مظلوموں کے مسیحا تھے گلزار اعظمی

مظلوموں کے مسیحا ، رات دن کڑی محنتوں سے جیلوں میں قیدو بند کی صعوبتیں جھیلنے والے بے گناہ مسلمانوں ، جھوٹھے الزامات کے تحت برسوں سنگھی حکمرانوں کےظلم واستبداد کا شکار ہونے والے نوجوانوں کو قانونی امداد بہم پہچا کر جیل کی کربناکی سے آزادی کرانے والے وعزم واستقلال کے چٹان بن کر میدان میں ڈٹے رہنے والے مردے مجاہد ، جمعیة علماء ہند کی قانونی امداد کمیٹی کے روح رواں قوم وملت کے بےلوث خادم جناب گلزاراعظمی صاحب آج خود بھی اس فانی دنیا کے جھمیلوں سے آزاد ہو گئے

قحط الرجال کے اس دور میں جہاں ہر طرف خوف کا سناٹا ہے انسانیت کے غم کو اپنا غم سمجھنے ، اور مظلوموں کی دادرسی کرنے ، اور مظلوموں کی ہر طرح امداد ونصرت کے ذریعہ ان کی زندگی کو گلزار کرنے والے کم یاب نہیں بلکہ نایاب ہوتے جارہے ہیں
بلاتفریق مذہب ومسلک محض انسانیت کی بنیادپر اپنی بے لوث خدمات سے نہ جانے کتنے گھروں کو گلزار بنایا اورغم اندوہ میں بے شمار گھروں میں خوشیاں بکھیرتے رہے ، مایوسی کے گھپ اندھیروں میں گلزار اعظمی صاحب بہتوں کےلئے امید کی ایک کرن بن گئے تھے
ملک کے مختلف صوبوں وریاستوں میں جاری مقدمات پر گہری نظر رکھتے تھے اوردہشت گردی کے جھوٹے الزامات میں قید بے گناہ مسلمانوں کے مقدمات کی بہترین وکلاء کے ذریعہ اتہائی کامیاب پیروی کے لئے ہمیشہ کوشاں رہے
گلزار اعظمی صاحب کو ان کی ملی سماجی خدمات کے اعتراف میں راشٹر واد کانگریس پارٹی کے قومی صدر جناب شرد پوار صاحب نے مولانا ابوالکلام آزاد کے یوم پیدائش پر غالبا 2018 میں ایوارڈ سے بھی نوازا تھا،
یہی نہیں بلکہ ان کی خدمات کا اعتراف میں انھیں
روزنامہ انقلاب کے طرف سے انقلاب ایوارڈ کیٹگری ”کفالت و خدمات ” سے بھی نوازا جا چکا ہے
جناب گلزار احمد اعظمی کی جمعیة العلماء کے پلیٹ فارم سے سے کیجانے والی ان کی جلیل القدر خدمات کو کبھی فراموش نہی کیا جا سکتا، وہ ایک سچے بے لوث خادم قوم وملت کے ہمدرد وبہی خواہ ،اورایسے سماجی ملی راہنما تھے جنھوں نے ملک کی قیادتوں کو ایک نئی سمت دکھائی ،
مظلوموں کو انصاف دلانے کےلئے جن کی قانونی جد وجہد نے ہزاروں لوگوں کو خوشحالی سے ہم کنار کیا اور انصاف کی راہ ہموار کی

مظلوموں کے مسیحا تھے گلزار اعظمی
ٹـوٹے دلـوں کی آس تھے گلـزار اعظـمی

اللہ تعالیٰ مرحوم کی بال بال مغفرت فرماے اور متعلقین واقارب کو صبر جمیل عطا فرماے، اور ملک وملت کو ان کا نعم للبدل عطا فرمائے

ازقلم: محمد عظیم فیض آبادی جامعہ محمود دیوبند

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے