رابطہ عالم اسلامی کے جنرل سکریٹری محمد بن عبد الکریم العیسی کی ہندوستان آمد پر مولانا ارشد مدنی اور مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے بعض یا چند اخبارات میں ایک مختصر سا استقبالیہ پیش کر دیا ، تو سمیع اللہ خان کو افسوس ہونے لگا تھا ، اور کہا تھا کہ "مسلمانان ہند کے نام سے عبد الکریم العیسی کے لیے جو یہ استقبالیہ جاری ہوا ہے اس سے مسلمانان ہند بری ہیں”۔
یاد رہے کہ یہ سمیع اللہ خان وہی شخص ہے جو جمعیت اور قائدین جمعیت پر آئے دن لغو اور بے ہودہ قسم کے تبصرے اور تجزیے لکھتا رہتا ہے۔ ان کی پگڑیاں اچھالتا اور ان کے بیانات و خطابات میں زبر دستی کیڑے نکالنے کی کوشش کرتا ہے۔ ان کی باتوں کا بتنگڑ بناتا ہے۔ ان کی رائی کا پہاڑ بنا کر پیش کرتا ہے۔
یہی سمیع اللہ خان اب خاموش ہے۔ جو سمیع اللہ العیسی کی ملک آمد پر مدنی و رحمانی صاحبان کے ایک مختصر سے استقبالیے پر افسوس کر رہا تھا ، اور اس کی مخالفت کرتے ہوئے مسلمانان ہند کو اس سے بری بتا رہا تھا ، آج وہی سمیع اللہ خان کہاں غائب ہے ؟ مدنی و رحمانی صاحبان سے العیسی کی ملاقات کا تو ہمیں علم نہیں ؛ لیکن ملک و ملت جانتا ہے کہ العیسی جامع مسجد دہلی کے امام سید احمد بخاری سے جمعے کو ملنے ان کے پاس گئے تھے ، اور بخاری موصوف نے نہ صرف یہ کہ العیسی سے ملنے سے انکار نہیں کیا ؛ بلکہ جوش و خروش سے ملے۔ ان کا تپاک سے استقبال کیا۔ یہی نہیں ، اس سے بڑھ کر یہ کہ امام موصوف العیسی کو جامع مسجد لے کر آئے ، اور مسجد مذکور کے محراب میں کھڑے ہو کر مسلمانان ہند کی طرف سے سیکڑوں ہزاروں مسلمانوں کی موجودگی میں العیسی کو استقبالیہ پیش کیا۔ اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ امام بخاری نے جمعے کے خطبے اور نماز کے لیے جامع مسجد کے ممبر و محراب تک العیسی کے حوالے کر دیے!
یہاں سمیع اللہ خان کو سامنے نہ آنا چاہیے ؟ اور امام بخاری کے خلاف کوئی مضمون نہ لکھنا چاہیے کہ جناب! آپ نے مسلمانان ہند کی طرف سے العیسی کو استقبالیہ کیوں پیش کیا ؟ آپ نے مسلمانان ہند کے عظیم دینی و مذہبی ورثے ، قدیم ، تاریخی ، مرکزی اور ان کی محبوب ترین مسجد "جامع مسجد دہلی” کے مقدس و معظم ممبر و محراب کیوں ایک ایسے شخص کے حوالے کر دیے جو "علماء حق کو جیلوں میں ڈال کر اذیتیں پہنچانے والوں کا دربان ہے ، جو مشائخ اسلام پر کوڑے برسانے والوں کا معاون ہے ، جو قرآن و سنت میں اعتدال کے نام پر تحریف کا داعی اور مغرب کے غیر سیاسی ماڈرن اسلام کا نقیب ہے ، جو مقدسات اسلام کے گستاخوں کا حامی ہے ، جو دنیا بھر کے اسلام پسند جہد کاروں کا دشمن ہے ، جو اسلام پسندی کی جد و جہد کرنے والوں کو انتہا پسند ثابت کرکے ان کے خلاف کریک ڈاؤن کا علم بردار ہے ، جو خائنوں کی فہرست میں آگے آگے ہے ، جس کو مجموعی طور پر عالم اسلام کے اہل حق بڑا فتنہ تصور کرتے اور جسے انتہائی نا پسند کرتے ہیں ، جو ہندوستان میں کسی فتنے کی غرض سے آیا ہوا ہے ، جو ظالموں اور استعماری طاقتوں کا نقیب ہے ، اور جو یہودیوں کا پسندیدہ شخص ہے” ؟
اتنے بڑے مجرم ، ظالم ، خائن ، فتنے ، اسلام دشمن ، مسلم بد خواہ اور ایسے بد ترین شخص کو آپ نے جامع مسجد دہلی کے ممبر و محراب نماز و خطبے کے لیے کیوں سونپ دیے ؟
یہ سوال خان موصوف کو امام بخاری سے کرنا چاہیے تھا نا ؟ مگر نہیں کیا۔ بالکل خاموشی طاری ہے۔ جیسے اب زبان قلم بالکل گنگ ہوگئی ہو۔
ایک طرف یہ عالم کہ مدنی صاحبان کے بیانات و خطابات میں زبر دستی کیڑے نکالے جاتے ہیں۔ ان کی باتوں کا بتنگڑ بنایا جاتا ہے ، ان کی درست باتوں کو بھی غلط مفہوم دینے کی کوشش کی جاتی ہے ، ان کی ہلکی لغزش و لرزش پر بھی واویلا مچایا جاتا اور آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا ہے ، اور دوسری طرف یہ رویہ کہ العیسی جیسے عالم اسلام کے مجرم ترین شخص کو سیکڑوں ہزاروں مسلمانوں کی موجودگی میں استقبالیہ پیش کرنے والے ، ان کے قدمہائے منحوس سے مسلمانان ہند کے قلب و مرکز "جامع مسجد دہلی” کو پامال کرانے والے اور اس کے ممبر و محراب تک ان کے حوالے کر دینے والے بخاری کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں لکھا جا رہا ہے۔ بالکل مہر سکوت طاری کر لی گئی۔ بالکل زبان قلم پر تالا ڈال لیا گیا۔
اگر مدنی و رحمانی صاحبان کا اخبارات میں ایک مختصر سا استقبالیہ شائع کرا دینا خان موصوف کے لیے افسوس ناک بات تھی ، تو امام بخاری کا اتنا کچھ کرنا اور کرانا کیوں ان کے لیے قابل افسوس نہیں ہوا ؟ یہاں تو ان کا کلیجہ پھٹ جانا چاہیے تھا ، یہاں تو افسوس سے انہیں جاں بہ لب ہو جانا چاہیے تھا ؛ مگر ۔۔۔
دیکھنے اور سوچنے سمجھنے کا یہی انداز ہے جو غلط ہے۔ یہی اس شخص کے رویے بتاتے ہیں کہ یہ شخص اپنے ارادے میں فتور اور نیت میں کھوٹ رکھتا ہے۔ یہ منافق صفت اور دوغلا ہے۔ یہ مکار اور عیار ہے۔ یہ بہروپیا اور مسخرہ ہے۔ یہ تخریب کار اور فسادی ہے!
ازقلم: خالد سیف اللہ صدیقی