- پیدائش سے قبل چچی ام الفضلؓ کا خواب:
حضرت حسین رضی اللہ عنہ 5 شعبان المعظم 4 ھ کو پیدا ہوئے۔ آپ کی پیدائش مبارکہ سے پہلے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چچی ام الفضلؓ زوجہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے ایک خواب دیکھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک سے گوشت کا ایک ٹکڑا جدا ہو کر اُن کی جھولی میں گرا ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: غم نہ کریں، خواب مبارک ہے، عنقریب میری بیٹی سیدہ فاطمۃ الزہراءؓ کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوگی، جس کی پرورش آپ کے ذمہ ہوگی، چنانچہ اس خواب کے کچھ عرصہ بعد حضرت حسین رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے اور یوں جنت کے شہزادوں حسنؓ وحسینؓ کی خوبصورت جوڑی مکمل ہوگئی، خبر ملتے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور برکت کے لیے اپنی زبان مبارک نومولود کے منہ میں ڈالی، دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی۔ یہ خوش قسمت شہزادہ جس کے وجود میں سب سے پہلے مبارک لعاب پہنچی اور کانوں میں اعلیٰ و ارفع آواز گونجی، اس کا نام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسینؓ رکھا۔ - حسین مشابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ اپنے نام کی مانند حسین و جمیل، شکل و صورت میں کائنات کے سب سے خوبصورت انسان محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کی آنکھ کا تارہ تھے۔ حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے متعلق زبانِ نبوت سے کیا خوبصورت الفاظ ادا ہوئے: ’’الٰہ العالمین! جس طرح میں ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں، تو بھی ان سے محبت رکھ، اور جو اِن دونوں کو محبوب رکھے، تو بھی اسے محبوب بنا لے۔‘‘(جامع الترمذی)
اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کا ایک آسان نسخہ ان شہزادوں سے قلبی محبت بھی ہے، کیونکہ یہ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی مقبول دعا ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ان شہزادوں سے بے حد محبت تھی، ایک بار حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے رونے کی آواز سن کر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ’’کیا تو نہیں جانتی اس کے رونے سے مجھے تکلیف ہوتی ہے؟‘‘ - حسنؓ وحسینؓ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔
ایک دفعہ تو اس محبت کی حد ہوگئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حسینؓ مجھ سے ہے، میں حسینؓ سے ہوں۔‘‘ اسی طرح ایک جگہ ارشاد ہے: ’’حسنؓ وحسینؓ تو جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں ۔‘‘
کبھی ان کی اُلفت میں ممبر سے اتر آئے، کبھی سجدے طویل ہوگئے، کیونکہ پشت پر جنت کے نوجوانوں کے سردار سوار ہیں ، کبھی ارکانِ نماز یوں ادا کیے جا رہے ہیں کہ شہزادۂ رسول وجودِ اطہر کے ساتھ چمٹے ہیں۔ کبھی ان بچوں کے ساتھ دوڑ رہے ہیں ، اور کبھی کندھوں پر سواری کرائی جا رہی ہے۔ دیکھنے والوں نے کہا: سواری کتنی اعلیٰ ہے؟ تو فوراً زبانِ نبوت سے نکلا: سوار بھی تو کتنا اعلیٰ ہے۔
ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں کئی لڑکوں کو کشتی میں پچھاڑتے دیکھا، تو فرمایا: ’’یہ شجاع ابن شجاع ہے۔‘‘ اپنے والد سے قرآن پاک پڑھتے ہوئے آیاتِ جہاد پر جنگ کے طریقے اور گُر پوچھتے، اور صرف زبانی نہیں، عملی تربیت کی درخواست کرتے۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ انہیں مشقیں کراتے، حتیٰ کہ اس فن میں کامل ہوگئے اور آگے جا کر نواسۂ رسول نے بہت سی جنگوں اور میدانِ کربلا میں اپنی بہادری کے جوہر دکھائے۔ حضرات صحابہ کرامؓ بھی خاندانِ نبوت کے ان شہزادوں پر جان چھڑکتے اور ان کا پورا خیال رکھتے۔ - خلافت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ:
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم ! اپنے اقرباء سے صلہ رحمی کی نسبت مجھے یہ بات کہیں زیادہ عزیز ہے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقرباء سے صلہ رحمی کروں۔‘‘(صحیح البخاری)
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں حیرہ علاقہ فتح ہوا تو ایک بہت خوبصورت اور قیمتی چادر مالِ غنیمت میں آئی، آپ نے وہ چادر حضرت حسینؓ کو دی کہ شہزادے کے ساتھ اچھی لگے گی۔ - خلافت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ:
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بدری اصحاب کے برابر دونوں بھائیوں کے وظائف مقرر کیے، دین نے جس چیز سے نہیں روکا اور اجازت دی، خلفاءثلاثہؓ نے اس مقدس گھرانے کے ایک ایک فرد بالخصوص ان شہزادوں کے ساتھ پیار و محبت، جود وسخاوت میں انتہا کردی اور اس مقدس گھرانے کے تقدُّس کو دھبہ لگنا کبھی گوارا نہ کیا ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں یمن سے کپڑے آئے تو کوئی حسنین کریمینؓ کے ناپ کے مطابق پورا نہیں آیا، آپ غمگین ہوگئے اور فوراً ناپ یمن بھجوا کر نئے جوڑے تیار کروائے، اور جب انہوں نے پہنے تو فرمایا: ’’شکر ہے اس اللہ کا جس نے میرا دل ٹھنڈا کیا ہے۔‘‘ (سیر اعلام النبلاء)
6: خلافت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ:
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایک روز خطبہ دے رہے تھے تو حدیث پڑھ کر آپ نے دونوں صاحبزادوں کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہے، اس کا فرض ہے کہ وہ ان سے بھی محبت رکھے اور ان کے درجات پہچانے۔‘‘ (سیرۃ الخلفاءؓ)
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے محبت کا حق بھی حسنؓ و حسینؓ نے ادا کیا، باغیوں نے جب خلیفۂ رسول کے گھر کا محاصرہ کیا تو دروازے پر پہرہ دیا، حضرت حسن رضی اللہ عنہ ایک تیر سے زخمی بھی ہوئے، پر باغیوں کو سامنے سے اندر نہ جانے دیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ‘ حضرت حسنین رضی اللہ عنہما کے گھوڑے کی رکاب پکڑتے تھے، کسی نے کہا: آپ علم و عمل میں زیادہ اور بزرگ ہیں؟ کہا: میرے لیے تو یہ سعادت کی بات ہے۔حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی خاطر لڑنے مرنے پر تیار ہو جاتے۔ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے صرف حسنین کریمینؓ کی فرمائش پر ہی بعد از وصالِ نبوی اذان دی۔
7: خلافت حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ:
اپنے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں حکومتی معاملات میں ہاتھ بٹایا کرتے اور اُن کے ساتھ جنگوں میں بھی حصہ لیتے، ان کے بعد اپنے چہیتے بھائی حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی معاون رہے۔
8: خلافت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ:
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی عنایات سے نوازے جاتے رہے۔ الغرض ہمیشہ سب کے منظورِ نظر رہے اور اپنے اختیارات کو استعمال کرتے رہے۔ ایک دفعہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو کسی امیرِ سلطنت کی طرف سے بھیجا جانے والا سامان مدینے کے پاس سے گزرا تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے دس اونٹوں سے سامان اُتروا کر پاس رکھ لیا اور پیغام بھجوایا کہ اپنا حق وصول کرلیا، البتہ کچھ باقی ہے۔ مال کے حاصل کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ جمع کرتے تھے، راہ خدا میں خرچ کر دیتے۔
9: صفات حضرت حسین رضی اللہ عنہ:
مدینے کے سب سے زیادہ سخی کا پوچھا جاتا تو لوگ آپ کا ہی نام لیتے، اللہ کی راہ میں اتنا خرچ کرتے کہ اکثر مقروض ہو جاتے۔حسنِ سلوک ایسا کہ بے مثال۔ ایک دفعہ ایک خادمہ سے کچھ خطا ہوگئی تو اس نے گھبرا کر یہ آیت پڑھی کہ غصہ کو پینے والے اللہ کو پسند ہیں، آپؓ نے فوراً معاف کر دیا، اس نے درگزر اور حسنِ سلوک کا آگے ذکر کیا تو اُسے آزاد کردیا۔
یتیموں اور بیواؤں کا اتنا خیال رکھتے کہ بوقتِ شہادت آپ کی پشت مبارک پر بہت زیادہ نشان تھے، حضرت زین العابدینؒ سے پوچھا گیا تو فرمایا کہ: یہ اس سامان کو اُٹھانے کے نشان ہیں جو آپ اپنی پشت پر لاد کر بیوہ، یتیم بچوں اور فقراء و مساکین کو پہنچاتے تھے۔
عبادت گزار اتنے کہ بعض اوقات سینکڑوں نوافل ادا کرتے، یہ اُس اذانِ محمدی کا اثر تھا جو پیدائش کے وقت آپ کے کانوں میں دی گئی ۔ تلاوتِ قرآن مجید کا یہ حال کہ چلتے پھرتے زبان پر تلاوت جاری رہتی، یہ لسانِ نبوت چوسنے کی برکت تھی، اسی وجہ سے خوش الحان تھے۔ جو آپ کی تلاوت سنتا تو پھر ’’ھل من مزید‘‘ کی تمنا کرتا، عاشقانہ عبادتِ حج کا یہ عالم کہ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ تک پیدل چل کر پینتیس (35) حج کیے۔ سخاوت کا یہ حال تھا کہ اپنے تو اپنے دروازے سے دشمن بھی خالی نہیں گئے، قرض لے لیا، پر کسی سائل کو مایوس نہ کیا۔ نماز سے اتنی محبت کہ اللہ کے دین کی سربلندی کی خاطر نکلے اور اسی راستے میں سجدہ کی حالت میں میدانِ کربلا میں 10 محرم 61 ھ کو 57 برس کی عمر میں شہادت کے درجے پر فائز ہو کر ہمیشہ کے لیے سرخرو ہوگئے۔ اللہ تعالی آپ کے درجات کو بلند فرمائے۔
تحریر: مفتی نور حسین افضل
اسلامک اسکالر، ماہر تعلیم، مصنف، کالم نویس
صدر: پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (مشرق وسطی)
صدر: کالمسٹ ایسوسی ایشن اف پاکستان (مشرق وسطی)