے تو وہ تھوڑا کام کرکے بھی خود کو ایک ملازمہ تصور کرتی ہے اور اُسے عزت مل جائے تو جان کھپا کر بھی فخر کے جذبات رکھتی ہے۔
۳:- حوصلہ افزائی: بیوی کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے، بلکہ علماء فرماتے ہیں کہ: عورت چاہے کسی بھی روپ میں ہو، ماں، بہن، بیٹی، یا بیوی، اُسے حوصلہ افزائی کی شدید ضرورت ہوتی ہے، یہ اس کی فطری چاہت ہے جسے ختم نہیں کیا جاسکتا اور اگر اُسے جائز طریقے سے حوصلہ اَفزا جملے سننے کو نہ ملیں تو وہ بعض اوقات ناجائز حوصلہ افزائی کی طرف متوجہ ہوسکتی ہے، اسی لیے اس کی پڑھائی، صفائی، کھانا اور خوبصورتی و خوب سیرتی کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جائے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیاری حدیث ہے، فرمایا:
’تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہو اور میں اپنے گھر والوں کے ساتھ تم سب میں سب سے زیادہ اچھا ہوں۔‘‘
۔گھر والوں کے ساتھ اچھا سلوک رکھے اور اس نیت سے رکھے کہ یہ بھی عبادت کا حصہ ہے اور مجھے اس حسنِ سلوک پر نیکیاں مل رہی ہیں۔
ایک اہم اور آخری بات یہ ہے کہ اپنی بیوی کا مزاج سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے خواتین کے لیے ایک مقام پر ’’غافلات‘‘ کا صیغہ ذکر کیا ہے، جب کہ مردوں میں غفلت کا مطلب لاپرواہی یا اپنی ذمہ داریوں میں پورانہ کرنے والے کو ’’غافل ‘‘کہا جاتا ہے، لیکن جن معنوں میں ’’غافلات‘‘ عورتوں کے لیے قرآن میں استعمال ہوا ہے، اس کا معنی ہے بھولی بھالی یا ایسی عورت جو حد درجہ ہوشیاری نہ جانتی ہو، بلکہ سیدھی سادی اور انتہائی مخلص مزاج ہو، جسے ہر با ت کی فلسفیانہ وجوہات اور تہہ میں جاکر سمجھنا نہ آتا ہو۔ اندازہ لگائیں کہ اس عورت سے جب مرد بار بار یہ شکایات کرتا ہے کہ تم بات نہیں سمجھتی ؟ تمہیں عقل نہیں ہے؟ تم ایک ہی بات بار بار کیوں کہتی ہو؟ تم تو پیچھے ہی پڑگئی ہو؟ تم کیوں نہیں سمجھتی؟ یہ سارے وہ جملے ہیں جن میں مرد اپنی بیوی سے دانش مندی کی انتہا درجہ توقعات رکھتا ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اس نہج پر نہیں بنایا۔

تحریر: مولانا عبدالمتین لیاری

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے