تحریر:محمد قاسم ٹانڈوی
دین اسلام ایک کامل و مکمل اور اعمال و افعال کی ادائیگی میں میانی روی کو پسند کرنے والا وہ واحد دین ہے جو ہر موقع و مقام پر اپنے ماننے والوں کی بہترین طریقہ پر راہنمائ کا فریضہ انجام دیتا ہے اور دین و دنیا کی کامیابی و سرفرازی سے ہمکنار کرنے کا وعدہ بھی کرتا ہے.
ہمیں اپنی اس خوش نصیبی اور سعادت مندی کے حصول پر بارگاہ رب العزت سے بار بار شکر گزاری کی توفیق طلب کرنی چاہیے کہ اس نے ہمیں اپنے پسندیدہ دین و مذہب اور آخری شریعت کا پیرو اور متبع بنایا ہے، وہ دین جو ادنی سے ادنی موقع پر بھی اپنے ماتحتوں کو تنہا نہیں چھوڑتا بلکہ بھرپور انداز میں موقع محل کی رعایت کرتے ہوئے صحیح سمت اور منزل مقصود کی طرف رواں دواں رہنے کا حکم و اشارہ اور رہنمائی فرماتا ہے، یقینا وہ نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے۔
انسانیت کی بھلائی کی خاطر عطا کردہ اس دین مبین کی جہاں بہت ساری خصوصیات ہیں انہیں میں سے ایک بڑی خوبی ہمیں یہ نظر آتی ہے کہ اس دین میں کسی بات یا کسی مسئلہ میں پردہ نہیں رکھا گیا بلکہ جو بھی در پیش مسئلہ یا حکم ہو سکتا تھا اس کو کھول کر بیان کیا گیا اور گول مول یا مبہم انداز اختیار کرنے سے بچا گیا تاکہ کہنے والوں کو یہ موقع ہی نہ ملے کہ شریعت ہمارے اس مسئلے کو حل کرنے یا فلاں فلاں مسائل سے چھٹکارا دلانے میں ناکام رہی اور ہمیں درمیان راستہ میں تنہا و یکہ چھوڑ دیا گیا؟ عموما مسئلہ کی گہرائی اور اس کی اصل تہہ تک پہنچنے میں ہماری عقل کی رسائی اور علم کی کمی زیادتی کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے اور انہیں دو چیزوں پر انحصار کرتے ہوئے یہ بات کہی جاتی ہے کہ کبھی تو راستہ کی درست تعیین کی بنیاد پر ہم اصل مقصود تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور کبھی خود کو اس پُر پیچ راہ کا مسافر بنا بیٹھتے ہیں جس کا انجام و اختتام سوائے ہلاکت و بربادی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ہمیں چاہئے کہ ہم خود کو دین اسلام کی پاکیزہ چھاؤں اور مسلم تعلیمات کے زیر سایہ رہ کر خود کو ایک کامران و کامیاب انسان اور اس فانی دنیا کی کشمکش اور رنگینی میں گم ہوئے بغیر اپنی آخرت کو سنوارنے میں سرگرداں رہیں۔ اور اس بات کے تئیں خود کا جائزہ اور محاسبہ کرتے رہیں کہ کیا ہم اپنی ذات میں چھپے قدیم دشمن "نفس” کو خوش کرنے والا خودساختہ طریقہ تو اپنائے ہوئے نہیں ہیں، جس کا مقصد انسان کو بےراہ روی کا شکار بنا کر ہلاک و برباد کرنا ٹھہرا ہے؟کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان جن افعال و اعمال کی ادائیگی میں خود کو خوش فہم تصور کرتا ہے در حقیقت ان اعمال کا
سرا ذرہ برابر بھی قبولیت کی منازل سے نہیں ملتا اور انجام دی جانے والی تمام کاوشیں "ہَباءً منثورا” ہو کر رہ جاتی ہیں۔ اس لئے اعمال کی ادائیگی کے وقت خود کو اس راستہ کا پابند بنانا ضروری ہے جس کو اختیار کرنے کا ہماری شریعت مطہرہ نے ہمیں مکلف بنایا ہے اور امور دین و دنیا میں ہمیں اجازت دی ہیں۔
مگر شدت کے ساتھ دیکھنے میں یہ آ رہا ہے کہ زمانہ جیسے جیسے نبئ آخرالزماں صادق الوعد والامین حضرت محمد مصطفی (ﷺ) کے دور نبوت کی روحانی و رحمانی فضاؤں سے بعید تر اور فنائے دنیا (قیامت) سے قریب تر ہوتا جارہا ہے ویسے ویسے اس آخری مذہب، آخری شریعت اور اللہ کے پسندیدہ دین میں نئی نئی باتیں ایجاد کی جارہی ہیں، موقع بموقع اپنی مرضی اور اپنی پسند کو داخل دین اور شریعت کا حصہ بنانے کی بےمقصد کوششیں اورناکام جسارتیں کی جا رہی ہیں اور طرفہ تماشا یہ ہےکہ خود کو دیندار اور اولوالالباب کی کیٹیگری میں شمار کرانے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان منہیات و منکر کو اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتے دیکھ رہی ہے مگر نہ جانے کونسی مصلحت و حکمت ان کے پیش نظر ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ ان بےسود اور لغو باتوں کو ہوتے دیکھ کر بھی لب کشائی کی ہمت نہیں کرتے اور ماتحتوں و زیر نگرانی پروردہ اشخاص کو اوامر و منہیات کے جاننے میں عقل و فہم کا استعمال کرنے کی تاکید اللہ جانے کیوں نہیں کرتے؟ جس کا نتیجہ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سیدھے سادے عوام آنکھیں موند کر ان باتوں پر عمل پیرا ہو جاتے ہیں اور وہ اسی کو اصل دین گمان کر لیتے ہیں۔
عوام کی نادانی اور خواص کی چشم پوشی کا سب سے افسوسناک پہلو اس وقت سامنے آتا ہے جب دین متین کے یہ دشمن اپنی بےہودہ، فضول اور لایعنی باتوں کو سادہ لوح عوام کے مابین پیش کرتے ہیں اور یہ سادگی پسند لوگ ان بدعات و خرافات کو عقیدہ اور عبادت سے مربوط کر بیٹھتے ہیں جس کا واضح نقصان اور نتیجہ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ اصل مقاصد سے دور ہو جاتے ہیں، اور باری تعالی کی طرف سے ملنے والے وہ مواقع اور غنیمتی ماحول جس میں کسی بھی طور مشغول ہو کر فائدہ اٹھایا جا سکتا تھا، اپنی مغفرت اور بخشش کا سامان کیا جانا بہت سہل ہو سکتا تھا اور اپنے مرحومین کی مغفرت و بلند مراتب کے اسباب تلاشے جا سکتے تھے۔
افسوس صد افسوس…! امت کو سال بھر میں ایک مرتبہ میسر ہونے والی قیمتی رات اور اس کے بیش بہا لمحات جس میں اگر کوئی خوش نصیب و بامراد مشغول ہ
و کر اپنے لئے سال بھر خوشیاں، آرام و سکون، صحت و تندرستی، آسودگی و فراوانی کے حصول کی دعائیں اور بارگاہ رب کریم میں سر بسجود ہو کر التجائیں کرتا تو شاید بہت ممکن تھا کہ ایسا شخص اپنے مقاصد حسنہ میں بہت حد تک کامیاب ہو جاتا۔ مگر ناکام و نامراد ہو گیا ہر وہ شخص جس نے پوری رات شب گزاری کی اور دن بھر فاقہ کشی اختیار کی، مگر رسم و رواج کی ادائیگی، من گھڑت باتوں سے کنارہ کشی اور شرک و بدعت کی دلدل میں لے جانے والے اعمال سے توبہ نہ کی ہو۔
عجیب سا لگتا ہے جب یہ بات کہی اور لکھی جاتی ہے اور بہت سے احباب کو ناگوار بھی گزرتا ہے کہ: "کفر و شرک” کا انتساب ایک مسلمان اور کلمہ گو سے کیوں کر کیا جا سکتا ہے؟ تو انہیں اس موقع پر یہی سیدھا سا جواب عنایت کیا جاتا ہے کہ کفر و شرک کا تعلق صرف زبان سے انکار کرنے اور معبودان باطلہ کی پرستش کرنے سے ہی نہیں ہوتا ہے بلکہ اعمال و افعال کی ادائیگی میں نیت و ارادہ کی غلط آمیزش اور انداز طرق سے بھی اس کا پتہ چل جاتا ہے۔ جب اتنی بات مسلمات میں سے ہےکہ عبادات و ریاضیات خواہ نفلی ہی کیوں نہ ہوں ان میں وہی طریقہ افضل اور محمود و مقبول سمجھا گیا ہے جس کو رسول، اصحاب رسول، تابعین اور تبع تابعین کے اختیار کردہ اور طے کردہ اصول و ضوابط پر رہ کر انجام دیا جائے گا بصورت دیگر وہ مزعومہ عبادت، جس کو اس نے خواہشات نفسانی کی تکمیل اور اہل زمانہ کی دیکھا دیکھی انجام دی ہوگی وہ اس کے منھ پر مار دی جائے گی اور پہر دین و دنیا میں جاری ہونے والے بگاڑ اور فساد کی باز پرس بھی اسی سے ہوگی؛ تو اب کیا گنجائش رہ جاتی ہے کہ ایسا شخص جس کی پیدائش صدیوں بعد ہوتی ہے، اور اس کا منہج و مشرب سنت رسولؐ سے کوسوں دور، اصحابِؓ رسول کے باکل مخالف، صلحاء و فقہاءؒ کے متصادم اور علماء و اتقیاءؒ کے متضاد ہو پھر بھی اسے آئیڈیل اور نمونہ بنایا جائے اور ہٹ دھرمی کی انتہا کر دی جائے۔
آج کی اس تحریر کا مقصد و خلاصہ یہ ہےکہ آج (۱۴/شعبان) کے دن اور آج کی رات (۱۵/شعبان) کی رات جسے ہم اہل ایمان "شب برآت” کے نام سے جانتے ہیں، ہمارے مذہب نے نہ تو اس کو ایک مستقل تہوار کی شناخت دی ہے جس کی وجہ سے اس کو خوشی و مسرت میں مست ہوکر گزارا جائے؛ جیسا کہ ہمارا نوجوان طبقہ اس مبارک و مسعود رات کو مٹر گشتی اور لہو و لعب میں گزار دیتا ہے اور نہ ہی بالکلیہ اس کی فضیلت و برکات کا منکر ہو کر خود کو عطا الہی اور نوازشات ربانی سے محروم کیا جا سکتا ہے، اور نہ ہی دیگر خوشی کے مواقع کی طرح اس میں کسی طرح کی شدت و لزومیت برت کر اس کے متعلق جو فضائل و احکامات احادیث و آثار سے ثابت شدہ ہیں ان سے روگردانی برتی جا سکتی ہے؛ بلکہ افراط و تفریط کا شکار ہوئے بغیر اسی روش کو اختیار کرنا ہے جس پر حضرات صحابہ کرام اور مجتہدین دین کا تعامل رہا ہے۔
مگر فی زمانہ دیکھنے میں یہی آ رہا ہےکہ بعض احباب اور ایک خاص مکتب فکر کے حامل طبقے کے لوگوں نے ہمارے معاشرے پر ایسا قہر ڈھایا اور وہ ظلم رواں رکھا کہ اس طبقے اور فکر سے مطابقت رکھنے والوں نے اس اہم موقع کو بھی بس گھروں میں چراغاں کرنے، لیپا پوتی کرنے اور مساجد و معابد کو رنگ برنگے قمقموں سے سجانے کو اس کا حق واجبی اور پوری پوری رات سڑکوں روڈوں پر مٹرگشتی کرنے کو ہی اصل دین سمجھ رکھا ہے اور اس رات میں جو اہم ضروری کام کرنے تھے اور اس رات کے قیمتی لمحات سے جو فوائد و مراتب حاصل کرنے تھے وہ سب سرے سے فراموش کر دئے گئے.
آئیے بتاتے ہیں اس دن ہوتا کیا ہے؟
نماز عصر سے کچھ قبل نیا جوڑا زیب تن کیا اور پہر عصر مغرب کی نمازیں ادا کیں اس کے بعد خود ساختہ رسم و رواج کی ادائیگی کے واسطے تیار کئے جانے والے پکوان سے کچھ کھایا پیا اور نکل پڑے ٹکڑی ٹکڑی راستوں پیڑوں کی طرف، اب کہیں تو ٹھیلوں پر کھڑے کھڑے وقت ضائع کیا جا رہا ہے اور کہیں جلسے جلوس میں شمولیت کرکے دین کے نام پر وقت اور پیسے دونوں برباد کئے جا رہے ہیں (شکر ہے اس سال ملک گیر حکومتی ‘لاک ڈاؤن’ کے سبب ان چیزوں سے امت کا کوئی واسطہ نہیں رہےگا) حالانکہ اتباع سنت اور عبادت و ریاضت میں وہی طریقہ افضل ہے جو اصحاب رسول اور ائمہ دین کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق ہوگا اس لئے اس رات جس کو شب برات سے موسوم کیا گیا ہے اس کے مقاصد و مفاہیم سے کما حقہ فائدہ اٹھانے اور اپنی دنیا و آخرت کو آباد کرنے کےلئے وہی سب اصول و ضوابط اختیار کرنے کی ضرورت ہے، جو منقول صحابہ ہیں، یہی ہمارے دین اسلام کی خوبی ہے اور اسی میں اہل ایمان کی سرخ روئی ہے۔
باقی جو طریقہ اور راستہ بھی دور نبوت و اصحاب رسول اور خیر القرون سے جدا ہوگا باطل ہوگا ناقابل منظور ہوگا اس لئے کہ ہمارے لئے اسوہ نبیؐ اور اسوہ صحابہؓ معیار و پیمانہ قرار دئے گئے ہیں، اور اسی طے شدہ امر کے تحت کہا جاتا ہےکہ
"ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم تک لے جانے والی ہے”
آخر میں ایک مرتبہ پھر ہم اپنی بات کو دہراتے ہوئے کہیں گے کہ
"اس مبارک و مسعود رات میں خلافشریعت اور اسوہ نبی اور اسوہ صحابہ سے ہٹ کر جو لوگ بھی دین کے نام پر بدعات و خرافات کو انجام دینے اور مختلف رسم و رواج کو نبھانے میں خود کو مشغول کرتے ہیں یا نوجوانوں کا وہ طبقہ جو پوری پوری رات بائک اسٹنگ کرنے اور روڈوں پر مٹرگشتی کرنے میں یوں ہی وقت گزار دیتا ہے، انہیں تھوڑا غور و فکر کرنا چاہیے اور خود کو ایک ذمہ دار شہری ہونے کے ساتھ ساتھ دین و مذہب
کا سچا پیروکار اور عاشق رسول ہونے کا بھی ثبوت دینا چاہئے؛ بصورت دیگر اس رات کی تمام کد و کاوش اور جدوجہد منھ پر مار دی جائیں گی اور پہر بوقت حساب و کتاب کف افسوس ملنے کے ہمارے پاس کچھ نہ ہوگا”
اللہ پاک ہم سب کو عقل و فہم سے نوازتے ہوئے ہر طرح کی بدعات و خرافات سے حفاظت و صیانت فرمائے اور اس مبارک رات کے لمحات سے بھرپور فائدہ اٹھانے والا بنائے؛ آمین ثم آمین