گیان واپی مسجد معاملہ

بابری مسجد کے بعد فرقہ پرست طاقتوں کی ساری توجہ ان دنون گیان واپی مسجد کی طرف ہے، اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی نے ایک بیان میں گیان واپی مسجد معاملہ کو مسجد کہنے سے بات بگڑنے کی بات کیا کہہ دی کہ میڈیا نے اسے صرف گیان واپی بولنا اور لکھنا شروع کر دیا، حد یہ ہے کہ ہمارے کئی اردو اخبار والوں نے بھی مسجد کا لفظ حذف کر دیا، سوشل میڈیا پر صرف گیان واپی گشت کر رہا ہے، حالاں کہ وہ مسجد ہے اور قیامت تک مسجد رہے گی۔
اس مسئلہ کو گرمانے کی پوری کوشش فرقہ پرست طاقتیں کر رہی ہیں، پہلے مسجد کے فوارے کے لیے استعمال لوہے کے ایک نلکے کو شیو لنگ کہہ کر بات بڑھائی گئی، مسجد کے وضو کے لیے حوض پر اس بہانے پابندی لگائی گئی، 21جولائی کو وارانسی کی ضلعی عدالت نے گیان واپی مسجد کمپلکس کو اے ایس آئی سروے کا حکم دیدیا، مسلم فریق الٰہ آباد ہائی کورٹ پہونچا، عدالت نے اس موضوع پر سماعت مکمل کرکے 27جولائی کو اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا، بعد میں ورانسی ضلع جج کے فیصلے کواس نے باقی رکھا اور مسلمانوں کی عرضی کو خارج کر دیا، اے ایس آئی کو بھی عجلت تھی، اس لیے اس نے 4اگست سے ہی سروے کا کام شروع کر دیا، مسلم فریق نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا، چیف جسٹس ڈی وائی چندر چور نے اس پر غور کرنے اور سماعت کی تاریخ مقرر کی اورالٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو اس شرط کے ساتھ بر قرار رکھا کہ موجودہ عمارت کو سروے سے کسی قسم کا نقصان نہیں پہونچنا چاہیے۔ اے ایس آئی نے سروے کا کام سپریم کورٹ سے عرضی خارج ہونے سے پہلے ہی شروع کر دیا تھا، جو مسلسل جاری ہے، اے ایس آئی نے ابھی کوئی رپورٹ جاری نہیں کی ہے، لیکن فریق مخالف روز نئی نئی افواہیں گڑھ رہا ہے کہ ستونوں پریہ ملا،تہہ خانے میں یہ ملا، مسلم فریق نے وارانسی ضلع کوٹ میں ایک عرضی یہ بھی لگادی تھی کہ سروے کے کام سے میڈیا کو دور کھا جائے، اور افواہوں پر روک لگائی جائے،وارانسی ضلعی عدالت نے اس پر اپنا فیصلہ صادر کر دیا ہے اور اے ایس آئی افسران کو ہدایت دی ہے کہ سروے کی بات کسی کو نہیں بتائیں، البتہ سروے پر روک کی دوسری عرضی پر ابھی فیصلہ آنا باقی ہے۔
یہ در اصل عدالت اور رائے عامہ کو متاثر کرنے کی گھٹیا کوشش ہے، جو لوگ فوارے کو شو لنگ کہہ سکتے ہیں، ان کے لیے کچھ بھی نکالنے کا دعویٰ کرنا ذرا بھی مشکل نہیں ہے، بلکہ کیا بعید کہ خود ڈال کر رپورٹ میں لکھوادیں کہ یہ یہ چیز ملی اور عدالت اسے ثبوت کے طورپر مان لے، اس درمیان الٰہ آباد ہائی کورٹ نے گیان واپی مسجد میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی کی عرضی کو خارج کر دیا ہے، یہ عرضی راکھی سنگھ نے دائر کی تھی، عرضی کی سماعت چیف جسٹس پرتینیکر دیواکر اور جسٹس آشوتوش سریواستو نے کی اور اسے نا قابل سماعت قرار دیا، فرقہ پرست طاقتیں اس مسئلہ کو اس قدر گرما نا چاہتی ہیں کہ ہندوؤں کے جذبات بھڑکیں اور ہندووٹوں کو متحد کرنے کے لیے اسے حربہ کے طور پرآئندہ انتخاب میں استعمال کیا جا سکے۔
لیکن جس طرح اسے موضوع بحث بنایا جا رہا ہے اور وزیر اعلیٰ اتر پردیش گیان واپی کے لیے مسجد لفظ کے استعمال سے گریز کرنے کا مشورہ دے رہے ہں،اس سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حجت تمام ہوجائے گی اور ملک کو یہ باور کرایا جائے گا کہ انصاف کے تمام تقاضے پورے کرنے کے بعد ہی گیان واپی مسجد کے بارے میں فیصلہ سنایا گیا ہے۔

تحریر: محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے