غم انسان کا ایک فطری احساس ہے اور بنیادی عواطف (Feelings) میں سے ہے. یہ انسانی زندگی کا لازمہ اور خاصہ ہے. غم انتہائی طاقتور جذبہ ہے، یہ اچھے بھلے انسان کو ماؤف کر دیتا ہے، ذہنی طور پر مردہ بنا دیتا ہے اور زندگی کو جہنم میں تبدیل کر دیتا ہے. غم کا علاج کئی طرح ہوتا ہے. باقاعدہ معالجہ اور ادویات کے ذریعہ بھی اور کاؤنسلنگ جیسے طریقوں سے بھی. ہیومن سائیکولاجی کے ماہرین کے مطابق انسان جب دوسروں کے ساتھ اپنا غم، تکلیف، پریشانی شییر کرتا ہے تو صرف اس باہمی گفت و شنید، انٹریکش سے ہی ان چیزوں میں کمی آ جاتی ہے، غم کی شدت کم ہوتی اور تکلیف کا مداوا ہوتا ہے. ترقی یافتہ ممالک میں فیملی سسٹم تو بڑی حد تک ناکام و برباد ہو چکا ہے، اپنے قریب والوں میں شرکاءِ غم تلاش کرنا ناممکن سا ہے لیکن وہاں اس پریشانی سے نمٹنے کے لیے عرصۂ دراز سے ماہرین کی زیر نگرانی ایسے گروپس (Grief sharing groups) قائم ہیں جہاں لوگ فری ممبر شپ حاصل کرتے اور ہفتہ واری میٹنگز میں شریک ہو کر اپنے تلخ تجربات، حادثات اور زندگی کے تاریک پہلوؤں کو شییر کرتے ہیں. گروپ ممبرز میں سے ہر ایک ملتے جلتے غم اور تکلیف سے گزر رہا ہوتا ہے اس لیے وہ ایک دوسرے کی بات غور سے سنتے، ہمت دلاتے اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں. ان گروپس میں شراب، ڈرگس سے لڑ رہے، ذہنی پریشانیوں سے گزر رہے، شادی یا طلاق کے بعد کی پیچیدگیاں جھیل رہے، ریپ، جسمانی تشدد کی ہولناکی اور اثرات سے اُبر رہے لوگ شامل ہوتے ہیں. ہمارے دیار میں اس قبیل کا کوئی سینٹر، کوئی ایکٹیوٹی سرے سے پائی ہی نہیں جاتی. تقریباً ہر شخص خود سے مخصوص جہنم میں گھٹ گھٹ کر جی رہا ہے. ہمارے یہاں فیملی بھی ہے، خاندان بھی، یہاں ہر انسان کے ارد گرد لوگوں کا ہجوم نظر آتا ہے، لیکن ہر ایک دوسرے کے غم سے بے فکر، اس کے تکلیف سے ناآشنا اور اس کی غم خواری سے مکمل غافل ہے. اولاد و والدین میں اتنا حجاب یا اتنی اجنبیت اور دوری ہے کہ ایک دوسرے کے لیے وقت ہی نہیں ہے. دوست ہیں تو صرف تفریح کے لیے، وقت گزاری کے لیے! ہر فرد کو یہ شکایت ہے کہ اس کا کوئی غم خوار و غم گسار نہیں، کوئی پرسشِ احوال کرنے والا نہیں، لیکن وہ خود بھی اسی مجرمانہ غفلت میں مبتلا ہے. اسی کی طرح اس کے رشتہ دار، دوست و احباب بھی کسی غم گسار کے لیے ترس رہے، کسی ایسے شخص کے لیے تڑپ رہے ہیں جو صرف پوری دیانت داری اور اخلاص کے ساتھ ان کی بات سن لے!
ہمارے یہاں ایک دشواری یہ بھی ہے کہ ہم میں نہ بات کہنے کا ادب ہے، نہ بات سننے کا سلیقہ. عدمِ برداشت کی بیماری عام ہے. کہنے میں بھی زیادتی ہوتی ہے، جس سے بات بگڑتی ہے اور سننے میں بھی برداشت کا مظاہرہ نہیں ہوتا، جس سے چھوٹی سی بات بڑا مسئلہ بن جاتی ہے. یہ نفسیاتی کجی بھی بکثرت ہے کہ دوسروں کو تکلیف میں دیکھ کر لوگ خوش ہوتے بالخصوص اپنوں کی تکلیف اور مجبوری سے خوب لطف اندوز ہوتے ہیں. رشتے دار غم کی شدت کم کرنے میں کیا تعاون کرتے، اکثر ایک دوسرے کے غم، اذیت کا وہی سبب ہوتے ہیں. حق تلفی، طعنہ زنی، الزام تراشی، غیبت اور دیگر ایذا رسانیاں فخریہ کرتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ مجموعی طور پر ہمارا معاشرہ عقوبت خانہ اور عذاب گھر بن چکا ہے.
ہمارا مقصد دیگر ممالک یا سماج سے مقابلہ و موازنہ نہیں، بلکہ اپنے احوال کا جائزہ و احتساب پیشِ نظر ہے. ہمارا دین، اخلاق، تہذیب کسی کو تکلیف پہنچانے کو قطعاً ناجائز قرار دیتے ہیں، ہر قسم کی قولی، عملی اذیت رسانی کو بالکلیہ ممنوع شمار کرتے ہیں. وہ تو ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ ہماری ذمہ داری اس درجہ ہے کہ ہم سے متعلق کسی بھی شخص کو اپنا مسئلہ، اپنی تکلیف ہم سے بیان کرنے کی شرمندگی سے بھی گزرنا نہ پڑے، ہمیں ایک دوسرے کے احوال کی پوری خبر ہونی چاہیے. کس کی کیا ضرورت ہے؟ کتنی ضرورت ہے؟ کیا غم ہے؟ اس کا ادراک ہونا چاہیے. پھر اپنی حیثیت کے مطابق اس ضرورت کی تکمیل اور غم کے ازالہ کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ وہ ضرورت تکلیف میں اور غم اذیت میں نہ ڈھل جائے! جو بھی معاملہ ہو کسی ضرورت مند کو تنہا نہ چھوڑنا چاہیے کہ تنہائی ایک مستقل عذاب اور مایوسی کا بیج ہے! احوال و قرائن میں غور کرنے اور دلچسپی رکھنے سے متعلقین کی صورت حال کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے.
اس حقیقت کے بیان کے ساتھ یہ بات سمجھنا بھی ضروری ہے کہ اس جہان میں بِن کہے کچھ نہیں ہو پاتا. اگر کسی کو کوئی غم لاحق ہے تو اس کا اظہار اس کی اپنی ذمہ داری ہے. دوسرا فرد اگر آپ کے کہے بغیر آپ کا مسئلہ سمجھ لیتا ہے تو یہ اس کا کمال ہے، اور باکمال لوگ دنیا میں نادر ہیں. دوسرے کے دل اور ذہن میں کیا چل رہا ہے اسے ہر ایک نہیں سمجھ سکتا. اگر آپ کو کسی سے کوئی تکلیف پہنچ رہی ہے، کوئی ضرورت سامنے کھڑی ہے تو اس کا اظہار کیجیے. اگر آپ خاموش رہتے ہیں تو یہ آپ کی چوائس اور اختیار ہے. اس خاموشی سے جو نتائج برآمد ہوں گے گویا آپ اس کے لیے تیار ہیں، بعد میں دوسروں کو موردِ الزام ٹھہرانا غلط ہوگا. وقت پر بات کہہ دی جائے تو اسی وقت حل ہو جاتی ہے ورنہ ناسور بن جاتی ہے. اگر آپ میں بر وقت جرأتِ اظہار نہیں تو دوسرا بھی عالم الغیب نہیں. غور کیجیے؛ آپ نے کہا نہیں، دوسرا سمجھا نہیں اور آپ سے بھی کہا نہیں گیا، آپ کی جانب سے بھی سمجھا نہیں گیا!! خاموشی، بے زاری کا ایک طویل سلسلہ قائم ہے.
غفلت اور بے توجہی کے اس تسلسل کو توڑنے کی ضرورت ہے. نرمی اور اعتدال کے ساتھ اپنی بات کہنے کی اور دوسرے کی بات سننے کی عادت ڈالیے. ہر شخص خود کو بڑائی، اجنبیت کے حصار سے باہر نکالے تاکہ ہر ایک اپنی بات بے تکلفی سے کہہ سکے. ہو سکتا ہے کہ ہمارے پاس کسی کو دینے کے لیے مال و دولت نہ ہو تو بھی ہم اپنا وقت تو بآسانی دے سکتے ہیں. کوئی بولے تو تحمل اور اطمینان سے سن سکتے ہیں. یہ سننا ہی بہت سے غموں کا درماں اور بہت سی اذیتوں سے نجات کی تدبیر ہے.
ہائے جون کیا بات کہہ گیا ہے:
ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی، بات نہیں سنی گئی
ازقلم: عبید انور شاہ