تحریر:سلمان کبیرنگری
اسلام نے زندگی کے ہر معاملے میں میانہ روی کو قائم رکھنے کا حکم دیا ہے حد سے زیادہ تجاویز کو ناپسند قرار دیا ہے تو اس اعتبار سے ولیمہ جب سنت ہے دنیاوی رسم نہیں تو اسے کرنا بھی اسلامی طریقہ سے ہی چاہئے لیکن آج کل ولیمہ کی تقریب میں بھی بارات سے زیادہ ہجوم دیکھاء دیتا ہے اپنی شان و شوکت کا اظہار کیا جاتا ہے غرباء کی شرکت کو ناپسند اور اپنے مقام و مرتبہ کے خلاف سمجھا جاتا یے، خواتین کی بے پردگی کا یہ عالم دیکھا جاتا ہے کہ دسمبر اور جنوری کے کڑکتے جاڑے میں بھی ان کے جسم پر بہت ہی باریک اور کم سے کم لباس دیکھنے کو ملتا ہے اور اس پر ساری محفل میں ویڈیو فلم، سلیفی وغیرہ بنا بنا کر پورے سوشل میڈیا پر وایرل کیا جاتا ہے اور پوری محفل میں بے پردگی کا ایک طوفان آیا ہوا ہوتا ہے یہی سنت ہے؟کیا یہی دعوت ولیمہ کی تقریب ہونا چاہئے؟ اور حیرت کی بات یہ اس ریاکاری کے طوفان میں وہ علماء دین بھی بڑھ چڑھ کر شامل ہوتے ہیں اور اظہارِ افسوس، کی ہلکی سی شکن بھی ان کے ماتھے پر دیکھنے کو نہیں ملتی کیا اسی کو سنت نبوی کہتے ہیں؟اسی کا حکم دیا گیا تھا؟کھانے کا اسراف، کتنے اقسام کے کھانے اور ان کی بربادی پوری پوری پلیٹیں بھری ہوئی کوڑے کے ڈبے میں نظر آتی ہیں نہیں یہ سنت نبوی نہیں یہ آپ سنت ادا نہیں کررہے ایک ریاکاری کررہے ہیں جس سے کہ آپ اپنے آپ کو گناہوں کے انبار میں لے کر جارہے ہیں خدارا اب بھی سنبھل جایے توبہ کے دروازے کھلے ہیں ولیمہ کی تقریب جس کو آپ سنت کا نام دیتے ہیں اسے سنت کی طرح ادا کرنے کی کوشش کیجیے اور اپنے رویوں میں تبدیلی لایے اسلامی تعلیمات میں جو ہدایات ملتی ہیں وہ یہ ہیں کہ اسراف، فضول خرچی سے بچا جایے سادہ اور مختصر ولیمہ کی تقریب ہو سارے خاندان اور احباب کو اکٹھا کرنا ضروری نہیں ہے.عہد نبوی میں صحابہ کرام اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی شادی کرتے تھے لیکن دعوتِ ولیمہ وغیرہ میں کسی بہت بڑی محفل کا کوئی ثبوت نہیں ملتاجس لحاظ سے بھی دیکھا جایے ولیمہ میں یہ ریاکاری سنت پر عمل کرنا نہیں بلکہ دنیاوی شان و شوکت کا دیکھانا یے سارے خاندان میں اللہ نے دنیاوی وسائل سے نوازا ہے تو اسے ان ضرورتوں پر خرچ کیا جائے، جن کی معاشرے میں ضرورت ہے اللہ کے دین اور محافظوں پر خرچ کیا جائے. ایسے نمود و نمائش پر نہیں اللہ پاک ہم سب کو اس ریاکاری سے بچائے آمین۔