مناظرِ اسلام مولانا سید محمد اسماعیل کٹکی رحمۃ اللہ علیہ سرزمین اڈیشا (اڑیسہ) کی وہ شخصیت تھی، جن کے اہل اڈیشا پر دینی و ایمانی احسانات ہیں، جنھوں نے اڈیشا سے فتنۂ قادیانیت کی جڑیں اکھیڑ کر رکھ دیں؛ یہاں تک کہ برطانیہ میں بیٹھے مرزائے کاذب کے جانشینوں کو بھی حواس باختہ کر کے رکھ دیا، آپ صوبہ اڑیسہ (موجودہ نام: اڈیشا) کے اولین فضلائے دار العلوم دیوبند میں سے تھے۔ ان پر باقاعدہ کوئی کتاب نہیں آئی ہے، مختلف تحریریں؛ مختلف کتابوں یا رسالوں میں شائع ہوئیں، جن تک رسائی بڑی تحقیق و تلاش کے بعد ہوئی۔ ان کی وفات پر ادیب بے مثال، مشہور سوانح نگار مولانا نور عالم خلیل امینی رحمہ اللہ نے 2005ء میں مجلہ الداعی کے ربیع الاول–ربیع الثانی 1426ھ (بہ مطابق اپریل–مئی 2005ء) کے شمارے میں سوانحی مقالہ لکھا تھا۔ مرکزی دفتر کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت، دار العلوم دیوبند سے شائع شدہ مولانا مرحوم کے مجموعۂ مضامین ”ذرا غور کریں“ کے دو الگ الگ ایڈیشنوں میں، امیر الہند رابع قاری محمد عثمان منصور پوری رحمہ اللہ نے بہ طور حالات مصنف؛ مولانا مرحوم پر الگ الگ مضمون لکھا ہے۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، ملتان، پاکستان سے شائع ہونے والی کتاب احتساب قادیانیت کی چالیسویں جلد نمبر میں مولانا مرحوم کی تین کتابیں شائع کرتے ہوئے مشہور پاکستانی عالم مولانا اللّٰہ وسایا صاحب نے مولانا مرحوم کا کچھ سوانحی خاکہ پیش کرتے ہوئے اپنے کچھ مشاہدات پیش کیے ہیں (وہ تین کتابیں مولانا شاہ عالم گورکھپوری نے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، پاکستان ارسال فرمائی تھیں)۔ مولانا سید علی اشرف کٹکی قاسمی، استاذ جامعہ مرکز العلوم سونگڑہ، کٹک نے اپنے دار العلوم دیوبند کے زمانۂ طالب علمی میں مولانا مرحوم سے انٹرویو لیا تھا، جو آئینۂ دار العلوم کے 28 صفر 1417ھ بہ مطابق 15 جولائی 1996ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ مفتی محمد سلمان منصورپوری کی ندائے شاہی میں شائع ایک تحریر؛ اُنھیں کے مجموعۂ مضامین ”ذکر رفتگاں“ جلد دوم میں بھی چَھپی ہے۔ اسی طرح اڈیشا کے معروف صاحب قلم اور سخن گو عالم دین مولانا مطیع اللہ نازش کٹکی نے 2009ء میں مولانا مرحوم پر ہفت روزہ الجمعیۃ پر سلسلہ وار تین قسطوں میں تفصیلی مضامین لکھے تھے، اسی طرح انھوں نے 2007ء میں ایک مضمون لکھا تھا، جو اڈیشا کی جانب سے شائع کردہ چھٹی جماعت میں داخل نصاب کتاب ”دلکش اردو “ میں شامل ہے اور جسے سرکاری اسکول کے چھٹی جماعت کے اردو پڑھنے والے طلبہ بطور نصاب پڑھا کرتے ہیں۔ اِن کے علاوہ بھی مختلف تحریروں تک رسائی ہوئی یا ان کے بارے میں علم ہوا؛ ان مختلف جگہوں پر بکھری ہوئی باتوں کو یکجا کرتے ہوئے اور مزید تحقیق کے ساتھ بندہ مولانا مرحوم پر کچھ لکھنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔
نوٹ:- دو سال قبل (2021ء میں) بندے نے یہ تحریر لکھ کر شائع کروائی تھی، اب دو سال کے بعد (2023ء میں) دو بارہ یہ تحریر نظر ثانی، حذف و ترمیم اور حوالہ جات کے اضافے کے ساتھ کے بعد شائع کروا رہا ہے۔
ولادت
مولانا مرحوم سنہ 1914ء کو رسول پور، سونگڑہ، ضلع کٹک، صوبہ بہار اڑیسہ میں پیدا ہوئے تھے۔ (آئینہ دار العلوم، 28 صفر 1417ھ بہ مطابق 15 جولائی 1996ء) مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ اور مولانا سید محمد اسماعیل کٹکی کا ننھیال ایک لکھا ہوا ملا۔ (تحفظ ختم نبوت کی صد سالہ تاریخ، مطبوعہ: 2008ء)
تعلیم و تربیت
انھوں نے اردو، فارسی اور ابتدائی دیگر کتابیں اپنے وطن مالوف میں اپنی پھوپھی سیدن بی بی (سیدہ خاتون) سے پڑھیں۔ ہدایۃ النحو تک کی تعلیم؛ مدرسہ شاہی کے ایک فاضل مولانا محمد عمر کٹکی کے قائم کردہ مدرسہ؛ ”مدرسہ اسلامیہ، سونگڑہ“ میں حاصل کی، پھر آگے کی تعلیم کے لیے آپ مدرسہ قاسمیہ شاہی مرادآباد پہنچے اور وہاں شرح وقایہ تک کی تعلیم حاصل کی، جہاں پر ان کے اساتذہ میں مؤرخ اسلام مولانا سید محمد میاں دیوبندی، مولانا محمد اسماعیل سنبھلی، مولانا عبد الحق مدنی اور حضرت مولانا قدرت اللّٰہ قدرت رحمہم اللّٰہ شامل تھے۔ (ذکر رفتگاں، ج: 2، ص: 16–17)
سابق سفیر دار العلوم دیوبند مولانا ذبیح اللہ قاسمی دربھنگویؒ کے بیان کے مطابق؛ مراد آباد کے زمانۂ طالب علمی ہی کا ایک واقعہ ہے کہ مولانا مرحوم کو خواب میں امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللّٰہ کی زیارت ہوئی؛ لیکن خواب میں انھیں امام اعظم؛ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کی شکل میں نظر آئے، اس کے بعد ہی اتفاقاً شیخ الاسلام مراد آباد تشریف لائے، تو مولانا مرحوم نے خواب میں دیکھا ہوا امام اعظم کا چہرہ شیخ الاسلام کے مماثل پایا، تبھی سے مولانا مرحوم کو شیخ الاسلام سے والہانہ عقیدت ہوگئی۔
اس کے بعد آپ دار العلوم دیوبند تشریف لے گئے اور وہاں آپ کا داخلہ ہوگیا، آپ نے اس وقت کے جبالِ علم اور متبحر اساتذہ سے تحصیل علم کے منازل طے کیے، ان اساتذہ میں شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی، علامہ محمد ابرہیم بلیاوی، حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب قاسمی، مولانا رسول خان ہزاروی، مفتی محمد شفیع دیوبندی، مولانا میاں سید اصغر حسین دیوبندی، شیخ الادب و الفقہ مولانا اعزاز علی امروہوی، مولانا مرتضی حسن چاندپوری، مولانا عبد السمیع دیوبندی اور مولانا نبیہ حسن دیوبندی رحمہم اللّٰہ۔ (قاری محمد عثمان منصور پوریؒ و مولانا نور عالم خلیل امینیؒ کی تحریروں کے مطابق)
فراغت
1353ھ بہ مطابق 1934ء کو آپ نے دار العلوم دیوبند میں دورۂ حدیث سے فراغت حاصل کی (جیساکہ حضرت مولانا قاری محمد عثمان صاحب رحمہ اللّٰہ نے لکھا ہے، نیز دار العلوم ڈائری–2015ء میں مولانا محمد طیب قاسمی ہردوئی نے دار العلوم دیوبند سے ریکارڈ حاصل کرکے؛ اپنے ادارہ ”ادارہ پیغامِ محمود، دیوبند“ سے شائع ہونے والی ”لیل و نہار ڈائری“ کو ”فیضان شیخ الاسلام“ سے موسوم کر کے اس میں شیخ الاسلام کے ان تلامذہ کی فہرست شائع کی تھی، جنھوں نے آپ سے دار العلوم دیوبند میں بخاری شریف پڑھی ہو، اس میں مولانا مرحوم کا سنہ فراغت 1353ھ لکھا ہوا ہے، جس کا مطابق سنہ 1934ء نکل کر آتا ہے؛ جب کہ خود مولانا نے اپنے انٹرویو میں اپنا سنہ فراغت 1932ء بتلایا ہے، ان سب میں سے بندے نے دار العلوم دیوبند کی ریکارڈ والے قول کو ترجیح دی ہے)۔
میدان مناظرہ میں
دار العلوم دیوبند سے فراغت کے بعد مزید چھ ماہ آپ نے عظیم مناظر مولانا مرتضی حسن چاندپوریؒ کے پاس رہ کر مناظرہ کی مشق و تمرین کی اور ان سے مناظرہ کے اصول و طرق سیکھے، زمانۂ طالب علمی ہی میں آپ ایک کامیاب مناظر بن چکے تھے اور اسی زمانہ میں کالی چرن اور رام چندر جیسے آریہ سماج پنڈتوں کو لاجواب اور مبہوت کیا تھا اور دیوبند شوگر میل کے ایک رافضی مینیجر کو بحث و مناظرہ کے ذریعے؛ دولت اسلام سے مالا مال کیا تھا، جس نے مناظرہ کے بعد قاری محمد طیب قاسمیؒ کے دست مبارک پر اسلام قبول کیا تھا۔ قادیانیوں کے مشہور مناظرین مفتی صادق، سرور شاہ، محمد حنیف کشمیری، غلام احمد مجاہد اور محمد سلیم وغیرہ کو بار بار عبرت ناک شکست دی تھی۔ (ذرا غور کریں، بار اول: 2005ء، بار دوم: 2012ء)
میدان عمل میں
آپ شیخ الاسلام حضرت مدنی کے خاص شاگردوں میں تھے، تعلیم سے فراغت کے بعد آپ اولاً راونشا کالجیٹ اسکول، کٹک میں سیکنڈ مولوی کی حیثیت سے فارسی و اردو کے استاذ مقرر ہوئے۔ پھر جے پور ہائی اسکول، کوراپٹ، اڈیشا میں 1947ء تک (عملی طور پر 1946ء تک) اسکول کی سرکاری ملازمت میں مشغول رہے۔ (صریرِ خامہ از خاور نقیب، ص: 2008ء)
29 دسمبر 1946ء میں آپ حضرت شیخ الاسلام کے ایما پر انجمن تبلیغ الاسلام (اس انجمن کا قیام؛ 1945ء میں سونگڑہ کے اہلِ فکر حضرات کے ذریعے عمل میں آیا تھا) سے منسلک ہوکر بہ حیثیت مبلغ؛ رد قادیانیت اور تحفظ ختم نبوت پر سرگرم عمل ہوگئے۔ زمانۂ طالب سے لے کر نوے کی دہائی تک آپ نے تقریباً 70 مناظرے کیے، جس میں 20–25 بڑے مناظرے ہوئے۔ آٹھ سو سے زائد افراد آپ کے ہاتھ پر مشرف با اسلام ہوئے اور آپ کی وعظ و تقریر اور اظہارِ حق و ابطالِ باطل سے لاتعداد مسلمانوں کا ایمان؛ مضبوط و مستحکم ہوا۔ (مولانا قاری محمد عثمان منصور پوریؒ کی تحریر کے مطابق) ماہنامہ شبستان کے اکتوبر 1974ء کے شمارے میں شائع مولانا مرحوم کے انٹرویو کے مطابق؛ جب ”مناظرۂ بھدرک“ اور ”مناظرۂ یادگیر“ کے نام سے بھدرک اور یادگیر کے مناظروں کی رپورٹیں مجمع عام میں سنائی گئیں، تو بے شمار قادیانیوں نے قادیانیت سے توبہ کی اور مسلمان ہو گئے، جن کی تعداد آٹھ ہزار ہے۔
آپ نے کئی مناظرے کیے، جن میں سے بعض مناظرے مشہور اور قابلِ ذکر ہیں:
(1) سب سے پہلا مناظرہ غالباً سات بٹیہ، ضلع کٹک میں ہونے والا مناظرہ تھا (مولانا محمد علی کٹکی قاسمی دامت برکاتہم کے بیان کے مطابق)
