تحریر:محمد تفضل عالم مصباحی پورنوی
اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانوں کو اپنی عبادت و بندگی کے لئے پیدا فرمایا جیساکہ رب العالمین نے قرآن مقدس میں ارشاد فرمایا "
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ” اللہ تعالی نے بندوں کو زیادہ سے زیادہ ثوابوں کو اپنے دامن میں سمیٹنے کے لئے کچھ مہینوں اور راتوں کو ایک دوسرے پر فوقیت بخشی ہے تاکہ بندہ شب بیداری کرکے اور دن میں روزے رکھ کر رب العزت کی بارگاہ میں مقرب بن جائے انہیں مہینوں میں سے ایک مہینہ شعبان اور راتوں میں سے ایک شعبان کی پندرھویں رات ہے ۔ ماہ شعبان اور نصف ماہ شعبان میں درج ذیل اعمال کا ثبوت احادیث کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں ۔
شعبان کے مہینے میں کثرت سے روزے رکھنا:-
شعبان کے مہینے میں کثرت کے ساتھ روزے رکھنا چاہیے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے مہینے میں کثرت سے روزے رکھتے تھے ۔ کثیر احادیث کریمہ اس پر شاہد ہے جس کو ذیل میں بیان کیا جاتا ہے۔
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں عرض کی، یا رسول اللہ! میں آپ کو سب مہینوں سے زیادہ شعبان المعظم کے مہینے میں روزے رکھتے ہوئے دیکھتا ہوں! رحمت عالمیان صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ۔
” ذالك شهر يغفل الناس عنه بين رجب و رمضان، وهو شهر ترفع فيه الأعمال إلي رب العالمين فاحب ان يرفع عملي و انا صائم”
ترجمہ:- یہ رجب اور رمضان کے درمیان وہ مقدس مہینہ ہے، جس سے لوگ غافل ہیں، یہ وہ مہینہ ہے جس میں لوگوں کے اعمال اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں لہذا میں چاہتا ہوں کہ جب میرا عمل رب تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کیا جائے، تو میں حالت روزہ میں ہوں ۔
حوالہ :- سنن النسائي. كتاب الصوم۔ روایت نمبر 2353/ الجز 4/صفحہ 207۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا :
"كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصوم فلا يفطر حتي نقول! ما في نفس رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يفطر العام، ثم يفطر فلا يصوم حتى نقول: ما في نفسه ان يصوم العام، وكان أحب الصوم إليه في شعبان "
ترجمہ:- رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مسلسل روزے رکھتے، یہاں تک کہ ہمیں گمان ہوتا
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس سال روزے نہیں چھوڑیں گے، پھر آپ کبھی روزے چھوڑ دیتے، یہاں تک کہ ہمیں گمان ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس سال روزے نہیں رکھیں گے، نیز حضور کو سب سے زیادہ شعبان کے روزے پسند تھے۔
حوالہ :- مسند امام احمد : مسند انس بن مالک ۔ روایت نمبر 13402′ 4 ،458
حضرت سیدنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں ۔
"كان احب الشهور إلي رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يصومه شعبان، ثم يصله برمضان”
ترجمہ:- رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو تمام مہینوں میں شعبان کے روزے زیادہ پسند تھے، یہاں تک کہ اسے رمضان سے ملا دیا کرتے ۔
حوالہ :- سنن ابی داؤد، کتاب الصیام روایت نمبر 2431 صفحہ353.
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ۔
"شعبان شهري، و رمضان شهر الله، و شعبان المطهر و رمضان المكفر”
ترجمہ:- شعبان میرا اور رمضان اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے، شعبان پاک صاف کرنے والا مہینہ ہے اور رمضان خطاؤں کا کفارہ ہے۔
حوالہ:- مسند الفردوس، حرف الشین المعجمۃ 2’233،234
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں۔
” وما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم استكمل صيام شهر قط الا رمضان و ما رأيته في شهر اكثر منه صياما في شعبان”
ترجمہ:- میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ماہ رمضان کے سوا، کسی اور مہینے میں مکمل روزے رکھتے نہیں دیکھا اور نہ ہی آپ کو کسی اور مہینے میں شعبان سے زیادہ روزے رکھتے دیکھا۔
حوالہ:- صحیح مسلم، باب صیام النبی روایت نمبر 2721 صفحہ 471۔
حضرت عائشہ فرماتی ہیں
"ما رأيت النبي صلى الله عليه وسلم في شهر اكثر صياما منه في شعبان، كان يصومه الا قليلا بل كان يصوم كله”
ترجمہ:- میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ روزے رکھتے نہیں دیکھا ۔ آپ اکثر دنوں کے روزے رکھتے بلکہ پورا مہینہ روزہ رکھا کرتے۔
حوالہ :- سنن الترمذی ۔ ابواب الصوم روایت 736 صفحہ 186۔
حضرت ام سلمی فرماتی ہیں
” ما رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يصوم شهرين متابعين الا شعبان و رمضان”
ترجمہ:- میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو دو مہینوں کے سوا یعنی شعبان و رمضان کے سوا رکھتے نہیں دیکھا۔
حوالہ :- جامع ترمذی کامل ۔ کتاب الصوم صفحہ 132 مجلس برکات مبارک پور.. –
رب العالمین کا آسمان دنیا کی طرف رحمت و برکت کے ساتھ متوجہ ہونا :-
پندرھویں شعبان کی رات اللہ رب العزت آسمان دنیا کی طرف رحمتوں کے ساتھ نزول فرماتا ہے اور اپنے بندو کو پکارتا ہے ہے کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا کہ میں اسے بخش دوں ، کوئی مصیبت سے چھٹکارا چاہنے والا کہ میں اسے عافیت دوں مگر افسوس مسلمان خواب غفلت میں سوے رہتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا آسمان دنیا پر آنا متعدد احادیث سے ثابت ہے ذیل میں ملاحظہ فرمائیں ۔
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا روایت کرتی ہیں۔ کہ میں ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پاکر آپ کی تلاش میں نکلی آپ جنت البقیع میں تھے، آپ کا سر آسمان کی جانب اٹھا ہوا تھا، آپ نے فرمایا، اے عائشہ کیا تمہیں ڈر ہے کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر ظلم کرے گا؟ میں نے عرض کیا، یارسول اللہ مجھے گمان ہوا شاید آپ دوسری ازواج کے پاس تشریف لے گئے ہیں۔ آپ نے فرمایا-
"اللہ تعالی پندرہویں شعبان کی رات آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے”
حوالہ :- جامع ترمذی جلد اول صفحہ 275
ابن ماجہ شریف صفحہ 99۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
” نصف شعبان کی رات میں قیام کرو اور دن میں روزے کیوں کہ اللہ تعالی اسی رات غروب آفتاب تا طلوع فجر آسمانِ دنیا کی طرف متوجہ رہتا ہے اور فرماتا ہے "کوئی ہے مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا کہ میں اسے بخش دوں، کوئی رزق طلب کرے تو اس کو رزق دوں، کوئی مصیبت سے چھٹکارا چاہے تو اس کو عافیت دوں”
حوالہ :- ابن ماجہ شریف صفحہ 99۔
حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے
” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالی شعبان کی پندرھویں شب ظہور فرماتا ہے اور مشرک وچغل خور کے علاوہ سب کی بخشش فرما دیتا ہے "
حوالہ:- سنن ابن ماجہ صفحہ 99۔
اس رات میں انسان کا رزق، عمر، موت لکھا جاتا ہے :-
دنیا میں جتنے بھی انسان پیدا ہونگے یا وفات پائیں گے ان سب کی پیدائش و موت کے بارے میں بہت پہلے ہی عمومی طور پر لوح محفوظ میں لکھ دیا گیا ہے مگر شعبان کی پندرہویں شب میں پھر دوبارہ ان لوگوں کی پیدائش اور موت کا وقت لکھ دیا جاتا ہے جو اس سال پیدا ہونے والے یا مرنے والے ہوتے ہیں۔ اس سال بندے سے جو بھی نیک و صالح اعمال سرزد ہونے والے ہو نگے وہ اس رات میں لکھ دئیے جاتے ہیں جو ہر روز سرزد ہونے کے بعد بارگاہ رب العزت میں اٹھائے جائیں گے۔ اس سال جس بندے کے حصہ میں جتنا رزق آئے گا اس کی تفصیل اس شب میں لکھی جاتی ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں منقول ہے کہ ” اس شب میں موت اور رزق لکھے جاتے ہیں اور اس سال میں حج کرنے والے کا نام بھی اس شب میں لکھا جاتا ہے۔ ذیل میں بطور ثبوت آحادیث کو پیش کیا گیا ہے ملاحظہ فرمائیں
فِیْھَا یَا رَسُوْلَ اﷲِ فَقَالَ فِیْھَا اَنْ یُکْتَبَ کُلُّ مَوْلُوْدِ بَنِی اٰدَمَ فِیْ ھٰذِہِ السّنَۃِ وَ فِیْھَا اَنْ یُکْتَبَ کُلُّ ھَالِکٍ مِنْ بَنِی اٰدَمَ فِیْ ھٰذِہِ السَنَۃِ وَفَیْھَا تُرْفَعُ اَعْمَالُھُمْ وَ فِیْھَا تُنَزِّلُّ اَرْزَاقُھُمْ
ترجمہ:- (1)بنی آدم کا ہر وہ آدمی جو اس سال پیدا ہونے والا ہوتا ہے اس رات کو لکھا جاتا ہے، (2)بنی آدم کا ہر وہ آدمی جو اس سال مرنے والا ہوتا ہے اس رات میں لکھا جاتا ہے (4) اس رات میں بندوں کے اعمال (اوپر) اٹھائے جاتے ہیں (5) اور اسی رات میں بندوں کے رزق اترتے ہیں ۔
حوالہ :- مشکوۃ المصابیح صفحہ 115۔باب قیام شھر رمضان.
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ کیا تم جانتی ہو کہ شعبان کی پندرھویں رات میں کیا ہوتا ہے انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایئے یہ کیا ہوتا ہے تو آپ نے فرمایا ۔
” نعم يا عائشة انه ليس نفس تموت في سنة الا كتب أجلها في شعبان فاحب ان يكتب اجلي و انا في عباده ربي و عمل صالح- و لفظ ابن النجار يا عائشة انه يكتب فيه ملك الموت، من يقبض فاحب ان لا ينسخ اسمي الا صائم”
ترجمہ :- ہاں عائشہ! جو بھی سال بھر میں فوت ہوتا ہے اس کا وقت(وفات) شعبان ہی کے مہینے میں لکھ دیا جاتا ہے۔ تو یہ بات مجھے محبوب ہے کہ میرے وصال کا وقت اس حال میں لکھا جائے کہ میں اپنے رب کی عبادت اور نیک کام میں مشغول رہوں &nbs
p;ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا اے عائشہ! اسی مہینے میں ملک الموت فوت ہونے والوں کے نام لکھ لیتے ہیں تو مجھے یہ پسند ہے کہ میرا نام روزہ کی حالت میں لکھا جائے ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔”پندرھویں شعبان کی رات میں لکھ دیا جاتا ہے بنی آدم نے جس نے اس سال میں پیدا ہونا ہے اور مرنا ہے اور اعمال لوگوں کے اور رزق۔
حوالہ :- مشکوۃ المصابیح صفہ 115۔
پندرھویں شعبان کی رات قبرستان جانا :-
پندرھویں شعبان کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنت البقیع زیارت قبور کے لئے جایا کرتے تھے ۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قبرستان جانا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے ۔ حدیث پاک شاہد۔
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا روایت کرتی ہیں۔ کہ میں ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پاکر آپ کی تلاش میں نکلی آپ جنت البقیع میں تھے، آپ کا سر آسمان کی جانب اٹھا ہوا تھا، آپ نے فرمایا، اے عائشہ کیا تمہیں ڈر ہے کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر ظلم کرے گا؟ میں نے عرض کیا، یارسول اللہ مجھے گمان ہوا شاید آپ دوسری ازواج کے پاس تشریف لے گئے ہیں۔ آپ نے فرمایا-
"اللہ تعالی پندرہویں شعبان کی رات آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے”
حوالہ :- جامع ترمذی جلد اول صفحہ 275
ابن ماجہ شریف صفحہ 99۔
شعبان کی پندرھویں شب عبادت کا حکم :-
شعبان کی پندرھویں رات میں کثرت سے عبادت کرنے کا حکم دیا گیا ہے جو متعدد آحادیث سے عبارت ہے ۔
حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے-
"عن النبی ﷺ قال اذا کانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلہا وصوموا نہارہا فان اﷲ ینزل فیہا لغروب الشمش الیٰ سماء الدنیا فیقول ألا من مستغفرلی فاغفرلہ الا مسترزق فارزقہ الا مبتلی فاعافیہ الا کذا الا کذا حتی یطلع الفجر” ۔
’’رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا جب نصف شعبان کی رات ہو تو رات میں قیام کرو اور دن میں روزہ رکھو، کیونکہ اﷲ تعالیٰ غروب آفتاب کے وقت اس شب میں آسمان دنیا کی جانب نزول فرماتا ہے اور کہتا ہے: کوئی مغفرت چاہنے والا ہے کہ میں اس کی مغفرت کروں۔ ہے کوئی رزق طلب کرنے والا کہ میں اسے رزق دوں، ہے کوئی مصیبت میں مبتلا کہ میں اسے عافیت دوں، اس طرح کے ارشادات فرماتا رہتا ہے یہاں تک کہ فجر طلوع ہوجاتی ہے
حوالہ :- (سنن ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلوۃ، باب ماجاء فی لیلۃ الصنف من شعبان، جلد اول صفحہ 191۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا-
” پندرھویں شعبان کو اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول فرماتا ہے رحم چاہنے والوں پر رحم فرماتا ہے ۔
حوالہ :- شعب الایمان جلد 3 صفحہ 382۔
دعا کی قبولیت کی رات :-
پندرھویں شعبان کی رات اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی کی رات ہے اس رات اللہ رب العزت اپنے گناہگار بندوں کی گناہوں کو معاف کرتا ہے اور بندہ جو دعا کرتا ہے اس کو قبول کرتا ہے ۔
حضرت ابو باہلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔
” پانچ راتیں ایسی ہیں کہ ان میں کوئی دعا رد نہیں ہوتی۔
1) رجب کی پہلی رات ۔
2) نصف شعبان کی رات ۔
3) جمعہ کی رات ۔
4/5) دونوں عیدوں کی رات
حوالہ :- مقاشفۃ القلوب صفحہ 682
اختتامیہ :-ماہ شعبان المعظم کے مہینے میں روزے رکھنا، کثرت سے عبادات کرنا، شب بیداری کرنا، قبرستان جانا وغیرہ احادیث کریمہ سے ثابت ہے اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا ہے اگر کوئی اسے بدعت نام دے تو وہ اپنے اعمال کا محاسبہ کرے ۔
اللہ تبارک و تعالیٰ اس شب کثرت سے عبادت کرنے، گناہوں سے مغفرت طلب کرنے اور کثرت سے سامان اخروی اکھٹا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین