(گزشتہ سے پیوستہ تحریر میں ادھورے خواب کے حوالے سے یہ لکھا گیا تھا کہ ملت کی ناخدائی کے لئے "سیکنڈ لائن” کی تیاری مولانا کاخواب تھا وہ نوجوان قیادت کو زمین پر اتارنا چاہتے تھے اسی لئے بڑوں کی صفوں میں وہ چھوٹوں کو خوبیوں کے ساتھ جگہ دے کر قیادت وذمہ داری کا احساس جگارہے تھے)
(7) …………(اردو کارواں )
مفکر اسلام مولانا محمد ولی صاحب رحمانی کا خمیر گہرے فکر وشعور اور غیر معمولی فکر وذہن کے ساتھ تیار ہوا تھا ،وہ ہندستان جیسے ملک میں مسلمانوں کے ملی تشخص اور سماجی وجود کو مضبوطی فراہم کرنے کے لئے کئی الگ الگ زاویوں سے محنت کررہے تھے ان کا احساس تھا کہ
قوت فکر و عمل پہلے فنا ہو تی ہے
تب کسی قوم کی قسمت پہ زوال آتا ہے
اس لئےوہ ملک کے موجودہ نظرئیے اور مستقبل کے ہندوستان کو ماقبل آزادی سے جوڑ کر دیکھ رہے تھے ،جس میں تخریبی طبقہ کبھی ایک آنہ تھا ،مگر یہ ناسور مابعد آزادی بڑھتے بڑھتے اور 2024/ کے الیکشن تک جو روپ دھار نے والا تھا اس کے جراثیم کو وہ قبل از وقت محسوس کرچکے تھے،ملت اسلامیہ کو بیدار کرنے اور آنے والے دنوں میں دیومالائی تہذیب کو مسلط کرنے کے گھناؤنے عمل سے تحفظ فراہم کرنے کی راہ میں بنیادی طور پر "اردو زبان” کو حصار میں لینے اور اور اس کے فروغ کے لئے امارت شرعیہ کے پلیٹ فارم سے "اردو کارواں” کی داغ بیل ڈالی ،جس کی صدارت کے لئے ڈاکٹر اعجاز علی پر ان کی نظر گئی ۔اسی طرح نائب ناظم امارت شرعیہ آبروئے قلم مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی اور پروفیسر صفدر اما م قادری نائبین صدربنائے گئے۔ڈاکٹر ریحان غنی جنرل سکریٹری اور انوار الہدی سکریٹری قرار پائے تھے۔ اس اردو کارواں کی ،حضرت رحمانی مکمل نگرانی وسرپرستی فرماتے رہے ،اس کی کئی میٹنگیں کروائیں اورپوری قوت کے ساتھ انہوں نے اردو کے مسائل کو لے کر آواز لگائی ،حکومتی دفاتر میں میمورنڈم سونپے گئے ،یہاں تک کہ حکومت بہار سے وقت تک لے لیا گیا تھا ،جہاں سنجیدہ اور فیصلہ کن مرحلوں گفتگو ہونی تھی ،مگر اجل نے حضرت کو اپنے پاس بلا لیا ۔
نگہ بلند ، سخن د لنو ا ز ،جا ں پر سو ز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے
انہوں نے لاخیروں کو بتا یا کہ اردو ملک کی مشترکہ شیریں زبان ہے ،یہ جنگ آزادی کے جیالوں کی آواز ہے ،اردو نے گنگا جمنی تہذیب اور ہندو مسلم اتحاد میں اہم کردار ادا کیا ہے ،اردو زبان آزادی کے متوالوں میں جوت جگانے کے لئے کئی انقلاب آفریں فلک شگاف نعرے دئیے جن سے قومیں جڑتی گئیں اور غاصب انگریزوں کی حکومتیں بکھرتی رہیں بالآخر آزادی دلاکر زبان اردو نے دم لیا ۔مگر کیا معلوم کہ
یوں ملیں گے ہم سےوطن کے لوگ آزادی کے بعد
جیسے بے حس باپ کوئی دوسری شادی کے بعد
مولانا رحمانی ،اردو کے ساتھ اپنوں اور حکومتوں کی طرف سے ہورہے سوتیلے روئیے سے نالاں تھے ،چاپلوسی اور دریوزہ گری سے اوپر اٹھ کر اردو کے حق کو وصولنے کی غرض سےکوئی مضبوط ومخلصانہ آواز جو صرف اردو کی بقاء وتحفظ کے لئے اٹھے ،اس حوالے سے بالکل مہیب سناٹا تھا ،مولانا نے جرئت کی اور اس سمت میں بہ طور خواص پہلے مرحلے میں یکم تا سات فروری 2021تک بہار کے بیشتر اضلاع میں "ہفتہ برائے تعلیم وتحفظ اردو” کے عنوان سے مشاورتی اجلاس کے ذریعے سنجیدہ اہل علم کو جوڑا گیا ،دوسرے مرحلے میں سات تا چودہ فروری کا ہدف رکھا گیا اور پورے بہار سے اردو کے محبین کو14/فروری 2021 کی تاریخ میں امارت شرعیہ کے اندر جمع کیا گیا اور عظیم الشان اجلاس منعقد ہوا ،بعض اہل نظر کی رائے ہے کہ اردو کے نام پر اتنا منظم اور پلاننگ کے ساتھ منعقد ہونے والا اردو کا پہلا اجلاس تھا ۔
خوبی کی بات یہ بھی تھی کہ اس اجلاس میں ہر طبقے کی طرف سے مفید مشورے بھی آئے اور باضابطہ "اردو کارواں” کے نام سے کمیٹی بھی تشکیل پائی ،اور بہت کم وقت میں اس کمیٹی نے اردو کے تن مردہ میں جان ڈال کر اردو زبان کو قوت وحوصلہ فراہم کیا ،اس اجلاس میں اردو کے تعلق سے دیگر تجویزوں کے علاؤہ مکاتب کے قیام ،اسکول کھولنے اور ہر گھر میں اردو کے فروغ کے لئے اردو بولنے ،پڑھنے ،لکھنے،اردو روز نامہ ،ایک ہفت روزہ ،اور ایک ماہنامہ جاری کرانے اور دفاتر میں اردو تحریر میں درخواستیں دینے ،دکان مکان پر اردو میں بورڈ آویزاں کرنے جیسی ترکیب بھی بتلائی گئی تھی۔حصرت امیر شریعت سابع نے اسی ریاستی اجلاس میں یہاں تک فرمایاتھا کہ "اردو کو دودھ پلانے والے مجنوں کی نہیں خون دینے والے مجنوں کی ضرورت ہے "ضرب المثل جملےکے طور پران کے اس بے ساختہ لہجے نے اہل اردو میں ایک نئی امنگ اور نئی توانائی پیدا کردی تھی۔
اردو کارواں کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے بھی اہل بصیرت لگاسکتے ہیں کہ اپنے قیام کےمحض مہینہ بھرکے اندر اس کمیٹی نے اپنی دھمک سے نہ صرف بہت سے اردو فروشوں ،بے ضمیروں اور اردو کی روٹی چبانے والے غیر سماجی انسانوں کا بوریابستر سمیٹ دیا تھا ،بلکہ حکومت کے گلیاروں میں بھی اس اردو کارواں کی دھمک محسوس کی جانے لگی تھی ۔حضرت صاحب نے اس اردو مشاورتی اجتماع میں جو صدارتی خطبہ دیا تھا اس کے بعض حصے کو پڑھ جائیے کہ اردو کے فروغ کے لئے وہ کس درجہ فکرمند تھے۔۔۔!
"آج کی مجلس میں صرف پٹنہ شہر کے حضرات نہیں ہیں ،صوبہ بہار کے مختلف حصوں سے اہل علم تشریف لائے ہیں، جو نہ صرف اردوداں ہیں بلکہ اردو کے شیدائی ہیں ، اردو کے لیے کچھ کرتے رہنے اور کر گزرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ دلوں میں چھپا ہوا یہ حوصلہ عمل کے سانچے میں ڈھل جائے ، جوش اور ہوش کے ساتھ کاریگری ہو تو بڑی بات بنے گی اور بہت سی بگڑی بن جائے گی۔ اردو ہم سے آرزو مندی ، دردمندی، فکر مندی کی طلبگار ہے۔ اردو چاہتی ہے کہ جو ان کی زبان پر ہے اس کے لیے وہ زبان کھولیں، جو ان کے خیالات، احساسات، جذبات کو عام کرتی ہے اور دوسروں کے کانوں میں رس اور مٹھاس گھولتی ہے، اسے طاقت پہنچائی جائے ار دو کو دودھ پینے والے مجنوں سے واسطہ رہا ہے ، اب اسے خون دینے والے مجنوں کی بھی ضرورت ہے۔ آپ حضرات اردو والے ہیں ، اردو کے لیے جو ادارے اور شخصیتیں کام کرتی رہی ہیں ، انھیں بھی یہاں جمع کرنے کی کوشش کی گئی ۔ پورے بہار میں صدا لگادی گئی ، تا کہ اردو کا نیا کارواں تیار ہو سکے، نئے جوش اور نئے ارادے کے ساتھ ۔ امارت شرعیہ نے محسوس کیا کہ اردو کے محاذ پر سناٹا مہیب ہوتا جارہا ہے, جوابدہ ادارہ کی حیثیت سے اس کے نمائندہ بہار کے اضلاع میں پہنچے، عوام وخواص کو جھنجھوڑا ،انہیں ذمہ داری یاد دلائی ،اور پورے بہار میں حرکت پیدا کی ،اب یہ عوامی طاقت آپ کے ساتھ ہے ،اردو والے اس سے کام لیں ،امارت شرعیہ تو فکر والوں اور درد والوں کا کارواں ہے اور
خد ا درد والوں کو آباد رکھے
جو جاگے ہوئے ہیں ،جگائے ہوئے ہیں
یہ تھا اس اجلاس کے صدارتی خطاب کا کچھ حصہ ،جسے مفکر اسلام نے اردو لہجے میں پیش کیا تھا ۔ضرورت ہے کہ "اردو کارواں ” کو تحریک دے کر اردو کی بقاء وتحفظ کی سمت میں ذمہ داران اردو کارواں اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے مفکر اسلام کے ادھورےخواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی راہ میں جمود کو توڑ کر نئی پیش رفت کریں گے اور ایک بار پھر اردو کارواں کو آگے بڑھا کر زبان اردو کو فروغ دینے اور اس کے حلقہ اثر کو اردو سے جوڑنے کے لئے آگے آئیں گے ۔
(جاری )
تحریر: عین الحق امینی قاسمی
معہد عائشہ الصدیقہ بیگوسرا ہے