انسانی ارواح کا پہلا وجود ”عہد الست“ میں ہوا، جب اللہ نے تمام قیامت تک آنے والی روحوں کوحضرت آدم علیہ السلام کے پشت سے وجود بخشا اور اس سے ایک سوال کیا کہ ’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ساری روحوں نے اس بات کا اقرار کیا کہ آپ ہمارے رب ہیں، سورہ اعراف کی آیت نمبر 172 میں اللہ رب العزت نے اس کا تذکرہ کیا ہے اور پھر فرمایا کہ یہ شہادت اس لیے لیا تاکہ قیامت میں یہ نہ کہنے لگوکہ ہمیں تو اس کی خبرہی نہیں تھی، ”عہد الست“ کے بعد یہ پھر لوٹا دی گئیں، چنانچہ ان روحوں کو حسب خاندان، حسب قبیلے، حسب مذہب جن میں زن وشوہر کے تعلق سے آنا تھا، وہ روحیں اسی ترتیب سے دنیا میں آتی ہیں اور آئندہ بھی آتی رہیں گی، یہ ارواح جب دنیا میں جسم کے ساتھ وجود پذیر ہوئیں تو ہر دور میں اللہ رب العزت نے اس عہد کو یاد کرانے کے لیے کہ آپ ہمارے رب ہیں، انبیاء ورسل کو بھیجا، بعض کو کتابیں دیں اور بعض کو صحائف دیے، تاکہ انسانوں پر حجت تام ہو، سب سے آخر میں آقا ومولیٰ فخر موجودات سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور قیامت تک کے لیے اس سلسلہ کو ختم کردیا، کتاب ہدایت قرآن کریم کی شکل میں دیا اور اسے رہتی دنیا تک کے لئے دستور حیات بنا دیا، انبیاء ورسل کے سلسلے کے ختم ہونے کے بعد علماء کو وارث قرار دیا تاکہ وہ انسانوں کو عہد الست کی یاد تازہ کراتے رہیں اور لوگ اس ڈگر پر قائم رہیں جو اللہ ورسول کے حکم وہدایت کے مطابق ہے، کوئی اس آزمائش میں پورا اترتا ہے اور کوئی ناکام ہوجاتا ہے، ہر ایک کی مدت حیات پوری ہوجاتی ہے اور موت کا پیالہ پی کر انسان دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے، جو لوگ نیکوکار ہیں، ان کے لیے موت اللہ کا تحفہ ہے، جو فرشتے ایمان والوں کے پاس لے کر آتے ہیں اور اطمینان وسکون سے اس کی روح کو لے کر جاتے ہیں، وہ چوں کہ پوری زندگی رب کو خوش کرنے کے لیے ہی کام کرتا رہا ہے، اس لیے اپنے رب کی طرف لوٹنے پر خوشی ومسرت محسوس کرتا ہے اور اس کے ہونٹوں پر تبسم کی لکیریں کبھی مرئی اور کبھی غیرمرئی انداز میں پھیل جاتی ہیں، سامنے والا کبھی دیکھ کر اس کا ادراک کرلیتا ہے اور کبھی نہیں بھی کرپاتا ہے، اسی بات کو اقبال نے نشان مرد مومن قرار دیا ہے کہ ”چوں مرگ آید تبسم برلب اوست“ جو انسان بدعملی، بے عملی میں مبتلا ہوتا ہے اور اللہ کی مرضی کے خلاف زندگی گذارتا ہے اس کے لیے یہ مرحلہ بڑا پریشان کن ہوتا ہے اور موت کے وقت ہی سے اس پر عذاب کی کیفیت طاری ہوتی ہے اور وہ اپنے خالی جسم کو چھوڑنے اور اس کائنات سے دور جانے کو تیار نہیں ہوتا، بالآخر موت اپنا کام کر جاتی ہے اور اس کی روح بدبو دار کپڑے میں لپیٹ کر سجین کے لیے روانہ کردی جاتی ہے۔
پھر بے جان جسم کو قبر میں منتقل کیے جانے کے بعد جب لوگ دفن کرکے لوٹتے ہیں تو منکر نکیر سوالات کے لئے قبر میں آتے ہیں،اس وقت روح اور جسم کا ایک ایسا رشتہ قائم ہوتا ہے جس کو سمجھنے سے ہماری عقل قاصر ہے، اگر انسان نیک ہے، منکر نکیر کے سوال کا جواب بآسانی دے دیا تو جنت کی کھڑکیاں کھول دی جاتی ہیں اور وہ قبر میں سکون محسوس کرتا ہے اور اللہ کی رحمتوں سے مستفیض ہوتا ہے اور اگر گناہگار ہے تو فرشتوں کے جوابات صحیح دینے پر قادر نہیں ہوتا اور فرشتے گرز سے خبر لیتے ہیں، قبر اس قدر تنگ کردی جاتی ہے کہ ایک طرف کی پسلی دوسری طرف داخل ہوجاتی ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کے عذاب سے پناہ مانگنے کی تلقین کی ہے اور فرمایا کہ قبر جنت کے باغوں میں ایک باغ ہے یا جہنم کے گڈھوں میں سے ایک گڈھا، نیکوں کو فرشتے کہتے ہیں ”نم کنومۃ العروس“ اطمینان سے دلہن کی طرح سوجاؤ، تمہارا رب تم سے راضی ہے اور بدبختوں پر مختلف قسم کے عذاب ان کے گناہوں کے اعتبار سے قبر میں ہی مسلط کردیے جاتے ہیں اور جہنم کی کھڑکی سے آنے والی گرم ہوائیں جسم کوجھلستی رہتی ہیں اور روح وجسم کے نامعلوم رشتوں کے ساتھ وہ عذاب کی شدت المناکی اور کرب کو جھیلتا رہتا ہے، قبر اور قیامت کے حساب کتاب تک کے فاصلے کو برزخ کہتے ہیں، برزخی معاملات کے لیے قبر کا ہونا ضروری نہیں ہے، اصل معاملہ تو روح کا ہے اور جسم فنا ہونے کے باوجود روح فنا نہیں ہوتی، اس لیے یہ سوال بے محل ہوگا کہ جن کو قبر نہیں ملتی ان کا کیا ہوگا؟ سوال وجواب ان سے بھی ہوگا اور کیا بعید ہے کہ اللہ رب العزت قبر نہ ملنے کے باوجود مردہ کے جسم سے روح کا رشتہ قائم کرکے سوال وجواب کے مراحل سے گذاردے اور اسی کے مطابق اس کے ساتھ معاملہ کیا جائے، لیکن کفن اور قبر کا ملنا بھی بڑی بات ہے، اِسی لئے ان دنوں بعض بزرگوں کو یہ دعا کرتے بھی پایا کہ اے اللہ! کفن اور قبر نصیب فرما۔
عالم برزخ میں یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا، اسے اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا، کیوں کہ اللہ نے اس کا علم اپنے پاس محفوظ رکھا ہے، بہرکیف اسرافیل علیہ السلام صور پھونکیں گے تو یہ دنیا تہس نہس ہوجائے گی، آسمان روئی کے گالوں کی طرح اڑنے لگیں گے، زمین پھٹ جائے گی اور جو کچھ اس کے اندر ہے سب باہر پھینک دے گی، ایک زمانہ تک یہی حالت رہے گی، پھر دوسرا صور پھونکا جائے گا تو مردے قبروں سے باہر نکل آئیں گے اور سب میدان حشر میں جمع ہوں گے، سورج سوا نیزے پر ہوگا، گرمی کی شدت وحرارت انسانوں کو پسینے میں شرابور کردے گی اور ہر آدمی اپنے گناہوں کے بقدر پسینے میں ڈوبا ہواہوگا، ہر طرف نفسی نفسی کا عالم ہوگا،ا لعطش العطش یعنی پیاس، پیاس کی آواز گونج رہی ہوگی، آقا صلی اللہ علیہ وسلم حوض کوثر پر ملیں گے اور جو لوگ نیکو کار ہوں گے ان کی پیاس بجھائیں گے، اور جس نے دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی ہوگی اس کو دور بھگائیں گے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی بارگاہ میں حساب وکتاب شروع کرانے کی سفارش کریں گے، سجدے میں جائیں گے، گڑگڑائیں گے، التجا کریں گے، بالآخر میزان قائم ہوگا، اعمال تولے جائیں گے، پل صراط سے گذارا جائے گا، جن کا نتیجہ اچھا ہوگا، ان کا نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا، جن کا نتیجہ بُرا ہوگا انہیں نامہئ اعمال بائیں ہاتھ میں تھمایا جائے گا، وہ خواہش کرے گا کہ کاش ہمیں نامہئ اعمال نہ تھمایا جاتا، یہ وہ لوگ ہوں گے جو دنیاوی زندگی میں مگن تھے، ان کو حساب کتاب کا یقین نہیں تھا، وہ مال ودولت، جاہ ومنصب کو ہی سب کچھ سمجھتے تھے، آج کے دن انہیں کچھ کام نہیں آئے گا، اس دن بھائی بھائی سے، ماں باپ اور بیوی شوہر سب ایک دوسرے بھاگتے پھریں گے، ہر ایک پر نفسانفسی کا عالم طاری ہوگا، نامہئ اعمال کے اعتبار سے چہروں پر مسرت اور مایوسی پسری ہوگی، ان مراحل سے گذرنے کے بعد جنت اور جہنم میں دخول ہوگا، ایمان والے گناہگار کُٹائی اور گناہوں کی کثافت کی جہنم کی بھٹی میں دھلائی کے بعد بالآخر جنت میں داخل کیے جائین گے اور جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت پر انہیں جہنم سے نکال کر جنت میں ڈال دیا جائے گا، پھر اللہ رب العزت ان لوگوں کا جن کے ایمان کا علم صرف ذات اقدس کو ہوگا کثیر تعداد میں اپنی قدرت کاملہ سے جنت میں داخل کر دیں گے، پھر جنتی ہمیشہ ہمیش کے لیے جنت میں رہیں گے اور جہنمی ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم میں موت کو بھی موت آجائے گی۔
حیات ما بعد الموت کا یہ خلاصہ ہے، جو قرآن کریم اور احادیث مقدسہ میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، اہل علم نے ضخیم کتابیں اس پر تصنیف کی ہیں، سب کا خلاصہ یہی ہے کہ ہمیں اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا چاہیے، اور مال ودولت عز وجاہ کے چکر میں آخرت کو نہیں بھولنا چاہیے، یہ فکر آخرت ہی ہماری زندگی کو درست راستے پر ڈالتی ہے او رجزا وسزا کا تصور ہی خوف خدا کی شاہ کلید ہے، اسی لیے ایمانیات میں یوم حشر ونشر اور قیامت کو بھی شامل کیا گیا ہے تاکہ ہماری زندگی بیلنس، معتدل اور متوازن رہے۔ اللہ رب العزت نے سورۃ تکاثر میں اس کا ذکر کیا ہے، جس خلاصہ یہ ہے کہ انسانوں کو لالچ اور حرص نے غافل کر رکھا ہے، یہاں تک کہ وہ قبر کو جاپہونچتا ہے، وہ جان لے گا اور یقینا جان لے گا، وہ ضرور دوزخ کو دیکھے گا اور اس ے نعمتوں کے متعلق بھی سوال کیا جائے گا۔قرآن کریم کی ایک دوسری آیت میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن ہر انسان جس نے تھوڑی نیکی کی ہوگی، اسے بھی دیکھ لے گا اور جس نے تھوڑی بھی بُرائی کی ہوگی، اسے بھی دیکھے گا، اور حسرت سے کہے گا کہ یہ کیسا رجسٹر ہے، جس نے چھوٹے بڑے ہر اعمال کا لیکھا جوکھا رکھا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کی بُرے کاموں سے حفاظت فرمائے اور اپنی مرضیات پر چلنے کی توفیق بخشے تاکہ ہمارا حساب وکتاب آسان ہو اور ہم جنت کی ابدی آرام گاہ کے لائق ہو سکیں۔ اور ہماری موت کے بعد کی زندگی کو آسان فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
تحریر: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ورکن آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ (9431003131)