یوں سینۂ گیتی پر روشن، اسلاف کا یہ کردار رہے

کائنات میں حسن و جمال ،نشیب وفراز، سبزہ وزار، بہتے آبشار، گلستاں کی بہار، دست و کہسار، بل کھاتی ندیاں سمندروں میں مدوجزر کا شمار، ستاروں کی انجمن، چاند کی چمک، سورج کی رمق بجلی کی دمک کلیوں کی مسکراہٹ، بھنوروں کے گن گناہٹ، چڑیوں کی چہچہاہٹ صبح کا سویرا اور رات کا اندھیرا وغیرہ کو حسن اتفاق کا نام نہیں دیا جا سکتا کیوں کہ اکثر ایسا نہیں ہوتا کہ پانی زمین پر پھینکنے سے کسی ملک یا عمارت کا نقشہ بن جائے ، جب تک اُس کے پیچھے کسی مصور کی فن کاری کا ذوق کار فرمانہ ہو۔ بلاتشبیہ کائنات کی رعنائیاں بھی مصور حقیقی کی کرشمہ سازیوں کا نتیجہ ہے۔ جس کو جو ملا، جتنا ملا اور جس قدر ملا، اُسی رب الارباب بادشاہ حقیقی کے در سے ملا۔ اس لیے ہم جب بھی اپنے ملک ہندوستان پر نظر ڈالتے ہیں تو حب الوطنی کی چنگاری شعلہ جوال بنتی ہوئی نظر آتی ہے اور سینے میں اپنے وطن ہندوستان کا جذبہ ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے۔ خطہ ہند پر اللہ پاک کی خصوصی نگاہِ کرم کا اس سے بڑھ کر ثبوت اور کیا ہوگا کہ پہلے نبی ، پہلا انسان، پہلی اذان، پہلی نماز، پہلی تسبیح ، پہلی تکبیر، پہلی توبہ، پہلی دعا ، پہلی ادا، پہلی صدا، پہلی ندا اور پہلے آنسو اللہ عزوجل کی محبت میں اسی زمین کا مقدر رہے ہیں۔ اسی خطے کی طرف کعبتہ اللہ کا سب سے افضل ترین رکن "رکن اسود” ہے ، سب سے بڑھ کر یہ کہ حبیب رب العلیٰ مالک کون ومکاں دانائے سبل مولائے گل ختم الرسل مصطفی کریم رؤف الرحیم تم نے یہ فرما کر کہ ہند سے عاشقوں کی خوشبو آتی ہے ارض ہند کو ارض محبت کا تمغہ عطا کرکے روم و فارس اور دیگر ممالک کے لئے قابل رشک بنایا ہے

سرزمین ہند سے ہمارا رشتہ:
ہندوستان وہ ملک ہے جو ہمیشہ سے مسلمانوں کا مسکن رہا ہے۔ صحابہ کرام، تابعین عظام اور تبع تابعین کے قافلے اسلام کے فروغ و استحکام کے لیے ہند کی سرزمین پر تشریف لاتے رہے ہیں۔ اسلام کے سب سے پہلے پیغمبر اور دنیا کے سب سے پہلے انسان اسی سرزمین پر جنت سے تشریف لائے۔ ساتھ ہی کائنات کی جان ، وجہ تخلیق کائنات ، کارخانہ قدرت کے عظیم شاہکار مصطفی جان رحمتﷺ کا نور بھی پیشانی آدم کے ساتھ سب سے پہلے ہندوستان آیا۔ یہاں مراد وہ ہندوستان ہے جس میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور ایک چھوٹا سا حصہ چین (جس حصے کو اکسائی چین کہا جاتا ہے ) اور اس کے ساتھ برما کا ایک چھوٹا سا حصہ ہندوستان میں شمار کیاجاتا ہے۔

علامہ عبدالرزاق بستر الوی تحریر فرماتے ہیں کہ ” حضرت آدم علیہ السلام سراندیپ (سری لنکا ) میں اور حضرت حوا جدہ میں اتارے گئے ۔ ( تذکرۃ الانبیاء، ص / ۶۰)
حسان الہند مولاناسید غلام علی آزاد بلگرامی (م۱۲۰۰ ھ ) رقم طراز ہیں : حضرت آدم علیہ السلام کی برکت سے ہندوستان میں جواہرات اور کانوں کا وجود ہے۔ کسی نے ہندوستان کا وصف بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے سمندر موتی ہیں، اس کے پہاڑ یاقوت ہیں ، اس کے درخت عود اور پتے عطر ہیں ۔ (شماعة العنبر مترجم : سید علیم اشرف جائسی طبع جائس / ۶۴)
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : ”ہندوستان کی زمین اس لیے عمدہ اور ہری بھری ہے اور عود قرنفل وغیرہ خوشبو اس لیے وہاں پر پیدا ہوتی ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام جب اس زمین پر آئے تو ان کے جسم پر جنتی درخت کے پتے تھے۔ وہ پتے ہوا سے اڑ کر جس درخت پر پہنچے وہ ہمیشہ کے لیے خوشبودار ہوگیا۔ ( تفسیر نعیمی ، جلد ا ص / ۲۸۴)
معلوم ہوا کہ ہندوستان سے ہمارا رشتہ عہد صحابہ، مجاہد اسلام محمد بن قاسم اور مغلیہ حکومت سے نہیں ہے؛ بلکہ یہ تو ہمارے باپ کی سرزمین ہے۔ اسلام کی بنیاد اور اساس کا رشتہ ہندوستان کی سرزمین سے اتنا مضبوط ہے کہ ہمیں اپنی حب الوطنی ثابت کرنے کے لیے شیو، وشنو شنکر اور پاروتی کو اسلامی پیغمبر کا درجہ دینے کی ضرورت نہیں؛ ہمیں اپنے آپ کو ہندوستانی ثابت کرنے کے لیے اسلامی تعلیمات و تاریخ کی دھجیاں اڑانے کی ضرورت نہیں؛ اپنے ہم وطنوں کو راضی کرنے کے لیے اللہ و رسول کو ناراض کرنے کی بھی حاجت نہیں؛ شنکر، شیو ، وشنو، پاروتی اور دوسرے ہندو دیوی و دیوتاؤں کو پیغمبر بنا کر ، اپنے ماں باپ تسلیم کرکے، اپنے آپ کو ہندوستانی ثابت کرکے کیا فائدہ؟ ہمارے ہندوستانی ہونے کی سب سے مضبوط دلیل یہ ہے کہ ہمارے جد امجد اور دنیا کے سب سے پہلے انسان اسی سرزمین پر جنت سے تشریف لائے ۔

مختلف تہذیبوں کا گہوارہ ہمارا یہ ہندوستان جنت نما ہے ، جہاں ہم صدیوں سے زندگی بسر کر رہے ہیں ، جسے ہمارے اکابر ہند نے اس عروج پر پہنچا یا کہ دنیائے انسانی نے اسے سونے کی چڑیا نام زد کر دیا اس کا واحد ثبوت ملک کے آزادی ہے ۔
چنانچہ محبتوں کی سرزمین ہندوستان پر مسلم حکمرانوں نے صدیوں تک حکومت کیں ، اسی اثنا میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ تن کے گورے من کے کالے انگریزوں نے تجارتی کمپنیوں کے بہانے ہندوستان پر قابض ہونا چاہا، اس وقت مسلم حکمرانوں میں نہ کوئی محمود غزنوی تھا اور نہ ہی کوئی اورنگ زیب عالمگیر جیسا بہادر بادشاہ نتیجتاً دھیرے دھیرے پورے ملک پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا۔ اقتدار مسلمانوں سے چھینا گیا تھا اس لیے فطرتا جو درد اور کرب مسلمانوں کو تھا دوسروں کو نہ ہوا۔ کیوں کہ انگریز مذہب کے بھی دشمن تھے اور جان کے کبھی؛ اس لیے انگریزوں کے خلاف مسلم قائدین نے صدائے انقلاب بلند کیا۔ اس ضمن میں مجاہدین اور بالخصوص علمائے کرام کی قربانیاں آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ مگر بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جن کا ملک کی آزادی میں دور کا بھی واسطہ نہیں وہ آج چند ایمان فروشوں کے سبب آزادی کے ہیرو بنادیئے گئے ہیں اور جن کی جائیدادیں ضبط کی گئیں ، جن کا گھر بار نیلام کیا گیا، جن کی لائبریریاں پھونک دی گئیں، جنھیں ملک بدر کیا گیا، جن کی زندگیوں کو کانٹوں سے زیادہ پر خار بنا دیا گیا، جنھیں جیل بھیجا گیا، جنھیں پھانسیاں دی گئیں، جنہیں خنزیر کی کھالوں میں سل دیا گیا، جن کی آنکھوں کے سامنے اُن کے گھر والوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا اور جنہوں نے تن من دھن کی قربانیاں دیں، ان سرفروشوں کو فراموش کر کے تاریخ ہند کی گردن کو الٹی چھری سے ذبح کیا جا رہا ہے۔ جب بھی آزادی ہند کی بات کی جاتی ہے تو بڑی صفائی سے جھوٹ ، فریب اور مکر سے انگریزوں کے ایجنٹ اور ملک وملت کے غداروں کو مجاہد حریت بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ایسا سفید جھوٹ بولنے والے تاریخ دشمن لوگوں کو حیرت بھی حیرت سے تکتی ہوگی۔ مگر یادر ہے جہاں کذب ہے وہی صداقت بھی ، جہاں دجل و فریب ہے وہی پیکر ان خلوص و وفا بھی ، جہاں جھوٹ کو سچ بنانے والے ہیں وہی جھوٹ کا پردہ فاش کرنے والے بھی۔
یاد رکھئے جنگ آزادی میں علماۓ کرام کی قربانیوں کے سلسلے میں تاریخ پر نظر ڈالی جاۓ تو یہ روز روشن کی طرح عیاں و بیاں ہوجاتی ہے کہ علماۓ کرام نے ملک ہندوستان کی خاطر جو قربانیاں دی ہیں اگر ان کو ذکر کرنے لگے تو ایک دفتر بھی کافی نہیں ہوگا؛ لیکن میں مختصرا آپ حضرات کے سامنے اس کا خلاصہ پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔
چنانچہ ہندوستان کی غلامی کا دورانگریزوں کی ہٹلر شاہی کا وہ بدنما داغ ہے جس سے تاریخ انسانیت کو کبھی نجات نہیں مل سکتی، دھوکے باز ظالم انگریزوں کی غلامی سے نجات پانے کے لئے مسلمانوں نے سب سے پہلے قد م آگے بڑھائے ۔ اور انگریزوں کو چھکے چھڑائے مسلم خواتین نے بھی ہندوستان کی آزادی میں اہم کردار نبھا ئے اور خواتین مردوں کے شانہ بشانہ چلتے ہو ئے اپنے تن من اور دھن کو مادر وطن پر ہنستے ہو ئے قربان کیا ہے ۔ یہ ایک صدی کی تاریخ مسلمانوں کی بے نظیر اور بے لوث قربانیوں سے بھری پڑی ہے جسے کبھی بھلایا نہیں جا سکتاخصوصاً اس احساس بلند ہمت ، بالغ نظر اور دور اندیش بہادر بادشاہ کو جسے ٹیپو سلطان کہا جاتا ہے جب اس نے دیکھا کے انگریز ہمیں آپس میں لڑا کر آندھی طوفان کی طرح سر زمین ہند کو روندتے ہوئے قبضہ کرتے جا رہے ہیں تو اس نے سو چا کہ اگر کو ئی منظم طاقت ان کے مقابلہ پر نہ آسکی اور اگر اسے بڑھتے ہو ئے سیلاب کو نہ روکا گیا تو وہ دن قریب ہے جب پورا ملک ان کی جھو لی میں ہوگا ۔ 
چنانچہ ! ٹیپو سلطان نے منظم طور پر انگریزوں سے معارکہ آرائی شروع کر دی انگریزوں کو بھی احساس ہو گیا کے ٹیپو سلطان ہی ایک ایسی چٹان ہے جسے راستہ سے ہٹایا جانا ضروری ہے اگر سلطان زندہ رہے گا تو ہم اپنے ناپاک ارادوں میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ چنانچہ سلطان کسی بھی حال میں انگریزوں کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے ، اپنی شجا عت ، دلیری و بہادری کے بل بو تے پر لڑتا رہا اس کا یہ قول مشہو رہے "گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے” ۔ آخر کار انہوں نے اپنوں کی غداری اور جنوبی ہند کے امراء کی انگریزی چا پلوسی کی وجہ سے یہ مجاہد بادشاہ ۱۷۹۹ ء کو سری رنگا پٹنم کے معرکہ میں شہید ہو گئے کاروان حریت کو نقوش راہ دے گیا اس کی نعش پر کھڑے ہو کر جنرل ہارس نے کہا آج سے ہندوستان ہمارا ہے ۔ بقول شاعر ! 

ٹل نہ سکتے تھے اگرجنگ میں اڑ جاتے تھے 
پاؤں شیروں کے بھی میدان سے اکھڑ جاتے تھے 
مجھ سے سرکش ہوا کو ئی بگڑ جاتے تھے 
تیغ کیا چیز ہے ہم توپ سے لڑ جاتے تھے 

تاریخ شاہد ہے کہ جہاں ملک کی آزادی کا بنیادی تصور مدارس نے پیش کیا، وہیں ا نگریزی تسلط کے خاتمہ کی قیادت علمائے کرام نے کی، تاریخ کے اوراق پلٹیئے تو ۱۷۶۷ء میں شاہ ولی اللہ کے بڑے بیٹے شاہ عبدالعزیز نے انگریزی حکومت کے خلاف جہاد کا بیج ہی نہیں بویا بلکہ۱۷۷۲ء میں جہاد کا فتوی بھی دیا،ایک قدم اور آگے بڑھئے ، توجانباز، شہید وطن اشفاق اللہ خاں پھانسی کے پھندوں کو بخوشی چومتے ہوئے نظر آتے ہیں ، اس وقت موجودہ لوگوں سے خدا حافظ کہتے ہوئے کہا کہ!

