نئے ہجری سال کا پیغام: ہجری کیلنڈر کو رواج دیجئے

آج ہجری تقویم کے اعتبار سے سال کا آخری دن ہے اور آخری تاریخ ہے ، آج کا سورج جیسے ہی غروب ہوگا، نئے اسلامی ہجری سال کا آغاز ہوجائے گا ۔ اور ہم سب نئے اسلامی سال میں داخل ہو جائیں گے یعنی 1444ھج ختم ہوکر1445ھج کی شروعات ہوجائے گی ۔ ایمان والوں کے لئے ہجری اسلامی سال اور تاریخ کی بڑی اہمیت ہے ۔ واقعہ ہجرت سے اسلامی سال اور تاریخ کی شروعات بہت ہی معنی خیز ہے ۔ اس لئے کہ ہجرت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا وہ مبارک واقعہ ہے، جو نہ صرف مسلمانوں کی ایثار اور جانثاری و فداکاری کا اوج کمال ہے ، بلکہ یہ اسلام کے ظہور و غلبہ کا نقطئہ آغاز بھی ہے ،اسی بنا پر حضرات صحابہ کرام نے اسلامی کلینڈر کے لئے اسی واقعہ کو بنیاد و اساس بنایا اور یہ ہجری کلینڈر ھجری تقویم سے موسوم ہوا ۔ علماء اور حضرات اہل علم لکھتے ہیں،،کہ مسلم معاشرہ میں ھجری تقویم کے رواج کو باقی رکھنا فرض کفایہ کی حیثیت اور درجہ رکھتا ہے اس لئے کہ اس سے متعدد عبادتیں متعلق ہیں ،،۔

مگر افسوس افرنگیوں کی تقلید میں ہم ایسے اندھے ہو گئے ہیں، اور مغربی تہذیب کے سیل رواں میں ایسے بہہ گئے ہیں اور مسلمانون کی مرعوبیت اور اس طوفان کے مقابلے سپر اندازی نے نوبت یہاں تک پہچا دی ہے کہ آج زیادہ تر مسلمان نوجوان بلکہ بوڑھے اور ادھیڑ ھجری مہینوں کے نام سے بھی واقف نہیں اور یہ جاننے والے تو اور کم ہیں کہ اسلامی تقویم کی بنیاد کیا ہے ؟ یہ کیوں کر وجود پذیر ہوئی اور واقعئہ ہجرت ہی سے اس کلینڈر کی ابتداء کرنے میں کیا حکمت اور پیغام ہے ؟
اس بے توجھی بے التفاتی اور نا آگہی کا نتیجہ ہے کہ جتنے کلینڈر جنتریاں اور ڈائریاں چھپتی ہیں وہ سب بھی مسیحی عیسوی تقویم کا لحاظ کرتے ہوئے ۔
ضرورت ہے کہ ہم مسلمان ھجری تاریخ کی اہمیت کو جانیں اور سمجھیں اور بلا ضرورت شدیدہ اس تقویم اور سنہ کو چھوڑ کر دوسرے سنہ کو فوقیت اور ترجیح نہ دیں، الا یہ کہ جہاں ہم مجبور ہیں غیروں کے ماتحت اور پابند ہیں،یا جہاں دفتری نظام شمسی کلنڈر کے مطابق انجام دینا مجبوری ہو۔
ہم کو یہ یاد رکھنا اور سمجھنا چاہیے کہ ھجری تاریخ سے سنہ کی ابتداء اور آغاز کا فیصلہ ۱۷/ ھج میں ہوا۔
جس کی مختصر تاریخ اور روداد یہ ہے کہ اسلامی تاریخ میں ہجری کیلنڈر کی شروعات سب سے پہلے خلیفہ ثانی امیر المومنین سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کی،20/ جمادی الثانی 17/ ھجری بروز جمعرات کو اپنے زمانہ خلافت میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ہجری کلینڈر اختیار کیا،اس سے پہلے ہجری تقویم نہ تو مرتب تھی اور نہ ہی واقعات کا تعین ہجرت کے لحاظ سے کیا جاتا تھا ،بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سال ولادت یا خانہ کعبہ پر ابرھہ کا ہاتھیوں کا لشکر لے کر آنے اور برباد ہونے کے سال سے دنوں اور واقعات کو بیان کیا جاتا تھا ۔لیکن حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جب صحابہ کرام کے مشورہ سے ہجرت نبوی کو اسلامی کلینڈر کا نقطئہ آغاز قرار دیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے اس طرح قبولیت عطا فرمائی جس طرح خود ہجرت مدینہ کو قبول عطا فرمائی تھی ۔۔
اس وقت سے اب تک صحابۂ کرام اور ہمارے اسلاف قمری مہینوں اور سنہ ہجری کا اہتمام کرتے رہے ہیں اور مسلمانون کو بھی اس کے التزام کی تعلیم دیتے رہے ہیں کیونکہ من جملہ شعائر اسلام سے ہے ۔ قمری مہینوں کے نام زبان وحی و نبوت سے ادا ہوئے ہیں اور سنہ ہجری کے بارے میں معلوم ہو کہ ایک مہتم بالشان واقعہ کی یاد گار ہے، جو عام انسانوں کو اور خاص طور پر مسلمانوں کو اس عظیم ہجرت کی یاد دلاتا ہے ،جس نے مذہبی تاریخ کا نقشہ بدل دیا۔

تحریر: محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے