پارکر سولر پروب

انسان ابتداء سے ہی کائنات کو حسرت کی نگاہ سے دیکھتا آیا ہے ، آسمان کو چھُونا ایسا خواب ہے کہ لٹریچر میں بھی انسان ہر کامیابی کو اسے چھونے سے تعبیر کرتا دِکھائی دیا ، کئی صدیاں پہلے تک ہماری کائنات،ہمارا آسمان فقط چاند،سورج اور چند ستاروں تک ہی محدود تھا لیکن جیسے جیسے حضرت انسان کائنات کی جستجو کے سفر پہ روانہ ہوا ویسے ویسے اُس پر یہ راز عیاں ہوئے کہ ہم آسمان پر رات کو جتنے بھی ستارے دیکھتے ہیں (اندازاً 5 ہزار) وہ تمام کے تمام ہماری کائنات ملکی وے (Milky way)کا حصہ ہیں اور اِن میں سے 3 یا 4 تو ہمارے نظامِ شمسی کے ہی سیارے ہیں ، پھر تحقیق کا دامن تھام کر جب آگے بڑھے تو معلوم ہواکہ ملکی وےکے علاوہ بھی کائنات میں بے پناہ کہکشائیں موجود ہیں اور ہماری کہکشاں ملکی وے جو ایک لاکھ نوری سال پر محیط ہے وہ اِن کائناتوں کے سامنے انتہائی چھوٹی ہے۔ پھر کچھ عرصے بعد معلوم ہوا کہ بلیک ہول نامی پرسرار شے بھی ہماری کہکشاں کی طرح ہر کہکشاں کے وسط میں موجود ہوتی ہے اور تمام ستارے/سورج اس کا چکر لگا رہے ہوتے ہیں۔ جیسے جیسے ان تحقیقات میں اضافہ ہوا ویسے ویسے انسان حیرتوں کے سمندر میں غرق ہوتا گیا۔ اس خوبصورت کائنات کے متعلق معلومات حاصل کرنے کےلئے کئی مشن خلاء کی اندھیر نگری میں بھیجے گئے۔ آج ہمارے پاس اِن مشنز کی بدولت عطارد، زہرہ، چاند، مریخ، مشتری، زحل الغرض تمام سیاروں کے متعلق معلومات کا خزانہ موجود ہے۔ ان مشنز کے متعلق سوچتے ہوئے 1990ء میں سائنسدانوں کے دل میں ایک عجیب سی حسرت جاگی کہ کیوں نہ ہم ایک غیر انسانی مشن سورج کی جانب بھی بھیجیں۔ اس مشن کا مقصد سورج کے متعلق انتہائی مفید معلومات کا حصول ہوگا۔ یہ خیال آتے ہی سائنسدانوں نے اس متعلق تحقیقات شروع کردیں۔ اس مشن کے لئے ناسا کے ماہرین نے دن رات کام کیا اور آخر کار کچھ سال پہلے اعلان کیا کہ 31 جولائی 2018ء کو زمین کے قریب ترین ستارے "سورج” کی جانب ایک غیرانسانی مشن بھیجا جائے گا اور یہ پہلا مشن ہوگا جو کسی ستارے کی جانب تحقیق کی غرض سے بھیجا جائے گا۔ ان مشن کی خاص بات یہ ہے کہ 19 دسمبر 2024ء کو یہ سورج کے انتہائی قریب پہنچے گا ، اس کے بعد سورج کے گرد چکر کاٹتے کاٹتے اس کا مدار چھوٹے چھوٹے سے چھوٹا ہوتا جائے گا بالآخر دسمبر2025ء میں سورج کے قریب جا کر پگھل کر ختم ہوجائے گا۔ اس سے پہلے بھی ناسا اپنے کئی اسپیس کرافٹس (خلائی گاڑیوں) کو دیگر سیاروں سے ٹکرا کر ختم کرچکا ہے جن میں سب سے مشہور کچھ ماہ پہلے کیسینی اسپیس کرافٹ کا زحل سے ٹکراؤ تھا، بہرحال یہ پہلا مشن ہے جسے ناسا نے کسی زندہ سائنسدان Hugene Parker کے نام پر رکھا ہے اور اسی نسبت سے اس مشن کو Parker Solar Probe کے نام سے جانا جاتا ہے۔پارکر سولر پروب مشن کے ذریعے سورج کی ساخت اور اس کی magnetical field کو سمجھنے میں مدد ملے گی،اس کے علاوہ اس مشن کے ذریعے ماہرین کو سورج کے متعلق کئی پیچیدہ سوالات کے جوابات ملنے کی توقع ہے۔ اس مشن کے ذریعے یہ بھی معلوم کیا جاسکے گا کہ سورج پر بڑے بڑے شعلے جنہیں solar flairs کہا جاتا ہے کیوں بنتے ہیں ۔ دورانِ مشن خلائی جہاز سیارہ زہرہ کی کشش ثقل کو استعمال کرتے ہوئے سورج کے قریب ترین مدار میں چکر لگانے کی کوشش کرے گا۔ ہمارے سورج کا زمین سے فاصلہ تقریباً 15 کروڑ کلومیٹر ہے جبکہ یہ سپیس کرافٹ سورج سے محض 60 لاکھ کلومیٹر کی دُوری پر ہوگااس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہےکہ سورج کی روشنی زمین تک 8 منٹ اور 20 سیکنڈز میں پہنچتی ہے جبکہ یہ خلائی جہاز سورج کے اتنے قریب ہوگا کہ سورج کی روشنی کو اس تک پہنچنے میں فقط 20 سیکنڈز لگیں گے۔ اتنا قریب ہونے کے باعث سورج کی حدت وہاں زمین کی نسبت 520 گنا زیادہ ہوگی لہٰذااس میں موجود آلات کو خصوصی طور پر ایسے حالات کے لئے بنایا گیا ہے کہ زیادہ درجہ حرارت کا مقابلہ کرسکیں۔سورج کی گرمائش خلائی جہاز کے اندر کم سے کم پہنچے اس خاطر اس کے باہر کاربن کی 11 سینٹی میٹر موٹی ایک شیلڈ لگائی گئی ہے جو 1500 ڈگری سینٹی گریڈ تک گرمی کا مقابلہ کرسکے گی اور خلائی جہاز کے خاص حصوں تک radiations نہیں پہنچنے دے گی،اس کے علاوہ خلائی جہازکے آلات کو ٹھنڈا رکھنےکے لئے بھی خصوصی انتظام کیا گیا ہے ،آلات کو بجلی فراہم کرنے کے لئے خلائی گاڑی پر سولر پینلز نصب کئے جائیں گے۔یہ خلائی جہاز 7 سالوں میں سورج کے گرد تقریباً 17 چکر لگائے گا جبکہ سیارہ زہرہ کے گرد تقریباً 7 چکر لگا کر اپنی رفتار کو 200 کلومیٹرفی سیکنڈ تک بڑھائے گا ، جس کے بعد یہ انسانی تاریخ کا سب سے تیز رفتار اسپیس کرافٹ ہونے کا اعزاز اپنے نام کرلے گا۔

