تحریر: شاہ خالد مصباحی سدھارتھ نگری
قارئین
ہر لحاظ سے ملکی سیکولیزم، جمہوریت، اور آئین چارہ جوئی کے مد نظر یکسانیت اور مساوات کی باتیں کرنے والے ، بنظر شما ذہن و دماغ کو اپنی باتونی شکنجے میں کشنے کی ہنر یابی ، ضرورت کے وقت فائداتی چال بازیاں ، یہ صرف اور صرف ہمارے امیدوں کا خون کرنے کے لیے آتی ہیں
یعنی شطرنج کے ہر پہلو کی کسوٹی پر رکھ کر ہم سب نے لیڈران وطن کو پرکھا لیکن یہ سب اپنی مقصداتی معاملات کی انجام تکمیل کے بعد یہ یوں ہی مکر گئے جیسے کوٹھے پر بیٹھی ملکہ کا اپنی ضرورت و خواہشات کے وقت اک گدھے کی بھی ملکن بننے میں ذرہ برابر بھی گھسگھساتی نہیں لیکن یاد رکھیں!! پھر بھی وہ اس گدھے کی نہیں ہوتی
قارئین!! لب و لہجہ تھوڑا سخت ہے لیکن برداشت کریں کیونکہ ان کی تاریخ اتنی گندی ہوچکی ہے کہ اس گھناؤنی مثال سے بھی اتم و اصح منظر کشی نہیں ہوپا رہی ہے _ اور ضرورت تھی کہ اس سے زیادہ ترش طرزبیان کا انتخاب کیا جاتا ، لیکن
"صرف عقل پیش زناں برباد شود "
قارئین دوستوں!! ہم عام انسانوں کو نان شبانہ کے سوا کیا چاہیے اور عموما ہر کس و ناکس کو اپنے ایڈلٹی کے اعتبار سے صرف اسی کی فکر لاحق ہوتی ہے
لیکن ہر صبح کوا اپنی عادت پر قائم رہتے ہوئے اپنی چتر پنتی کا اعلی نمونہ پیش کرتا رہا اور اپنی چالبازی کی فکر میں غیروں کو بیقوف سمجھتا رہا کیونکہ اسے خود کو اس بات کا
حتمی احساس نہیں کہ اس سے بد تر قوم کی تخلیق روئے زمیں پر ہوئی ہی نہیں جو اپنے احساسات کو خود بیچ کر دوسروں کے احساسات کا بھید بھاو کرے
حالیہ ستر سالوں سے ملکی انتخابات کا رویہ ہم عوام کے ساتھ بس ایسا ہی طرز اپناتے ہوئے چلا آرہا ہے جو دوران انتخابات ملک_کا_بیٹا_قوم_کا_نیتا کہہ کر لمبی لمبی گولیاں دے کر بھولی بھالی ایک سو تیس کروڑ سے زائد عوام کے آرزوں پر آرزوئیں باندھے رہنے کا سپنا دیکھاتے رہتے ہیں اور یہ بے چاری عوام بھی ایک سموسے اور چائے ،پان پر خود کو بیچ کر سالوں بھر فاقہ کشی کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے
اور اب بڑی چابک دستی سے یہی قوم کے بیٹے اپنے منزل مقصود ، کرسی اقتدار پر پہونچنے کے بعد اپنی راج نیتی کے پس پرد اصل حقائق کو بھول کر پولیس کی لاٹھیاں ، گالیاں انہی پر برسواکر ان کے ہی آرزوں کا خون خرابہ کرکے ان کے ہی روشن مستقبل کی فکر کرنے لگتے ہیں
جو عجب فلسفیانہ چال بھری گندی سیاست ہے ۔ جو نہ آج صرف ملک کی معاشیات کو لے ڈوبی بلکہ جملہ افراد وطن کو موت کے کھونٹے میں باندھ رکھا ہے اب جو ہوا
جہاں ہوا، کیسے ہوا ، کیوں ہوا کے سوالات و اعتراضات ملکی باشندے سے رفع ہو گیں کیوں کہ اب ان سارے خطرات کے پیش و پس میں جان کا بچاو ہی ہم ہندی کے لیے سب سے قیمتی تحفہ ہے
قارئین!! آپ سوچ سکتے ہوں کہ ملک کی جی ڈی پی سے لے آر بی آئی بینک تک کا ہر گوشہ اب افراد وطن پر مہاماری کی آڑ میں بھوک مری کا الارم بجا رہا ہے
کوئی ایسا شوشہ ، گوشہ نظر نہیں آرہا ہے جس کے ذریعہ ارض وطن پر خیر سگالی کی امید باندھی جا سکتی ہوں —- ویسے خدا خیر کرے ۔
اور جہاں ہم گزرے ہوئے سالوں سے وسائل معاشیات کی بربادیاں ، منشیات کی آزادیاں ، لیڈران کی بے راہ رویاں ، منمانیاں دیکھتے ہوئے چلے آرہے ہیں وہیں پر ہم ملک کو بھوک مری کی ایک سو ساتوے منزل پر پہونچنے کے قصے بھی ، ہم افراد وطن کے گوش گزار رہی ہیں
لیکن ہم ایسے حالات میں بولتے ہی کیا جب کسی نہ کسی سوگ ماحولیات کے واقعات کی کیسیڈ اون کر دی جاتی تھی – خوشی و غمی کو یکجا کردیا جاتا تھا — اور انسانی فطرت کا یہ تقاضہ بھی رہا ہے کہ غموں کے پلوں کی طرف اکثر رجحانات قائم رہتے ہیں
قارئین!! اس شرخیوں کے تئیں آپ اک بار نظر دوڑائیں ملک کی پانچ سالہ بیتی تاریخ پر جب بھی ملک کو تباہی و بربادی کی طرف دھکیلا گیا ہے ، ملک کی پراپرٹی کو لوٹا اور افراد وطن کو کنگال کیا گیا ہے تو اپنی ناکامیاں ، اور چو ر عیبوں کو چھپانے کی خاطر ملک کی چالیس نوجوان اور روشن مستقبل کے ساتھ اچھا کھیل کھیلا گیا ، اور ملک پاکستان کو ہیڈ لائن پر رکھ کر
اپنی گندی سیاست کی عمر میں اضافہ کیا گیا ہے ۔
یعنی پورے منصوبہ بند طریقوں سے ملک کو اس تباہی کے دہانے پر لا کڑ کھڑا کیا جارہا ہے جو ملکی حالت سے واقفیت رکھنے والوں سے اوجھل نہیں
2018 کی روایت کہ ہر روز سات ہزار ہندوستانی بھوک مری کی شکار ہوتی رہی اور ملک کی 35 % آبادی بغیر کھائے پیئے سونے والوں کی تعداد میں شب و روز اضافہ ہورہا ہے __جو رکا اور تھما نہیں ہے ۔
قارئین!!! ملک کی موجودہ درد بھری حالت کو دیکھ کر اتر پر دیش کے ضلع مہراج گنج کھرکیا کا، پپو کا وہ بھوک مری سانحہ یاد دلا رہا ہے — کہ جس میں ان کے چھوٹے بھائی فیکو نے یہ دھاڑ لگا کر وزیر اعظم کا کلیجہ چیر دیا تھا کہ "””سی ایم جی میرا بھائی بھوک کی وجہ سے مرگیا ہے برائے کرم میری حفاظت فرمائیں”” کہ کہی ایسا نہ ہو کہ میرا جسم بھی بھو ک اور پیاس کی شدت سے بے جان ہوجائے ( ستمبر 2018)
بالیقیں آج ہر فرد وطن اس جھجھک کو محسوس کررہا ہے کہ کون جانے _؟
کب؟ اس ارض وطن پر ہم بے بسی و لاچاریوں کی زنجیروں میں جکڑ جائیں ۔
اور درد بھری بات یہ ہے کہ اس سفید نگری میں ہمارے پریساں حال پر کوئئ لب کشا ئی کرنے والا بھی نہیں ملے گا
ہم ببک ببک کر اپنی آشیانوں کی طرف بڑھیں گے ، ہمارے عزائم بھٹک بھٹک کر زندگی کی آرزوں کو قدموں تلے روندیں گے ، اور ہم گھٹک گھٹک کر اپنی سفر حیات کی تکمیل کریں گے _ لیکن کسی کے زبان پر بھی مرہم زخم نہیں ہوگا
انسانیت اور رحم دلی سے گری ہوئی فرقہ پرستی ہی میں ان کی زندگی کا سارا مقصد چھپا ہوا ہوگا
کیا_دیکھا_نہیں_آپ_نے؟
یہ سارے منظرات کہ لاک ڈاون کے بعد ملک کا غریب ، مزدور، لاچار طبقہ ، اپنے گھروں سے دور جاکر جو بسے ہوئے تھے ، جب وہ اپنے آشیانوں کی طرف چلیں ۔ تو قدم_بے_ریگ_تھے ، جسم_بے_حال_تھی ، زبان_بے_قال تھی حتی کہ آپ کو جان کر بہت ہی دکھ ہوگا کہ آج کی ہندوستان ٹائمز نیوز کے اعتبار سے 35 افراد وطن جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے لیکن کسی بھی اینکر کے زبان دلالی ، اور غیرت جفاواری پر ذرہ برابر بھی رحم نہیں آیا _ کہ ان گدا نشینوں، ملکی طاقت پر قابض سیاستدانوں سے سے ذرا باز پرس کرے
اور بالائے ایں ان کے لہو سے بھی مذہبی سیاست کھیل بیٹھے
برآں روش ایک بار پھر اپنی ناکامیوں کو چھپاتے ہوئے ، تبلیغی جماعت کا سہارا لیتے ہوئے ملک کی فضا میں پھر بغض و عنا کا رس گھول دیا
اور اب ہمیشہ یہی گلہ دار رہے گا کہ
بہتے ہوئے لہو کا قصاص اب نہیں ملنے والا
اللہ وطن عزیز کی حفاظت فرما آمین