میں اکثر بازار میں کچھ دکانوں پر پنجروں میں قید رنگ برنگے پرندوں کو دیکھ کر بڑا عجیب محسوس کرتا تھا۔ ان کے رنگ میں ایک گہری کشش تھی جو مجھے ہمیشہ اپنی جانب کھینچتی تھی اور میرا دل ان پرندوں کو خرید کر گھر لے جانے کی سوچتا تھا۔ لیکن پھر کچھ سوچ کر دل سے یہ خیال نکال دیتا تھا کہ پنجرے میں قید ان پرندوں کو گھر لے جانا ٹھیک نہیں ہے۔
ایک دن میں اپنی ننھی سی بیٹی کے ہمراہ بازار گیا۔ اچانک میری بیٹی کی نگاہ ان رنگ برنگے پرندوں پر پڑی۔ وہ دیکھتے ہی اچھلنے لگی۔ "با با! با با! مجھے یہ چاہیے! ان کو گھر لے کر چلتے ہیں۔”
میں نے ننھی سی گڑیا کو سمجھانے کی کافی کوشش کی لیکن وہ اپنی ضد پر اڑی رہی اور میں نے اس کی ضد کے سامنے اپنی ہار تسلیم کی۔ میں نے دکاندار سےچار رنگ برنگے پرندے پنجرے سمیت خرید لیے۔ چھوٹے سے پرندے پنجرے میں خوبصورت لگ رہے تھے۔ سبز ،سفید ،ہرا اور نیلا۔۔۔۔۔
چاروں پرندے بڑے گم سم تھے۔ شاید انہیں درجنوں پنجروں میں قید بیسیوں اپنے ساتھیوں سے جدا ہونے کا غم ستا رہا تھا! کیا پتا بہت سارے قیدیوں کو ایک ہی جگہ رہنا تھوڑی تسلی دیتا ہو۔ ہم نے ان کی خاطر داری میں کوئی کمی باقی نہ چھوڑی۔ ہم بھی ان کے ساتھ کھیلنے لگے اور ان کے ساتھ اپنی دوستی کا آغاز کیا۔ دھیرے دھیرے ان کے تیوروں میں بدلاؤ صاف نظر آ رہا تھا۔ وہ پنجرے میں زور زور سے اپنی دلکش آوازوں سے ہمارا دل بہلانے لگے۔
ہم ان کو آزاد تو نہیں کرسکتے تھے لیکن ہم رات کو ایک بند کمرے میں ان کو کچھ دیر کے لیے کھلا چھوڑ دیتے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کی شاید یہ اڑنا نہیں جانتے کیونکہ وہ تھوڑی سی اڑان بھر کر تھک ہار کر واپس اپنے پنجرے کے پاس آجاتے تھے۔پنجرے کی گھٹن اور بندش نے انہیں جیسے ادھ مرا کیا ہو۔ آزادی کا تصور کسی کے وجود میں راسخ کرانا بڑا جان جوکھوں کا کام ہوتا ہے۔ ہم نے یہ عمل مگر مسلسل جاری رکھا۔
ایک دن ہم گھر کے باغیچے میں چائے پی رہے تھے اور ساتھ ہی ان پرندوں کے ساتھ محظوظ ہو رہے تھے۔ میں نے پنجرے سے سبز رنگ والے پرندے کو جوں ہی ہاتھ میں لیا، وہ گولی کی رفتار کے ساتھ میرے ہاتھوں سے نکل بھاگا اور فضا میں اونچی اڑان بھرنے لگا اور تھوڑی ہی دیر بعد واپس پلٹ کرایک پیڑ کی ٹہنی پر بیٹھ گیا۔ اپنے ساتھیوں کی قید اور اپنی آزادی کا اندازہ بھلا اس آزاد پرندے سے زیادہ کون کر سکتا تھا۔ میری بیٹی کی معصوم سوچ پرندے کی آزادی کا تصور کیسے کرسکتی تھی۔ وہ مغموم کبھی اپنے پنجرے کی طرف دیکھ رہی تھی اور کبھی درخت کی شاخ پر بیٹھے آزاد پرندے کو۔
میں حیران تھا ! کل تک جو پرندہ ایک بند کمرے میں اڑان نہیں بھر پاتا تھا، وہ آج کیسے کھلے آسمان میں خوشی سے جھوم رہا ہے؟ ہمیں لگا کہ شاید اپنے تین دوستوں کے پاس شام تک واپس لوٹ کر آئے گا، لیکن ایسا بالکل بھی نہیں ہوا۔ وہ اب آزاد تھا! آزادی ملتے ہی وہ اپنے دوستوں کو بھول گیا تھا۔ نہ کھانے پینے اور نہ رہنے کی اس کو کوئی فکر تھی۔
میری بیٹی وقفے وقفے سے رو رہی تھی ۔ کبھی کہہ رہی تھی کہ بابا تم بہت گندے ہو۔ اب یہ پرندہ کیا کھائے گا؟ کہاں رہے گا؟اگر اس کو چیل کھا گئی تو۔ اگر یہ مر گیا تو۔۔۔؟؟ آپ نے اس کو کیوں جانے دیا۔۔۔۔؟؟ میں نے اپنی بیٹی کو سمجھانے کی کوشش کی کہ آج اس پرندے کی آزادی کا دن تھا۔ میری ننھی سی گڑیا کو پرندے کی جدائی پر کافی افسوس تھا۔ میری بیٹی کے لئے اس پرندے کی حیثیت فقط ایک کھلونے کی تھی, جس سے اس کا دل بہل جاتا تھا اور کھلونے کے کھو جانے کا غم ایک بچے سے زیادہ کون سمجھ سکتا ہے!
ہم نے اس پرندے کی واپسی کا کچھ دن انتظار کیا۔ اس کے دوستوں پر بھی اس کی جدائی کا غم صاف صاف عیاں تھا۔ وہ اداسی کے عالم میں اپنے ساتھی کی واپسی کے منتظر تھے۔
میری بیگم اور بیٹی نے مجھے خوب ڈانٹا۔ آخر کیوں میرے ہی ہاتھوں اس پرندے کی آزادی نصیب تھی؟ میں ان کی نظر میں ایک مجرم تھا!
میرا دل مگر مطمئن تھا۔ مجھے اس بات کا پورا احساس تھا کہ آزادی کے سامنے سب کچھ بے مطلب ہے۔ اسیری میں زندگی بسر کرنا اس پرندے کی مجبوری تھی۔ اس نے پنجرے میں مہیا تمام سہولیات کو ٹھکرا کر ایک آزاد اور خود مختار زندگی جینے کا فیصلہ کیا تھا۔ میں اپنی بیٹی کے دل و دماغ میں یہ بات راسخ کرانے کی کوشش میں تھا کہ ایک قید اور جبر کی زندگی کے مقابلے میں ایک آزاد اور مطمئن زندگی کتنی خوبصورت اور شاندار ہوتی ہے۔ وہ دھیرے دھیرے اس بات کو سمجھ رہی تھی۔
پنجرے میں قید پرندے اپنے ساتھی کی جدائی سے غمگین نظر آرہے تھے۔ مجھے بڑا دکھ ہو رہا تھا۔ میری بیٹی بھی پہروں پنجرے کے سامنے پرندوں کو تکتی رہتی تھی۔ اور بڑی مغموم اور اداس رہتی تھی۔ وہ اپنی عمر سے زیادہ کسی غور و فکر میں تھی۔ میری پریشانی بھی بڑھ رہی تھی۔
کچھ دن بعد گھر واپسی پر میں نے جب آنگن کا گیٹ کھولا تو میری بیٹی ایک عظمتوں والی مسکراہٹ کے ساتھ میرے سامنے کھڑی تھی۔ اور مجھے آتا دیکھ کر دوڑ لگائی اور گلے لگایا۔ میں نے کئی ہفتوں بعد اپنی بیٹی کو اتنا خوش دیکھا تھا۔ میں خوشی اور حیرانگی کے ملے جلے تاثرات سے اپنی بیٹی کو چومنے لگا۔ اور وہ میرے چہرے پر عجیب تاثرات کو بھانپ گئی اور مسلسل مسکرائے جا رہی تھی۔ وہ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے گلاس روم میں لے گئی اور خالی پنجرے کی طرف اشارہ کرکے مخاطب ہوئی۔
” میں نے سارے دوستوں کو آزاد کر دیا بابا۔۔۔۔کسی کو پنجرے میں بند کرنا اچھا نہیں ہے بابا۔۔۔”
افسانہ نگار: فاضل شفیع فاصل
اکنگام انت ناگ (کشمیر)_ انڈیا
رابطہ: 9971444589