پارکر سولر پروب: ناسا کے خلائی جہاز نے سورج کی فضا میں سے گزر کر تاریخ رقم کر دی

تحریر : جوناتھن ایموس
بی بی سی سائنس رپورٹر

پارکر نامی خلائی جہاز نے تاریخ میں پہلی بار سورج کی بیرونی فضا میں سے گزر کر تاریخ رقم کر دی ہے۔ امریکی خلائی ادارے ناسا نے اسے تاریخی موقع قرار دیا ہے۔

پارکر سولر پروب نے سورج کے گرد موجود خطے میں کچھ ہی دیر کے لیے غوطہ لگایا۔ اس خطے کو کورونا کہا جاتا ہے۔

خلائی جہاز نے ایسا اپریل میں کیا تھا مگر ڈیٹا کے تجزیے سے اب جا کر اس کی تصدیق ہوئی ہے۔ اس کام کے لیے پارکر کو بے انتہا گرمی اور الٹرا وائلٹ شعاعیں جھیلنی پڑیں مگر اس سے سائنسدانوں کو نئی معلومات حاصل ہوئی ہیں کہ ہمارا سورج کیسے کام کرتا ہے۔

ناسا کے سورج پر تحقیق کے ذمہ دار شعبے ہیلیوفزکس سائنس ڈویژن کی ڈائریکٹر نکولا فوکس کہتی ہیں: ’جس طرح چاند پر کھڑے ہونے سے سائنسدانوں کو یہ سمجھنے میں مدد ملی کہ یہ کیسے وجود میں آیا، ویسے ہی سورج کو چھونا انسانیت کے لیے بہت بڑا موقع ہے جس سے ہمیں ہمارے قریب ترین ستارے اور نظامِ شمسی پر اس کے اثرات کے بارے میں اہم معلومات حاصل ہوں گی۔‘

پارکر سولر پروب خلائی ادارے کا اب تک کا بنایا گیا سب سے ‘جانباز’ مشن ہے۔

تین سال قبل لانچ کیے گئے اس خلائی جہاز کا مقصد سورج کے سامنے سے بار بار اور قریب سے قریب تر ہو کر گزرنا ہے۔

اس خلائی جہاز کی رفتار حیران کُن حد تک تیز ہے۔ یہ پانچ لاکھ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتا ہے اور حکمتِ عملی یہ ہے کہ سورج کی فضا میں فوراً داخل ہو کر فوراً باہر آئے، اور اس دوران گرمی سے بچانے والی اپنی موٹی ہیٹ شیلڈ کے پیچھے چھپ کر اپنے مختلف آلات کے ذریعے اعداد و شمار اکٹھا کرے۔

رواں سال 28 اپریل کو پارکر نے ایلفویئن نامی لکیر کو عبور کیا جو سورج کی بیرونی فضا کورونا کی باہری حد ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں عام طور پر سورج کی کششِ ثقل سے بندھا رہنے والا مواد اور مقناطیسی لہریں کششِ ثقل سے خود کو چھڑا کر خلا میں باہر نکل جاتی ہیں۔

پارکر نے ہمیں نظر آنے والی سورج کی سطح فوٹوسفیئر سے ایک کروڑ 30 لاکھ کلومیٹر اوپر اس لکیر کو محسوس کیا۔

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے کے سٹوارٹ بیل کے مطابق خلائی جہاز کے ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پانچ گھنٹوں کے دوران تین مرتبہ اس لکیر کے اوپر اور نیچے سے ہو کر گزرا۔

اُنھوں نے رپورٹرز کو بتایا: ’ہم نے صورتحال کو مکمل طور پر تبدیل ہوتے ہوئے دیکھا۔ کورونا کے اندر سورج کی مقناطیسی قوت بہت زیادہ تھی اور وہاں یہ ذرات کی نقل و حرکت پر غالب تھی۔ چنانچہ خلائی جہاز اس مواد سے گھرا ہوا تھا جو حقیقت میں سورج سے جڑا ہوا تھا۔

محققین کو کورونا کہلانے والی سورج کی اس بیرونی فضا نے حیرت زدہ کیے رکھا ہے کیونکہ یہاں پر وقوع پذیر ہونے والی اکثر چیزوں کی اب تک وجہ سمجھ نہیں آ سکی ہے۔

ان میں سے ایک چیز خلافِ عقل شدید گرمی ہے۔ سورج کی سطح یعنی فوٹوسفیئر پر درجہ حرارت چھ ہزار ڈگری سینٹی گریڈ کے قریب ہوتا ہے لیکن کورونا میں درجہ حرارت 10 لاکھ ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ سکتا ہے۔

اس کے علاوہ اسی حصے میں برقی چارج رکھنے والے ذرات مثلاً الیکٹرونز، پروٹونز اور بھاری آئیونز کی رفتار اچانک آواز کی رفتار سے بھی تیز ہو جاتی ہے اور یہ تیز ہوا کی صورت دھار لیتے ہیں جسے سولر ونڈ کہا جاتا ہے۔ یہ صورتحال بھی سائنس دانوں کے لیے ایک معمہ ہے۔

جان ہاپکنز اپلائیڈ فزکس لیبارٹری کی نور رؤفی کے مطابق ‘مسئلہ یہ ہے کہ سولر ونڈ کو جنم دینے والے مراحل کا نام و نشان سولر ونڈ کے کورونا سے زمین تک کے سفر کے دوران مٹ جاتا ہے۔ اسی لیے ہم نے پارکر کو اس پراسرار خطے میں بھیجا ہے تاکہ جان سکیں کہ وہاں کیا ہو رہا ہِے۔’

جب آنے والے ہفتوں میں یہ خلائی جہاز کورونا کی اور گہرائی میں غوطے لگائے گا تو پارکر کی سائنس ٹیم کو اس حوالے سے مزید ڈیٹا ملے گا۔

سنہ 2025 میں اسے بتدریج فوٹوسفیئر سے 70 لاکھ کلومیٹر فاصلے تک پہنچ جانا چاہیے۔ پارکر اور سورج کا مشاہدہ کرنے والی دیگر رصدگاہوں سے حاصل ہونے والی معلومات کا زمین پر موجود تمام انسانوں پر براہِ راست اثر پڑے گا۔

سورج سے نکلنے والی بڑی مقناطیسی لہریں ہماری زمین کے مقناطیسی میدان کو ہلا کر رکھ سکتی ہیں۔ ایسا ہونے پر ہماری مواصلات معطل ہو سکتی ہیں، سیٹلائٹس آف لائن ہو سکتی ہیں اور بجلی کے گریڈز میں اچانک وولٹیج تیز ہو سکتا ہے۔

سائنسدان سورج کے ان مقناطیسی ‘طوفانوں’ کی پیش گوئی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پارکر کے ذریعے اُنھیں ایسا کرنے کے لیے نئی اور گراں قدر معلومات حاصل ہو سکیں گی ۔

تحریر: محمد شاہ زیب صدیقی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے