شہد اور شہد کی مکھی کا ذکر قرآن پاک میں! (۱)

اللہ تعالٰی نے عبرت و نصیحت، پند و موعظت، تذکیر و وعظ اور یادہانی کے لیے نیز اپنی نشانیوں اور انعامات پر غور و خوض اور تدبر و تفکر کے لیے چرند و پرند نباتات و جمادات کیساتھ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر مختلف حیوانات کا بھی تذکرہ فرمایا ہے۔ چنانچہ سورہ نحل کے ۶۷ ویں آیت میں النحل شہد کی مکھی کا لفظ آیا ہے اور اسی لفظ سے یہ سورہ موسوم ہے۔ اس سورہ میں بطور خاص اللہ کے انعامات اور اس کے قدرت کے مظاہر کا تذکرہ ہے، نیز محتلف پیرائے سے شرک کا ابطال اور توحید کا اثبات کیا گیا ہے۔
جیسا کہ میں نے بتایا کہ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے خصوصیت کیساتھ النحل یعنی شہد کی مکھی کا بھی تذکرہ کیا ہے، آیت کا ترجمہ ہے،، اور دیکھو تمہارے رب نے شہد کی مکھی 🍯🐝 پر یہ بات وحی کردی کہ پہاڑوں میں، درختوں 🌲🌳🌴میں اور ٹٹیوں پر چڑھائی بیلوں میں اپنے چھتے بنا اور ہر طرح کے پھول 🌺🌻🌹🌷 کا رس چوس کر اور اپنے رب کی ہموار کی ہوئی راہوں پر چلتی رہ۔ اس مکھی 🐝🐝کے اندر رنگ برنگ کا ایک شربت نکلتا ہے، جس میں شفا ہے، لوگوں کے لیے۔ یقینا اس میں بھی ایک نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں۔
عام طور پر ہم لوگ قرآن مجید کی تلاوت سرسری طور کرتے ہیں، قرآن مجید کے معانی مفاہیم اور اس کے اندر جو گہرائی و گیرائی اور علم و عرفاں کے سمندر ہیں، ان پر نظر، تدبر اور غور فکر نہیں کرتے اور اکثر تو اس کے ترجمے سے ہی ناواقف اور نابلد ہیں، دنیا کی اس سب سے عظیم تر کتاب کا حال یہ ہے کہ اکثر اس کو بغیر سمجھے پڑھتے ہیں اور کبھی خیال بھی نہیں کرتے کہ ہم کو اس عظیم آسمانی،الہامی اور ربانی کتاب کو ترجمہ و معانی اور تدبر و تفکر کیساتھ پڑھنا چاہیے۔۔
سورہ ،،نحل ،،کی تلاوت کے دوران جب بھی اس آیت پر پہنچتا ہوں، تو دل کرتا ہے کہ النحل یعنی شہد کی مکھی 🐝 کی خصوصیت پر جو کچھ مفسرین نے لکھا ہے اس کا خلاصہ قارئین تک بھی پہنچاؤں، آج شہد کی مکھی🐝کے سلسلہ میں اور شہد کی شفاء کے تعلق سے حاصل مطالعہ قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
،، شہد کا ایک مفید اور لذیذ غذا ہونا تو ظاہر ہے، اس لئے اس کا ذکر یہاں نہیں کیا گیا۔ البتہ اس کے اندر شفا ہونا نسبتاً ایک مخفی بات ہے اس لئے اس پر متنبہ کردیا گیا۔ شہد اول تو بعض امراض میں بجائے خود مفید ہے، کیونکہ اس کے اندر پھولوں اور پھلوں کا رس اور ان کا گلوکوز اپنی بہترین شکل میں موجود ہوتا ہے۔ پھر شہد کا یہ خاصہ کہ وہ خود بھی نہیں سڑتا اور دوسری چیزوں کو بھی اپنے اندر ایک مدت تک محفوظ رکھتا ہے، اسے اس قابل بنا دیتا ہے کہ دوائیں تیار کرنے میں اس سے مدد لی جائے۔ چنانچہ الکوحل کے بجائے دنیا کے فن دوا سازی میں وہ صدیوں اسی غرض کے لئے استعمال ہوتا رہا ہے۔ مزید براں شہد کی مکھی اگر کسی ایسے علاقہ میں کام کرتی ہے جہاں کوئی خاص جڑی بوٹی کثرت سے پائی جاتی ہے ، تو اس علاقہ کا شہد محض شہد ہی نہیں ہوتا ، بلکہ اس جڑی بوٹی کا بہترین جوہر بھی ہوتا ہے اور اس مرض کے لیے مفید ہوتا ہے جس کی دوائیں اس جڑی بوٹی میں خدا نے پیدا کی ہے۔ شہد کی مکھی 🍯🐝سے اگر یہ کام باقاعدگی سے لیا جائے، اور مختلف نباتی دواؤں کے جوہر اس سے نکلوا کر ان کے شہد علحیدہ علحیدہ محفوظ کیے جائیں تو ہمارا خیال ہے کہ یہ شہد لیبارٹریوں میں نکالے ہوئے جوہروں سے زیادہ مفید ثابت ہوں گے،، (تفہیم جلد اول تفسیر سورہ نحل, ص، ۵۵۲) ۔۔۔۔۔۔۔۔
شہد کی مکھی 🍯🐝اپنی ذہانت، عقل و فراست اور حسن تدبیر کے لحاظ سے تمام حیوانات میں ممتاز جانور ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو خطاب بھی امتیازی شان کا کیا ہے، باقی حیوانات کے بارے میں تو قانون کلی کے طریقہ پر اعطیٰ کل شئ خلقہ ثم ھدیٰ،، فرمایا لیکن اس ننھی سی مخلوق کے بارے میں خاص کرکے اوحیٰ ربک فرمایا،، جس سےاشارہ اس بات کی جانب کردیا کہ یہ دوسرے حیوانات سے بہ نسبت عقل و شعور اور سوجھ بوجھ میں ایک ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔
شہد کی مکھیوں کی فہم و فراست کا اندازہ ان کے نظام حکومت سے بخوبی ہوتا ہے، اس ضعیف جانور کا نظام زندگی انسانی سیاست و حکمرانی کے اصول پر چلتا ہے، تمام نظم و نسق ایک بڑی مکھی 🐝کے ہاتھ میں ہوتا ہے، جو تمام مکھیوں کی حکمراں ہوتی ہے ، جس کو رانی مکھی 👑🐝کہتے ہیں، اس کی تنظیم اور تقسیم کار کی وجہ سے پورا نظام صحیح سالم چلتا رہتا ہے، اسکے عجیب و غریب نظام اور مستحکم قوانین و ضوابط کو دیکھ کر عقل انسانی دنگ رہ جاتی ہے، خود یہ ملکہ تین ہفتوں کے عرصے میں چھ ہزار سے بارہ ہزار تک انڈے دیتی ہے، یہ اپنی قد و قامت اور وضع و قطع کے لحاظ سے دوسری مکھیوں سے ممتاز ہوتی ہے، یہ ملکہ تقسیم کار کے اصول پر اپنی رعایا کو مختلف امور پر مامور کرتی ہے ، ان میں سے بعض دربانی کے فرائض انجام دیتی ہیں، اور کسی نا معلوم اور خارجی فرد کو اندر داخل ہونے نہیں دیتیں، بعض انڈوں کی حفاظت کرتی ہیں، بعض نابالغ بچوں کی تربیت کرتی ہیں، بعض معماری اور انجئیرنگ کے فرائض ادا کرتی ہیں، ان کے تیار کردہ اکثر چھتوں کے خانے بیس ہزار سے تیس ہزار تک ہوتے ہیں، بعض موم جمع کرکے معماروں کے پاس پہنچاتی رہتی ہیں، جن سے وہ اپنے مکانات تعمیر کرتے ہیں، یہ موم نباتات پر جمع ہوتے ہیں، سفید قسم کے سفوف سے حاصل کرتی ہیں، گنے/ ایکھ پر یہ مادہ بکثرت نظر آتا ہے، ان میں سے بعض محتلف قسم کے پھولوں اور پھلوں پر بیٹھ کر اس کو چوستی ہیں، جو ان کے پیٹ میں شہد میں تبدیل ہوجاتا ہے، یہ شہد ان کی اور ان کے بچوں کی غذا ہے اور یہی ہم سب کے لئے بھی لذت و غذا کا جوہر اور دواء شفا ک ا نسخہ ہے، یہ مختلف پارٹیاں سرگرمی سے اپنے اپنے فرائض سر انجام دیتی ہیں اور اپنی،، ملکہ،، کے حکم کو دل و جان سے قبول کرتی ہیں، ان میں سے کوئی اگر گندگی پر بیٹھ جائے تو چھتہ کے دربان اسے باہر روک لیتے ہیں، اور ملکہ اس کو قتل کردیتی ہے، ان کے اس حیرت انگیز نظام اور حسن کارکردگی کو دیکھ کر انسان حیرت میں پڑجاتا ہے۔۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ہر جانور اپنے رہنے سہنے کے لیے گھر تو بناتا ہی ہے، پھر اس اہتمام سے گھروں کی تعمیر کا حکم مکھیوں کو دینے میں کیا خصوصیت ہے، پھر یہاں لفظ بھی،، بیوت،، کا استعمال فرمایا جو عموما انسانی رہائش گاہوں کے لئے بولا جاتا ہے، اس سے اشارہ ایک تو اس طرف کردیا کہ مکھیوں کو چونکہ شہد تیار کرنا ہے، اس کے لئے پہلے سے ایک محفوظ گھر بنالیں، دوسرا اس طرف اشارہ کردیا کہ جو گھر یہ بنائیں گی وہ عام جانوروں کے گھروں کی طرح نہیں ہوں گے، بلکہ ان کی ساخت و بناوٹ غیر معمولی قسم کی ہوگی، چنانچہ ان کے گھر عام جانوروں کے گھروں سے ممتاز ہوتے ہیں، جن کو دیکھ کر انسانی عقل حیران و ششدر رہ جاتی ہے، ان کے گھر مسدس شکل کے ہوتے ہیں، پرکار اور مسطر سے بھی اگر ان کی پیمائش کی جائے تو بال برابر بھی فرق نہیں رہتا، مسدس شکل کے علاوہ وہ دوسری کسی شکل مثلاً مربع اور مخمس وغیرہ کو اسی لئے اختیار نہیں کرتیں کہ ان کے بعض کونے بے کار رہ جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے مکھیوں کو محض گھر بنانے کا حکم نہیں دیا بلکہ اس کا محل وقوع بھی بتلا دیا کہ وہ کس بلندی پر ہونا چاہیے کیونکہ ایسے مقامات پر شہد کو تازہ اور صاف چھنی ہوئی ہوا پہنچتی رہتی ہے، وہ گندی ہوا سے بچا رہتا ہے اور توڑ پھوڑ سے محفوظ رہتا ہے۔( ماخوذ و مستفاد از معارف القرآن جلد۵/ ص، ۳۶۲) —
ناشر مولانا علاؤالدین ایجوکیشنل سوسائٹی، جھارکھنڈ 6393915491
نوٹ / مضمون کا اگلا کل ملاحظہ فرمائیں

تحریر: قمرالزماں ندوی، مدرسہ نور الاسلام، کنڈہ، پرتاپگڑھ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے