لاوارث لاش

وقت جس تیزی سے گردش میں ہے ،ایسا سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا کہ برس مہینہ ،مہینہ ہفتہ اور ہفتے دنوں کی طرح گذریں گے ،اوقات کی برکتوں کا اس تیزی کے ساتھ اٹھنا ،انسانی عمر کا گھٹنا اور بہت سی تبدیلیاں بتلاتی ہیں کہ انسان اپنے مقصد حیات پر نظر ثانی کرے اور اس کا کچھ حصہ رب کائنات کو راضی کرنے میں بیتائے۔آئے دن کے حادثات ،دل دہلا دینے والے حادثات انسان کو عملی زندگی کی اصلاح کی طرف توجہ دلانے کے لئے کافی ہیں ،روز مرہ انسانوں کا کہیں نا کہیں آنا جانا ،معمول میں شامل ہے ،ایسے میں کب کہاں زندگی کی شام ہوجائے ،اس احساس کی ضرورت ہے اور احساس کے نتیجے میں عمل کی طرف راغب ہونا ” مرد خود آگاہ”کی علامت ہے ۔
کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ اللہ پاک سنبھلنے ،سوچنے اور حق وسچ کو برتنے کا موقع دیتا ہے ،اچھا انسان عبرت پکڑتا ہے اور رب کی اطاعت کی طرف پلٹتا ہے ،جب کہ بہت سے حرماں نصیب ،اپنی اتراہٹ ،جہالت اور خوف خدا سے غفلت کے نتیجے میں کج روی اور بدعملی کا شکار ہوکر فنا کی راہ لیتا ہے ،اور خدا بہتر جانے اس کی موت اپنوں کے بیچ ہوتی ہے یا اپنوں سے دور اور بہت دور …!
کبھی کبھی نیکیاں کام آتی ہیں اور لاوارث لاش کی ایسی قدردانی اللہ کرواتا ہے کہ کوئی دیکھا کرے ۔جب کہ ہزار ہا انسانوں کے درمیاں بہت سی لاشوں کی پہچان تک مشکل ہوجاتی ہے اور وہ بے گور وکفن چیل ،کوؤں اور جنگلی جانوروں کی نذر ہو جایا کرتی ہیں ۔
یاد پڑتا ہے کہ ہمارے ضلع کی مرکزی مسجد کچہری میں فرشتوں کی انجمن کا ایک انسان حضرت مولانا حسنین احمد مفتاحی تقریبا اٹھارہ برس تک امامت وخطابت کی ذمہ داری بحسن وخوبی نجام دیتے رہے ،اس درمیان وہ بہت سی خدمتوں کے ساتھ لاوارث لاش کو گور گریباں بھی پہنچانے کی خدمت اپنی انسانی وایمانی ذمہ داری تصور کرتے تھے،انہوں نے نہ جانے کتنی سڑی گلی لاشوں کو غسل دیا ہوگا اور کاندھا دے کر لوہیا نگر قبرستان میں منوں مٹی کے نیچے دبایا ہوگا،اس حوالے سے ان کی خدمات کی جہتیں تفصیل طلب بھی ہیں اور دیدہ عبرت نگاہ بھی۔

امام صاحب کی شہادت کے بعد جب یہ عاجز راقم الحروف نے مرکزی مسجد کچہری بیگوسرائے کی امامت کی ذمہ داری سنبھالی تو درجنوں بار ایسا موقع آیا جب لاش کو صدر ہاسپیٹل سے بعد عصر ،بعد مغرب یا بعد فجر لاکرمدرسہ بدرالاسلام میں غسل وکفن دینے کی ضرورت پڑی ،صدر ہاسپیٹل کا عملہ سیدھا آکرکچہری مسجد کے مین گیٹ پر کہہ دیا کرتا کہ” محمڈن لاوارث لاش آیا ہوا ہے ” لوگ سن کراپنی اپنی راہ لیتے ۔اللہ بھلا کرے بھائی مولوی محمد شمیم سہر ساوی حال مقیم مدرسہ بدرالاسلام بیگو سرائے ،بھائی قاسم اور مرحوم اختر صاحب خاتوپور،یہ عاجز سمیت اکثر لاشوں کے گرد یہی کارواں رہتا تھا ،خدا بھلا کرے ڈاکٹر شوکت صاحب کو وہ بے چارے کفن کا پیسہ ہمیشہ دیتے رہے۔اس زمانے میں لاشیں بغیر ڈیفریجر میں رکھی ہوئی ،ملتی تھیں اور انہیں بغیر اشتہار کے ٹھکانے لگانا پڑتا تھا ۔اسی زمانے میں اس عاجز نے لاوارث لاش کمیٹی کی تشکیل کے لئے نہ صرف کوشش شروع کی تھی ،بلکہ اس موقع پر ہونے والے دیگر اخراجات کی بھر پائی کے لئے فنڈ بھی اکٹھا کرنے کی تیاری کی تھی ،مگر چند ایک خودداروں کے انکار اور ناقابل عمل اعذار کی وجہ سے یہ جذبہ ماند پڑگیا اور لاوارث لاش کی تجہیز وتکفین والی کمیٹی کی تشکیل کا کام پھر آج تک نہ ہوسکا ۔

آج جہاں بہت سی سہولیات میسر ہیں ان میں ایک بڑی سہولت میڈیا کی بھی ہے ،جس سے اپنی بات انسان منٹ وسیکنڈ میں ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچانے میں کامیاب ہوجاتا ہے ۔اس طرح بعض اوقات لاوارث لاش کے ورثاء تک بھی بہ آسانی خبر یں مل جایا کرتی ہیں۔ گزشتہ چند دنوں قبل ایسا ہی ایک واقعہ لاوارث لاش کے تعلق سے سامنے آیا ،اللہ اجر دے ہمارے پوکھریا بیگوسرائےکے چند فکر مند نوجوانوں کو جس کے سرخیل بھائی احمد مرتضی تھے ،انہوں نے نئی جہت سے اس 35/ سالہ نوجوان کی لاش کو کاندھا دینے کا کام کیا ۔ان کی خاموش خدمت اور بالقصد جد وجہد سے ہم جیسوں کو بہت حوصلہ ملا اور ماضی کی مایوسی سے نکلنے کی امید بندھی ۔انہوں نے جس طرز خاص اور انسانی جذبے کا مظاہرہ کیا وہ موجودہ نسل کے لئے آئیڈیل ہے ،یقین مانئیے !ہر زمانے میں اللہ کے کچھ خاص بندے رہے ہیں جو شور مچانے سے زیادہ کام پر یقین رکھتے ہیں اور براہ راست معلومات رکھ کر امور کو انجام دینے کے لئے پیش پیش رہتے ہیں اور جن کے ظاہراحوال سے زیادہ باطنی کیفیات اللہ کو محبوب ہواکرتی ہیں ،ملت کے ایسے رضاکار ہر دور میں رہے ہیں ،جو بلاواسطہ سماجی کاز اور ملت کی ناخدائی کے لئے منجانب اللہ سامنے آتے رہے ہیں ۔ضرورت ہے کہ لاوارث لاش کی تجہیز وتکفین کے لئے کم ازکم بیگوسرائےشہری حلقے میں فوری طور پر ایک کمیٹی تشکیل دی جانی چاہئےتاکہ بوقت ضرورت اس نیک اور انسانی خدمت کے لئے مخلص افراد مہیا ہوسکیں ۔ جب تک کے لئے رضاکاران ملت کا شکریہ بھی اور ان سے بہت سی امید یں بھی….!

تحریر: عین الحق امینی قاسمی
معہد عائشہ الصدیقہ ،بیگوسرائے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے