تحریر:سلمان کبیرنگری
کسی بھی سماج کی روح سمجھنے کے لئے اس کے معاشرے کا مطالعہ سب سے اہم ہوتا ہے اور اس معاشرے میں زبان کلیدی اہمیت کی حامل ہوتی ہے، کیوں کہ زبان ہی وہ ذریعہ ہے جس کے توسط سے سماج کے افراد باہم رابطہ کرتے ہیں ہندوستان کی گنگا جمنی تہزیب کو پروان چڑھانے اور اس کو دنیا کے لئے ایک مثال بنانے میں اردو کا کلیدی کردار رہا ہے، گنگا جمنی تہزیب مشترکہ تہزیب کی اصطلاح بھی اسی زبان کے ساتھ وجود میں آئی ورنہ اس سے قبل ایسے سماج کاتصور نہیں تھا، اس کے باوجود یہی اردو زبان آج ہندوستان میں بے گھری کا شکار ہے، یوں تو آزادی کے بعد سے اردو کے ساتھ سوتیلا رویہ اختیار کیا گیا اور زبان کے قضیے نے طول پکڑا اس کی طویل بحث ہے، سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے والدین کتنے باشعور ہوتے ہیں یہ بھی کسی سے چھپا نہیں ہے ایسے میں وہ بھی خاموش رہتے ہیں نویں میں اورکوئی بچہ اردوبول لیتا ہے تو اولا اس کو اردو دی نہیں جاتی ہے، بلکہ اس کو سمجھا دیا جاتا ہے کہ اس سے مستقبل میں کوئی فائدہ نہیں ہوگا: اردو کی ترویج و ترقی کے ہمیں ہی آگے آنا ہوگا لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہم ہی اردو کے ساتھ نا انصافی کرتے ہیں بہت سے سرکاری دفاتر میں اردو بابو ہوتے ہیں لیکن ہم انھیں اپنی درخواستیں اردو میں نہیں دیتے مثلاً تھانے، بینکس اور دیگر کئی محکمہ جات میں اگر ہم چاہیں تو اردو میں بھی درخواست دے سکتے ہیں لیکن ہم ایسا نہیں کرتے تو کسی اور کو کیا ضرورت پڑی ہے، دراصل واقعہ یہ ہے کہ ہم نے خود اردو کا راستہ روک رکھا ہے دوسروں کو بلا وجہ الزام دیتے ہیں، ہم خود اردو میں کام نہیں کرتے اگر ہم اردو میں کام کرنا شروع کر دیں تو بہت ممکن ہے کہ سرکاروں پر دباؤ بنے اور سرکاریں اپنے محکمہ جات میں اردو کے لئے اسامیاں نکالنے کے لیے مجبور ہوجائیں ں
نہ ہمسفر نہ کسی ہمنشیں سے نکلے گا
ہمارے پاؤں کا کانٹا ہمیں سے نکلے گا