شہیدوں کی مزاروں پر لگیں گے ہر برس میلے
وطن پر مٹنے والوں کایہی باقی نشاں ہوگا
بہت ہی جلد لوٹے گی غلامی کی یہ زنجیریں
کسی دن دیکھنا یہ آزاد ہندوستاں ہوگا 

تحریک آزادی مختلف مراحل سے گذری ،اور ہر موڑ پر ہر طرح سے ہم نے مادر وطن کے لئے قربانی پیش کی ہیں، اس آزاد ملک کے جس چپہ پردیکھیں گے، اور جس اینٹ کو اٹھائیں گے، وہاں ہمارے خون کی مہک ہمارے بزرگوں کے گرم گرم آنسوؤ ں کی نمی اور ہمارے جیالوں کے ولولے اور عزم و حوصلے ملیں گے۔
آخر وہ کون سی قربانی ہے جو ہمارے علمائے کرام نے نہیں دی،جب بھی مادر وطن کو ضرورت پڑی توہم شاملی کے میدان سے جزیرہ انڈمان میں نظر آئے،کبھی ہم ریشمی رومال کی شکل میں نظر آئے،کبھی ہم زندوں کے اندر رہ کرپوری قوم کو انگریزوں کے خلاف برسر پیکار کیا،کبھی ہم مادر وطن کی آزادی کے لئے لندن اور امریکہ کا سفر کیا،کبھی ہم نے خون کا دریا بہایا،کبھی ہم مشرق ومغرب میں مادر وطن کی وکالت کی،کبھی بالا کوٹ کی پہاڑی پر چڑھ کرانگریزوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا،آزادی کی اس طویل ترین تاریخ میں ہماری بہنوں وعورتوں کو بے حرمت کیاگیا،املاک پر ڈاکہ زنی کی گئی، لاتعداد بچے یتیم ہوئے،بے شمار سہاگنوں کے سہاگ اجڑے، بستیاں ویران اور گاؤں بے چراغ ہوگئے،لاکھوں جانیں تلف ہوئیں،مالٹا کے زنداں خانوں میں بھی ہمارے صبر وضبط کا امتحان لیاگیا، پانی پت وشاملی کے میدانوں کو بھی ہم نے اپنے خون سے سیراب کیا، احمدنگر کے قید خانوں کو بھی ہم ہی نے اپنے عزم و حوصلوں کا نظارہ کرایا، بدنام زمانہ جیل ’’کالے پانی‘‘میں بھی ہم ہی نے سزائے قید کاٹی، جیل خانوں کے مصائب جھیلے،جلیانوالہ باغ کے خونی منظر سے بھی ہم گزرے ہیں،لاہور کی شاہی مسجد بھی ہماری قربانیوں کی شاہد ہے ،ایک ایک دن میں اسیّ اسیّ علمائے کرام کو پھانسی کے پھندوں پر لٹکایاگیا،دہلی کے چاندنی چوک سے لیکرلاہور تک کھڑا کوئی ایسادرخت نہں تھا جس پر کسی نہ کسی عالم کی لاش لٹکی نہ ہو، ایک ہندو مصنف نے لکھا ہے کہ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں تقریباً پانچ لاکھ مسلمانوں کو پھانسی کے پھندے پر لٹکایاگیا، گویاعلمائے کرام کی قربانیوں کو جتنا ذکر کیاجائے وہ کم ہے،برسوں کے خونی معرکوں،چمن کے سارے پھول وطن عزیز پر قربان ہو نے اور اور ان کے قائدانہ کردارکے نتیجہ میں فرنگی بھیڑیوں کے چنگل سے ملک آزاد ہوا؎

پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہیں
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہیں

ملک کی آزادی کے حوالے سے قربانیاں پیش کرنے والے مدارس اسلامیہ کے اکابر علمائے کرام کی خدمات کی ایک جھلک پیش کی گئی اور ”لذیذ بود حکایت دراز تر گفتیم“ کے تحت ذرا دراز نفسی کے ساتھ پیش کی گئی، حقیقت یہ ہے کہ علمائے کرام نے جہاد آزادی کے چمن کو اپنے خون جگر سے سینچا اور پروان چڑھایا ہے۔

یہ  ہیں  وہ  سورما،  وہ مجاہدہیں یہ، فیض سے جن کے یہ ملک آزاد ہے
انکو ہم بھول جائیں یہ زیبا نہیں، یہ وطن انکے احساس سے آباد ہے

ازقلم: محمد ریحان ورنگلی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے