ہمارا جسم ہماری جان ہمارے پاس اللہ کی امانت ہے، ہم اس کو استعمال کر سکتے ہیں، لیکن کوئی ایسا تصرف ہم نہیں کر سکتے جس سے ہمارے جسم وجان کو خطرہ لاحق ہو، اللہ رب العزت کا واضح ارشاد ہے ۔ ’’وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلٰی التَّھْلُکَۃ‘‘(سورۃ البقرۃ) اپنے ہاتھوں کو ہلاکت میں مت ڈالو، اسی وجہ سے اپنے کو ہلاک کرنا حرام اورنا جائز ہے، شریعت مطہرہ میں خود کشی کی کوئی گنجائش نہیں ہے، یقینا موت وقت پر ہی آتی ہے، اور جس حالت میں جانا ہے، اسی حالت میں آئے گی، لیکن ہمیں نہ وقت کا علم دیا گیا اور نہ ہی موت کس حال میں آئے گی، اس کا پتہ ہے، اسلام مسلمانوں سے صرف اس کا مطالبہ کرتا ہے کہ موت کو قریب لانے میں اس کے کسی عمل کا دخل نہ ہو، جو کام ملک الموت کے ذمہ ہے، بندہ اسے اپنے ہاتھ میں نہ لے۔ قرآن کریم (سورۃ نساء30,29۰) میں ہے:’’اپنے آپ کو قتل مت کرو، بے شک اللہ تم پر بڑا مہربان ہے، جو شخص تعدی اور ظلم کی وجہ سے ایسا کرے گا، تو ہم اس کو آگ میں ڈالیں گے، اللہ کے لیے یہ کام آسان ہے۔‘‘
تمام مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں جو مختلف شکلیں ذکر کی ہیں، ان میں ایک خود کشی بھی ہے، انسان سخت ڈپریشن اور مایوسی میں ہی خود کشی جیسا انتہائی قدم اٹھاتا ہے، اللہ فرماتے ہیں۔ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَحْمَۃِ اللّٰہ۔ اللہ کی رحمت سے مایوس مت ہو، ایک جگہ فرمایا کہ اللہ کی رحمت سے مایوس تو صرف کافر ہوا کرتے ہیں۔
ان آیات میں جو بات کہی گئی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ آدمی کو مصائب ، نا گفتہ بہ حالات ، خانگی جھگڑے ، خوف وڈر، امتحانات میں ناکامی ، کسی بھی حالت میں اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہے، بلکہ اللہ پر توکل کرکے اسے پُر امید ہونا چاہیے کہ حالات یقینا بدلیں گے، اللہ پر یہ یقین بندوں کو مایوسی سے نکالتا ہے اور اس کے اندر قنوطیت کے بجائے رجائیت پیدا ہوتی ہے، جو شریعت کو مطلوب ہے، کہا جاتا ہے کہ ایمان خوف ورجا کے درمیان ہونا چاہیے، خوف کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ اللہ کے ڈر سے اپنی زندگی کے سلسلے میں انتہائی قدم نہ اٹھائے اور رجائیت کا تقاضہ ہے کہ وہ اللہ کی ذات سے پُر امید رہے کہ حالات بدلیں گے اور ستر ماؤں سے زیادہ مہربان اللہ رب العزت جو بندوں کے تمام احوال سے واقف ہے رحم وکرم کا معاملہ کرے گا اور سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا، یہ بھی یقین رہے کہ راضی برضاء الٰہی ہونا ایمان والوں کے مطلوبہ صفات میں سے ایک ہے، اللہ اپنے بندوں پر نہ تو ظلم کرتا ہے اور نہ ہی اسے بے سہارا چھوڑتا ہے، جو کچھ کرتا ہے اس میں اللہ کی حکمت ومصلحت ہوتی ہے، یہ الگ بات ہے کہ بندہ کے محدود عقل کی رسائی وہاں تک نہیں ہو پاتی، اس لیے ہمارے ذہن میں یہ بات رہنی چاہیے کہ اللہ جو کرتا ہے ، اچھا کرتا ہے، جو کرے گا اچھا ہی کرے گا۔
اسلام کی ان واضح تعلیمات اور ایمانیات کے تقاضوں کے باوجود بندہ اگر خود کشی کر لیتا ہے و وہ جنت سے محروم ہو جائے گا اور ہمیشہ ہمیش دوزخ میں رہے گا، کیوں کہ اس نے قرآنی احکام اور ہدایات رسول کے خلاف کیا ، حضرت جندب بن عبد اللہ ؓ سے منقول ہے کہ ایک آدمی زخمی ہوا، اس نے چاقو لے کر اپنے ہاتھ کوکاٹ ڈالا، خون کے اخراج کی وجہ سے اس کی موت واقع ہو گئی ، اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا کہ میرے بندے نے اپنے کو ہلاک کر نے میں جلدی کی، اس لیے میں نے اس پر جنت حرام کر دی۔ (متفق علیہ)
حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص زخمی ہوا، اس نے بلیڈ لے کر خود کو ذبح کر لیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر نا راض ہوئے کہ اس کے جنازہ کی نماز نہیں پڑھی۔ (رواہ ابن حبان فی صحیحہ) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جس نے جس طرح خود کشی کی ہوگی اس کو اسی طرح کا عذاب دیا جائے گا ۔ (متفق علیہ) اس کی تفصیل حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت میں ہے انہوں نے کہا : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے کسی دھار دار آلہ سے خود کشی کی ، وہ دھار دار سامان اس کے ہاتھ میں ہوگا ، یعنی جس ہتھیار سے خود کشی کرے گا، اسی ہتھیار سے جہنم میں اپنے پیٹ کو پھاڑتا رہے گا، جس نے زہر پی کر خود کشی کی ہوگی وہ جہنم میں زہر پی پی کر اس کرب کو جھیلتا رہے گا، جس نے پہاڑ سے گر کر خود کشی کی ہوگی، وہ جہنم میں ہمیشہ ہمیش اسی طرح گرتا رہے گا۔ (رواہ مسلم) حضرت سہل بن سعد ؓ کی روایت ہے کہ ایک جنگ میں ایک شخص سخت زخمی ہو گیا، درد والم کی وجہ سے وہ جلدی موت کی تمنا کرنے لگا، اور پھر اپنے سینے میں تلوار بھونک کر اپنی جان لے لی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی اطلاع ملی تو فرمایا : ’’ھو من اھل النار‘‘ وہ جہنمی ہے۔
اتنی سخت وعیدوں کے باوجودکیا مسلم کیا غیر مسلم ہندوستان میں خود کشی کا رجحان تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے، نیشنل کرائم بیورو کی جانب سے جاری اعداد وشمار کے مطابق یہ رجحان طالب علموں میں زیادہ بڑھ رہا ہے، طلبہ کی خود کشی ہندوستان میں تیزی سے پھیلی ہوئی وبائی بیماری ، کے عنوان سے ایک رپورٹ آئی سی ۳ انسٹی چیوٹ اور ایکسپو 2024جاری کی ہے، اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خود کشی کے واقعات میں سالانہ دو فی صد کا اضافہ ہوا ہے، مگر طلبہ میں خود کشی کے واقعات سالانہ چار فی صدبڑھے ہیں، جو قومی سطح پر عمومی خود کشی کے واقعات کی بہ نسبت دو گنا ہے۔ طلاب علم کی بہ نسبت طالبات میں یہ شرح مسلسل بڑھ رہی ہے ۔ 2021-22میں طلبہ کی خود کشی لڑکیوں کے مقابلے سات فی صد کم تھی ، یعنی طالبات کی خود کشی کی شرح لڑکوں کے مقابلے سات گنا زیادہ رہی ، چونکانے والے اعداد وشمار کے مطابق 2022میں پورے ہندوستان میں 13044طلبہ وطالبات نے خود کشی کی ، دس سال پہلے یہ تعداد 6654تھی، اس کا مطلب ہے کہ گذشتہ دس سال میں یہ تعداد بڑھ کر دو گنی ہو گئی ہے، مجموعی طور پر 2021میں 164033افراد نے خود کشی کی، 2022میں یہ تعداد بڑھ کر 170924ہو گئی، جن میں 7.6%فی صد طلبہ تھے، آئی سی-3انسٹی چیوٹ کی رپورٹ کے مطابق مہاراشٹرا، تامل ناڈو اور مدھیہ پردیش میں طلبہ کی خود کشی کی شرح زیادہ ہے، جنوبی اور مرکز کے زیر انتظام ریاستوں میں 29%فی صد طلبہ نے خود کشی کی، تنہا راجستھان کا کوٹہ شہر جہاں بڑی تعداد میں مقابلاتی امتحان کے لیے کوچنگ سنٹر کام کر رہے ہیں، وہ پورے ہندوستان میں خود کشی کے معاملے میں دوسرے نمبر پر ہے۔
با خبر ذرائع اور تجزیاتی مطالعہ کرنے والوں کے مطابق، ذہنی تناؤ ، نمبروں کے حصول کے سخت اہداف ، ریگنگ ، غنڈہ گردی،ا متیازی سلوک ، معاشی کمزوری، والدین اور گارجین حضرت کے غیر ضروری توقعات ، طلبہ وطالبات کو سخت ڈپریشن اور تناؤ میں رکھتے ہیں، جب وہ اس مایوسی اور تناؤ کو جھیل نہیں پاتے، انہیں محسوس ہوتا ہے کہ نتیجہ امتحان نے ہمیں ساتھیوں میں رسوا کیا ہے اور ہم گارجین کو منہہ دکھانے کے لائق نہیں رہے تو ان کا قدم خود کشی کی طرف بڑھتا ہے اور اندوہناک المناک، افسوس ناک واقعات وقوع پذیر ہوتے ہیں اور ہم ان کی جان بچانے کے لیے کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔
طلبہ وطالبات کے بعد خود کشی کی شرح کسانوں میں زیادہ ہے،جب ان کے کھیت موسمی حالات کی وجہ سے غلہ اگانے میں ناکام ہوجاتے ہیں، یا غلہ اُگانے کے باوجود سرکار کی جانب سے مناسب قیمت نہیں ملتی اور وہ کھاد، سینچائی، بیج اوردیگر ضروریات کی وجہ سے قرض کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں تو ان کا کرب بڑھ جاتا ہے اور وہ اس سے نکلنے بلکہ آگے فصل لگانے کے بھی لائق نہیں رہتے تو خود کشی کر لیتے ہیں تاکہ روز روز کی ذلت سے چھٹکارا پالیں ، یہ بھی مایوسی کی وجہ سے ہوتا ہے، اگر ان کی پیداوار کے دام مناسب ملنے لگیں اور ان کے قرض معاف کر دیے جائیں تو ان کی خود کشی کی شرح میں غیر معمولی کمی آسکتی ہے۔
خود کشی کرنے والوں میں عاشق زار کی بھی ایک تعداد ہوتی ہے، جو معشوقہ کی بے وفائی، محبت میں ناکامی ، شیریں، فرہاد، ہیررانجھا اور لیلیٰ مجنوں کے واقعات دہرانے کے چکر میں آخری حد کو پار کرجاتے ہیں، یہاں بھی مایوسی اور محرومی ہی خود کشی کی وجہ ہوا کرتی ہے، ان کے بارے میں تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ ان کو غیر شرعی کام کی سزا اس دنیا میں ہی مل جاتی ہے اور ان کی زندگی کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔
خود کشی کے ان بڑھتے واقعات پر قابو پانے کا صرف ایک طریقہ ہے کہ انسانوں کو مایوسی کے دلدل سے نکالا جائے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ، اللہ سے پُر امید رہا جائے اور کسی حال میں مایوس نہ ہوا جائے۔وہ لوگ جو ڈپریشن او ر مایوسی کے شکار ہیں، ان کے اسباب وعلل کی تلاش کرکے اسے دور کیا جائے، اور کسی حال میں انہیں تنہا نہ چھوڑا جائے، گارجین اور متعلقہ حضرات کی طرف سے بھی مسلسل حوصلہ افزائی کے کلمات کہے جائیں، اور انہیں بتایا جائے کہ ناکامی کامیابی کا پہلا زینہ ہے، محمود غزنوی نے سولہویں بار میں ہندوستان فتح کیا تھا، اور یہ کہ
گرتے ہیں شہہ سوار ہی میدان جنگ میں
وہ طفل کیا گرے جو گھٹنوں کے بل چلے
تحریر: محمد ثناء الہدیٰ قاسمی، نائب ناظم اما رت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