(2) مناظرۂ یادگیر؛ جو نومبر 1963ء کو؛ یادگیر، کرناٹک میں قادیانیوں سے ہونے والا مناظرہ تھا، معاونین میں مولانا سید احمد النبیؒ اور مولانا سید سراج الساجدین کٹکیؒ بھی شامل تھے، اس مناظرہ کی رپورٹ یادگارِ یادگیر کے نام سے چھپی بھی تھی اور جنوری 2012ء میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، ملتان، پاکستان سے شائع ہونے والی کتاب احتساب قادیانیت، جلد نمبر 40 میں مولانا موصوف کی یہ کتاب مزید دو کتابوں کے ساتھ شائع کی گئی تھی، جو اب انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہے۔ ایک مناظرہ غالباً 1988ء میں کُتّہ گوڑم (کوتھاگودیم) تلنگانہ میں ہوا تھا۔ (مولانا محمد علی کٹکی صاحب کے بیان کے مطابق)۔
سنہ 1958ء کو بھدرک میں ہونے والا مناظرہ بھی یادگار مناظرہ تھا، جس میں مشہور بریلوی عالم مولانا حبیب الرحمن بھدرکی کی دعوت پر اہل سنت و الجماعت کی طرف سے بہ حیثیت مناظر مولانا مرحوم تشریف لے گئے تھے، حضرت مولانا احمد النبیؒ بھی ہمراہ تھے۔ فریق مخالف کی طرف سے مولانا شریف احمد امینی تھے، جس میں قادیانیوں کو شکست فاش ہوئی تھی۔ آپ کے ساتھ مناظروں میں کبھی کبھی مولانا احمد النبی بھی ہوا کرتے تھے۔
رد بریلویت پر آپ کی خدمات
آپ نے اڈیشا میں رد بریلویت پر بھی کام کیا؛ بالخصوص آپ نے اپنے شاگرد رشید حضرت مولانا سید محمد سراج الساجدین کٹکی قاسمی رحمۃ اللّٰہ علیہ اور دیگر علماء سے اس سلسلہ میں کام لیا، اس سلسلہ میں کئی مناظرے ہوئے، جن میں بارہ بٹی اسٹڈیم، کٹک میں ہونے والا مناظرہ غالباً سن 1979ء میں ہوا تھا (یہ بات مولانا محمد علی کٹکی صاحب نے بیان فرمائی)، فریق مخالف کی طرف سے صدر مولانا حبیب الرحمن بھدرکی (معروف بہ مجاہد ملت؛ متوفی: 1981ء) تھے اور ان کی طرف سے مشہور زمانہ بریلوی عالم مولانا ارشد القادری (متوفی: 2002ء) بھی مدعو اور شریکِ مناظرہ تھے اور فریق مخالف کو بری طرح سے شکست بھی ہوئی تھی۔
سیاسی پارٹی اور تحریک آزادی
مولانا سید علی اشرف قاسمی صاحب کو انٹرویو دیتے ہوئے مولانا مرحوم نے فرمایا تھا: ”میرا تعلق شروع سے لے کر اب تک کانگریس سے رہا ہے اور کانگریس ہی سے رہے گا، میں نے تا زندگی کھدر پہنا اور پہنتا رہوں گا۔ میں کانگریس کی ہزار خرابیوں کے باوجود؛ (اسے) دوسری پارٹیوں سے بہتر اور اچھا سمجھتا ہوں۔ سنہ 1947ء تک تو میری اسکولی زندگی رہی (آپ اس وقت اسکول ٹیچر تھے)، جنگ آزادی کے لیے انڈر گراؤنڈ کام کرتا رہا، اکثر خفیہ امور مجھ سے متعلق رہے اور میں بڑی احتیاط سے اسے انجام دیتا رہا، جس کی وجہ سے ہمیشہ گرفتاری سے محفوظ رہا۔“ ( آئینۂ دار العلوم دیوبند، شمارہ: 28 صفر 1417ھ بہ مطابق 15 جولائی 1996ء)
جامعہ اسلامیہ مرکز العلوم کا قیام
جامعہ اسلامیہ مرکز العلوم سونگڑہ کی مجلسِ شوریٰ (منعقدہ: یکم محرم الحرام 1444ھ بہ مطابق 31 جولائی 2022ء) میں پیش کی گئی ”آئینِ جامعہ اسلامیہ مرکز العلوم سونگڑہ “ کے مطابق؛ مدرسے کی ابتدا دراصل ایک مکتب کی شکل میں ہوئی تھی، پھر 1945ء میں جب ”انجمن تبلیغ اسلام“ کا قیام عمل میں آیا، تو وہ مکتب انجمن کے زیر نگرانی آ گیا، اور انجمن نے اس مکتب کو عربی مدرسے میں تبدیل کرکے اس کا نام ”مدرسہ عربیہ اسلامیہ سونگڑہ“ رکھا۔ پھر 29 دسمبر 1946ء کو مولانا مرحوم انجمن کے مبلغ اور اس مدرسے کے صدر مدرس منتخب کیے گئے اور 7 مئی 1951ء کو انجمن کی جانب سے مولانا مرحوم کو مستقل مہتمم مقرر کیا گیا۔
1987ء میں امارت کانفرنس کے موقع پر مولانا سید سراج الساجدین کٹکیؒ نے ”مدرسہ عربیہ اسلامیہ سونگڑہ“ سے منتقل کرکے مدرسے کا نام؛ ”مرکز العلوم مدرسہ عربیہ اسلامیہ سونگڑہ“ کر دیا، پھر انھیں کے ہی دور میں ”الجامعۃ الاسلامیۃ مرکز العلوم سونگڑہ“ نام ہوا اور اب یہ ادارہ ”جامعہ اسلامیہ مرکز العلوم سونگڑہ“ کے نام سے رجسٹرڈ ہے۔
روز اول سے ہی شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ اس مدرسے کے سرپرست رہے، پھر فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنیؒ تا وفات اس کے سرپرست رہے اور موجودہ سرپرست جانشین شیخ الاسلام مولانا سید ارشد مدنی صاحب ہیں۔
بعض تنظیموں یا مجلسوں کی صدارت یا رکنیت
صوبہ اڑیسہ بہت پہلے ہی سے حدود کے اختلاف کے ساتھ مستقل صوبہ رہا ہے، سنہ 1803ء میں اسے متحدہ بنگال میں شامل کر لیا گیا تھا، اس سے قبل ہی بہار بھی متحدہ بنگال میں شامل کیا جا چکا تھا، پھر سنہ 1912ء میں انگریزوں نے ہی صوبجات بہار و اڑیسہ کو الگ کر کے ایک مستقل صوبہ بنا دیا، اس کے بعد یکم اپریل 1936ء میں انگریزوں ہی کے ذریعے؛ صوبہ اڑیسہ کو لسانی بنیاد پر صوبہ بہار سے الگ کرکے مستقل ریاست بنا دیا گیا، [Some Aspects of British Administration in Orissa (1912-1936), Bundita Devi, p. 14–15] دونوں صوبوں کے سارے سرکاری دفاتر الگ الگ ہوگئے تھے، اسی کے پیش نظر غالباً اکتوبر یا نومبر 1936ء اور دوسرے قول یعنی مولانا سید سراج الساجدین کٹکیؒ کے بیان کے مطابق؛ 1938ء میں اڑیسہ کی ایک مستقل ریاستی جمعیت قائم ہوئی، جس کا صدر مولانا سید فضل الرحمن قاسمی سونگڑویؒ، ایڈیٹر مسلم گزٹ، کٹک کو اور مولانا سید برکت اللہ برکت (متوفی: 1979ء) کو نائب صدر منتخب کیا گیا، پھر مولانا فضل الرحمان صاحب کے انتقال کے بعد مولانا سید برکت اللہ صاحب کو صدر مقرر کیا گیا، پھر ان کی زندگی ہی میں مولانا محمد اسماعیل کٹکی کو صدر مقرر کیا گیا (سیکریٹری رپورٹ بہ موقع اجلاس منتظمہ جمعیت علمائے اڈیشا، مورخہ 20 جمادی الاولی 1443ھ بہ مطابق 25 دسمبر 2021ء، جنرل سیکریٹری: مفتی سید نقیب الامین برقی قاسمی؛ مولانا سید اسماعیل کٹکیؒ کس سنہ میں صدر جمعیۃ علماء اڑیسہ بنائے گئے تھے، اس کی تحقیق تادم تحریر نہ ہو سکی؛ البتہ 1964ء سے قبل ہی یقینی طور پر آپ صدر بنائے جا چکے تھے؛ جیسا کئی قرائن سے معلوم ہوئے، وقف ایڈمنسٹریٹشن بورڈ کے 1965–66ء کے شائع کیے گئے تجزیاتی رپورٹ سے پتہ چلا کہ اس میں مولانا مرحوم کو جمعیۃ علماء اڑیسہ کا صدر لکھا گیا ہے۔)
1964ء میں حضرت مولانا اسماعیل مرحوم کو امارت شرعیہ اڑیسہ کا امیر مقرر کیا گیا تھا، پھر اس کے بعد امیر الہند اول (امارت شرعیہ ہند کے پہلے صدر) حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب محدث اعظمی امارت شرعیہ ہند کی طرف سے اڈیشا دورہ پر تشریف لائے تھے اور انھوں نے مولانا اسماعیل مرحوم کی امارت کی توثیق بھی کی تھی اور اس کی بقا کا اعلان بھی کیا تھا۔ (مولانا سید سراج الساجدین کٹکیؒ کے بیان کے مطابق) 1964ء سے تا وفات یعنی 2005ء تک آپ امیر شریعت اڑیسہ رہے اور سالہا سال جمعیت علمائے ہند کی مجلس عاملہ کے رکن بھی رہے، اور آپ کی وفات تک آپ کے شاگرد رشید مولانا سید محمد سراج الساجدین کٹکیؒ نائب امیرِ شریعت و نائب صدر جمعیت اڈیشا رہے، پھر اپنے استاذِ محترم کی وفات کے بعد دونوں پلیٹ فارم کے صدر بھی بنائے گئے۔
سنہ 1984ء میں جب جنرل ضیاء الحق شہید نے امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری کیا اور اس کے نتیجہ میں مرزا طاہر بھاگ کر برطانیہ میں پناہ گزیں ہوا اور قادیانیوں نے دوبارہ اپنی سرگرمیوں کا رخ ہندوستان کی طرف پھیر لیا تو اسی تناظر میں فدائے ملت رحمہ اللّٰہ نے مسلمانوں میں اس سلسلہ میں بیداری و معاملہ کی گہرائی کا احساس پیدا کرنے کے لیے 29 تا 30 اکتوبر 1986ء دار العلوم دیوبند میں سہ روزہ اجلاس کیا، اسی اجلاس کے موقع پر کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت کا قیام عمل میں آیا، جس کا صدر؛ مہتمم دار العلوم دیوبند مولانا مرغوب الرحمن صاحب بجنوریؒ، نائب صدر مولانا اسماعیل کٹکیؒ، ناظم اعلی؛ مفتی سعید احمد پالن پوریؒ، سابق شیخ الحدیث دار العلوم دیوبند اور ناظم؛ امیر الہند رابع قاری محمد عثمان منصور پوریؒ کو بنایا گیا تھا، ملک بھر کی مؤقر شخصیات پر مشتمل 23 حضرات کی مجلسِ عاملہ تشکیل دی گئی۔ اس کے بعد فتنۂ قادیانیت کی سرکوبی کی تربیت و ٹریننگ کے لیے سنہ 1988ء میں جو سب سے پہلا دس روزہ تربیتی کیمپ دار العلوم دیوبند میں لگا تھا، وہ مولانا موصوف کی زیر سرپرستی منعقد ہوا تھا۔ اس کے بعد بھی کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت کی زیر نگرانی ملک بھر میں رد قادیانیت پر تربیتی کیمپ اور کانفرنسیں منعقد ہوئیں تو بہت سے مقامات پر حضرت مرحوم نے شرکت فرما کر رد قادیانیت کے خاص گر سکھائے۔ سنہ 1992ء سے تا وفات آپ تقریباً چودہ سال مجلس شورٰی دار العلوم دیوبند کے رکن رہے۔ (دار العلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ – 2020ء ایڈیشن از ڈاکٹر مولانا محمد اللّٰہ خلیلی قاسمی، مطبوعہ: شیخ الہندؒ اکیڈمی، دار العلوم دیوبند، صفحہ: 322 ،323 ،758 اور ذرا غور کریں میں عرضِ ناشر: سابق ناظمِ کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت مولانا قاری سید عثمان منصور پوریؒ، دوسرا ایڈیشن: 2012ء) وہ کانگریس کے حامی تھے اور اخیر عمر تک اسی سے منسلک رہے اور تحریک آزادی میں بھی سرگرم رہے۔ (آئینۂ دار العلوم میں شائع انٹرویو) نیز رابطۂ مدارس اسلامیہ عربیہ دار العلوم دیوبند کی طرف سے اڈیشا کے صوبائی صدر بھی رہے ہیں۔ (رابطۂ مدارس اسلامیہ عربیہ دار العلوم دیوبند کی تیرہ سالہ خدمات از مولانا شوکت علی قاسمی بستوی، مئی 2007، ص: 106–107)
مشہور پاکستانی مناظرین مولانا لال حسین اختر اور مولانا محمد حیات رحمہا اللّٰہ سے ان کے دوستانہ مراسم تھے، نیز 6 اپریل 1999ء کو مدرسہ صولتیہ، مکہ مکرمہ میں مولانا محمد طلحہ کاندھلویؒ کی مہمان نوازی کے موقع پر مولانا مرحوم نے مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کی مجاہدانہ خدمات سے خوش ہوکر ان کی دستار بندی فرمائی تھی۔ (تحفظ ختم نبوت کی صد سالہ تاریخ، مطبوعہ: 2008ء)
تلامذہ
آپ کے تلامذہ میں یہ حضرات بھی شامل تھے:
مولانا سید محمد سراج الساجدین کٹکیؒ (متوفی: 21 اکتوبر 2006ء؛ مولانا مرحوم کو اپنے تلامذہ میں سب سے زیادہ انھیں پر اعتماد تھا، جیساکہ مولانا سید اشرف علی کٹکی قاسمی کے لیے ہوئے انٹرویو میں مذکور ہے)، امیر شریعت ثانی اڈیشا و اور صدر جمعیۃ علماء اڈیشا ثالث
مولانا عبد الحفیظ کٹکی مظاہری، مہتمم جامعہ رشیدیہ ریاض العلوم، گوہالی پور، سونگڑہ
مولانا محمد جلال الدین کٹکی قاسمیؒ (متوفی: 15 فروری 2021ء)، جمعیۃ علماء اڈیشا (الف) کے پہلے صدر، امارت شرعیہ اڈیشا کے تیسرے امیر اور بانی و مہتمم جامعہ اسلامیہ دینیہ (ارشد العلوم)، کنی پاڑہ، سبلنگ، کٹک
مولانا محمد منظور احمد کٹکیؒ، سابق چیئرمین اردو اکادمی، کٹک، اڈیشا
مولانا سید کفیل احمد قاسمی، سابق چیئرمین و ڈین شعبۂ عربی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
مولانا قاضی محمد علی صاحب کٹکی، مہتمم جامعہ سراج العلوم عرفانیہ، سات بٹیہ، کٹک و نائب صدر جمعیت علمائے اڈیشا (الف)
مولانا عبد السبحان صاحب قاسمی نیاگڑھی، اڈیشا کے اڈیا بولے جانے والے علاقوں میں ان کی بے بہا دینی خدمات ہیں۔
مولانا عبد الستار صاحب کاکٹ پوریؒ، سابق مہتمم مدرسہ احمد العلوم، فقیر ساہی، کاکٹ پور، پوری
مولانا عبد المنان صاحب قاسمی، سابق رکن مجلسِ عاملہ جمعیت علمائے اڈیشا (الف)
مولانا محمد فاروق صاحب قاسمی، امیر شریعت رابع صوبہ اڈیشا، مہتمم جامعہ اشرف العلوم کیندرا پاڑہ۔
مولانا محمد سفیان صاحب قاسمی، نائب صدر جمعیت علمائے اڈیشا (الف)
حضرت مولانا محمد غفران صاحب قاسمی، بالو بیسی، سابق عبوری صدر جمعیت علمائے اڈیشا (الف) و مہتمم مدرسہ فرقانیہ، بالوبیسی
مولانا و قاضی سید انظر نقی صاحب قاسمی، استاذ حدیث جامعہ مرکز العلوم، سونگڑہ، اڈیشا
مولانا محمد ارشد صاحب قاسمی (راور کیلا)، جمعیت علماء اڈیشا (الف) کے دوسرے صدر
مفتی اشرف صاحب قاسمی، مہتمم مدرسہ قاسم العلوم، بشن پور، ضلع جگت سنگھ پور و سابق جنرل سیکریٹری جمعیت علمائے اڈیشا (میم)
مولانا نور اللہ صاحب قاسمی جدو پوریؒ (متوفی: 19 جولائی 2022ء)، خلیفہ فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنیؒ
مولانا سید شمس تبریز قاسمی، سفیر دار العلوم دیوبند
مولانا عنایت اللہ صاحب ندوی، استاذ دار العلوم ندوة العلماء لکھنو و مصنفِ ”بین الاقوامی معلومات“
مولانا مفتی سید نقیب الامین صاحب برقی قاسمی، مہتمم و شیخ الحدیث جامعہ مرکز العلوم، سونگڑہ، کٹک و جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء اڈیشا (الف)
والد محترم قاری محمد نور الامین صاحب صدیقی، مہتمم دار العلوم حسینیہ، مدنی نگر چڑئی بھول، ضلع میوربھنج (تجوید کی بعض کتابیں پڑھی تھیں)
مولانا شاہ عالم گورکھپوری، نائب ناظم کل ہند مجلسِ تحفظِ ختمِ نبوت (انھوں نے بھی مولانا سے مجالِ تحفظ ختم نبوت میں بھرپور استفادہ کیا ہے)
ان کے علاوہ بھی ان کے تلامذہ کی ایک کثیر تعداد ہے۔
تصنیف
تلاش بسیار کے بعد بھی آپ کی چھ تصانیف کا علم ہوسکا: (1) یادگارِ یادگیر (مطبوعہ: 1965ء)، (2) اسلامِ قادیانی، (3) مناظرۂ بھدرک، (4) قرآن قادیانی (جو قادیانی قرآن کے نام سے بھی معروف ہے، طبع اول: 24 فروری 1946ء، طبع ثانی: فروری 2020ء؛ جسے دوبارہ مولانا شاہ عالم گورکھپوری نے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، پاکستان سے مولانا اللہ وسایا صاحب کے زیر نگرانی شائع ہونے والی کتاب محاسبۂ قادیانیت کے ساتھ بطور رسالہ شاملِ اشاعت کروایا۔) (5) اڈیہ زبان میں قادیانی کاہیں کی مسلمان ناہانتی؟ یعنی قادیانی کیوں مسلمان نہیں؟۔ غالباً یہ کتاب مولانا محمد منظور نعمانیؒ کی کتاب ”قادیانی کیوں مسلمان نہیں؟“ کا ترجمہ ہے، (6) ذرا غور کریں (یہ کتاب مولانا محمد اسماعیل کٹکی رحمہ اللّٰہ کی مختلف تحریروں پر مشتمل ہے، جو شاہ عالم گورکھپوری، نائب ناظم کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت، دار العلوم دیوبند کی ترتیب دی ہوئی ہے۔) ان کے علاوہ کسی تصنیف کا علم نہ ہو سکا۔
وفات
10 محرم 1426ھ کا دن گزار کر 11 محرم کے شروع ہونے کے بعد اور 20 فروری 2005ء کے ختم ہونے سے قبل مولانا مرحوم 91 یا 92 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ (الداعی، نور عالم خلیل امینی، ربیع الاول–ربیع الثانی 1426ھ م اپریل–مئی 2005ء و ذکر رفتگاں از مفتی سید سلمان منصور پوری، ج: 2، ص: 16)
ان کی وفات پر دار العلوم دیوبند کی مجلس عاملہ کی میٹنگ (منعقدہ 18 جمادی الاخری 1426ھ بہ مطابق 25 جولائی 2005ء بہ روز پیر) میں افسوس کا اظہار کیا گیا تھا۔ ان کی وفات کے موقع پر دار العلوم دیوبند کی دار الحدیث تحتانی میں ایک دعائیہ نشست کا انعقاد کیا گیا تھا، جس میں سابق مہتمم دار العلوم دیوبند اور موصوف کے شریکِ درس مولانا مرغوب الرحمن بجنوری، نائب مہتمم قاری عثمان منصورپوری، نائب مہتمم مولانا عبد الخالق مدراسی اور دیگر اساتذہ و طلبۂ دار العلوم دیوبند نے شریک ہوکر اظہارِ افسوس کرتے ہوئے ان کے لیے ایصال ثواب کیا۔ (ماہنامہ دار العلوم، رجب، شعبان 1426ھ بہ مطابق ستمبر 2005ء، مضمون: دارالعلوم دیوبند میں مجلس عاملہ رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ کا اہم اجلاس)
جب تک اڈیشا میں صحیح العقیدہ لوگ رہیں گے تب تک لوگ مولانا موصوف و مرحوم کے احسان مند رہیں گے۔
نوٹ:- مزید حوالہ جات کے لیے ویکیپیڈیا پر مولانا مرحوم پر لکھے گئے مضمون پر دیے گئے حوالہ جات دیکھے جا سکتے ہیں۔
اللّٰہ تعالٰی مولانا کی مغفرت فرما کر جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور بعد کے لوگوں میں بھی ان سا جذبۂ دینی حمیت پیدا فرمائے۔ آمین
ازقلم: محمد روح الامین میُوربھنجی