تخلیق کائنات کا قرآنی نظریہ (قسط 2)

عظیم دھماکے کا نظریہ (BIG BANG THEORY)

کائنات کی اوّلیں تخلیق کے وقت اُس کا تمام مادّہ ایک اِکائی (minute cosmic egg) کی صورت میں موجود تھا، پھر اللہ ربّ العزت نے اُس اِکائی کو پھوڑا اور اُس کے نتیجے میں اِس کائناتِ پست و بالا کو وُجود ملا۔ قرآنِ مجید کے ’نظریۂ تخلیقِ کائنات‘ کے مطالعہ سے پہلے ہم کائنات کی تخلیق سے متعلقہ سائنسی تحقیقات کے اِرتقاء کی طوِیل جدوجہد کا مختصر ذِکر ضروری سمجھیں گے تاکہ قارئین کو اِسلامی اِعتقادات کی حقّانیت کو سمجھنے میں آسانی ہو :

1687ء میں مشہور و معروف برطانوی سائنسدان ’آئزک نیوٹن‘ (Isaac Newton) نے تجاذُب کا کائناتی تصوّر پیش کرتے ہوئے کہا کہ کائنات جامد اور غیرمُتغیّر ہے۔ یہ بات بیسویں صدی تک ایک مصدقہ حقیقت کے رُوپ میں تسلیم کی جاتی رہی۔
1915ء میں ’البرٹ آئن سٹائن‘ (Albert Einstein) نے ’عمومی نظریۂ اِضافیت‘ (General Theory of Relativity) پیش کیا۔ اُس نظریئے میں اُس نے مادّے، توانائی، کشش، مکان اور زمان میں باہمی نسبت کی وضاحت کی۔ اُس نے ’نیوٹن‘ کا جمودِ کائنات کا تصوّر تو کسی حد تک ردّ کر دیا لیکن وہ خود کائنات کی اصلیت کے بارے میں کوئی نیا نظریہ دینے سے قاصر رہا کیونکہ نیوٹن کے نظریات کو اُس وقت تک دُنیا بھر میں غیر متبدّل سمجھا جا رہا تھا۔
1929ء میں ’ایڈوِن ہبل‘ (Edwin Hubble) نے پہلی بار یہ مفروضہ پیش کیا کہ کائنات جامد اور غیرمتغیر نہیں ہے، بلکہ حرکت پذیر ہونے کے علاوہ شاید وہ مسلسل وسیع بھی ہو رہی ہے۔ اُس کی تحقیق نے ’عظیم دھماکے کے نظریئے‘ (Big Bang Theory) کو جنم دیا۔ عظیم دھماکے کے نظریئے کو اِبتدائی طور پر ’مارٹن ریلے‘ (Martin Ryle) اور ’ایلن آر سنڈیج‘ (Allan R. Sandage) نے پروان چڑھایا۔
1965ء میں دو امریکی سائنسدانوں ’آرنوپنزیاس‘ (Arno Penzias) اور ’رابرٹ وِلسن‘ (Robert Wilson) نے اپنے معمول کے تجربات کے دوران اِتفاقاً ’کائناتی پس منظر کی شعاع ریزی‘ (cosmic background radiation) دریافت کی، جس سے یہ ثابت ہوا کہ مادّی کائنات کا آغاز ایک اِکائی سے ہوا تھا۔ اُس اِکائی کو اُنہوں نے ’مختصر ترین کائناتی انڈے‘ (minute cosmic egg) کے نام سے موسوم کیا، جو اپنے اندر بے پناہ توانائی کو سنبھالے ہوئے تھا۔ وہ اچانک پھٹا اور اُس کے نتیجے میں اِس کائنات کا مختلفُ الاقسام مادّہ تخلیق پایا اور اُسی سے بعد اَزاں مختلف کلسٹرز اور کہکشائیں تخلیق پائیں۔
چار ایسی بنیادی طاقتیں جو مختلف اَجرامِ فلکی کے اپنے اپنے کروں میں موجود ہوتی ہیں، وہ بھی اُس دھماکے کے ساتھ ہی معرضِ وُجود میں آ گئیں۔ وہ طاقتیں یہ ہیں :

کششِ ثقل (gravity)
برقی مقناطیسیت (electromagnetism)
طاقتور نیوکلیائی طاقتیں (strong nuclear forces)
کمزور نیوکلیائی طاقتیں (weak nuclear forces)
موجودہ سائنسی تحقیقات کے محتاط اندازوں کے مطابق اَب تک اِس کائنات کو تخلیق ہوئے کم و بیش 15 ارب سال گزر چکے ہیں۔ آج سے 15 ارب سال پہلے پائی جانے والی اُس اِبتدائی کمیّتی اِکائی سے پہلے وہ کیا شے تھی جس سے یہ کائنات ایک دھماکے کی صورت میں تخلیق کی گئی؟ سائنس اِس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہے۔ اِس مُعمّے کا حل قرآنِ مجید کے اِس فرمان پر اِیمان لانے سے ہی ممکن ہے :

إِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُO

(مريم، 19 : 35)

جب وہ کسی کام کا فیصلہ فرماتا ہے تو اُسے صرف یہی حکم دیتا ہے : ’’ہوجا‘‘، بس وہ ہو جاتا ہےo

قرآنی اِصطلاح ’’رَتْق‘‘ کی سائنسی تفسیر ہمیں اِس بات سے آگاہ کرتی ہے کہ بے پناہ توانائی نے کائنات کو اُس وقت ’اِبتدائی کمیتی اِکائی‘ کی صورت میں باندھ رکھا تھا۔ وہ ایک ناقابلِ تصوّر حد تک کثیف اور گرم مقام تھا جسے ’اِکائیت‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اُس وقت کائنات کی کثافت اور خلائی وقت کا اِنحناء (curvature) دونوں لامحدُود تھے اور کائنات کی جسامت صفر تھی۔ اِکائیت کی اُس حالت اور صفر درجہ جسامت (zero volume) کی طرف قرآنِ مجید یوں اِشارہ کرتا ہے :

أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا.

(الانبياء، 21 : 30)

جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اِکائی (singularity) کی شکل میں جڑے ہوئے تھے۔

اِن الفاظ میں بگ بینگ سے پہلے کا ذِکر کیا گیا ہے۔ پھر اُس کے بعد پُھوٹنے اور پھیلنے کا عمل شروع ہوا، جسے کلامِ مجید نے اِن اَلفاظ میں ذِکر کیا ہے :

فَفَتَقْنَاهُمَا.

(الانبياء، 21 : 30)

پس ہم نے اُنہیں پھاڑ کر جدا کر دیا۔

عظیم دھماکے (Big Bang) سے رُوپذیر ہونے والے عملِ اِنشقاق (پھٹنے کے عمل) کے آغاز کے ساتھ ہی ایک سیکنڈ کے سوویں حصے (hundredth part) میں وہ ’اِکائیت‘ پھیل کر اِبتدائی آگ کا گولا (primordial fireball) بن گئی اور دھماکے کے فوری بعد اُس کا درجۂ حرارت ایک کھرب سے ایک کھرب 80 ارب سینٹی گریڈ کے درمیان جا پہنچا۔ تاہم عظیم دھماکے سے ایک منٹ بعد ہی کائنات کا درجۂ حرارت تیزی سے گرتے ہوئے دس گنا کم ہو کر 10 ارب سے 18 ارب سینٹی گریڈ کے درمیان آن پہنچا۔ یہ سورج کے مرکز کے موجودہ درجۂ حرارت سے تقریباً ایک ہزار گنا زیادہ حرارت تھی۔ اُس وقت کائنات زیادہ تر فوٹان، اِلیکٹران، نیوٹریناس اور اُس کے مخالف ذرّات کے ساتھ ساتھ کسی حد تک پروٹان اور نیوٹران پر مشتمل تھی۔

کائنات کے اُس اوّلین مرحلے کی تصویر کشی سب سے پہلے ’جارج گیمو‘ (George Gamow) نامی سائنسدان نے 1948ء میں تصنیف کردہ اپنی مشہور تحریر میں پیش کی۔ اُس نے کہا کہ ’عظیم دھماکے‘ (Big Bang) کے معاً بعد کائنات اِتنی شدید گرم تھی کہ ہر طرف ’نیوکلیائی حرارتی تعاملات‘ (thermonuclear radiations) شروع ہو سکیں۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ اِبتدائی کائنات زیادہ توانائی کے حامل خُورد موجی (short-wave) فوٹانز سے معمور تھی۔ اُس نے ایک قابلِ قدر پیشینگوئی کی کہ کائنات کی اِبتدائی بے حد گرم حالتوں میں فوٹانز کی صورت میں پائی جانے والی شعاع ریزی (radiation) کو اَب بھی اپنے نسبتاً کم درجۂ حرارت کے ساتھ جاری ہونا چاہیئے، جو مطلق صفر (273o- سینٹی گریڈ) سے محض چند درجے زیادہ ہو۔ اسی شعاع ریزی کو بعد اَزاں 1965ء میں ’آرنوپنزیاس‘ اور ’رابرٹ وِلسن‘ نے دریافت کیا۔ جوں جوں کائنات میں وُسعت کا عمل جاری ہے اُس کا درجۂ حرارت گِرتا چلا جا رہا ہے۔ فی الحال کائنات کا اَوسط درجۂ حرارت 270o- سینٹی گریڈ تک کم ہو چکا ہے، جو مطلق صفر سے محض 3 درجہ اُوپر ہے۔ مطلق صفر (یعنی 273.16o-) وہ درجۂ حرارت ہے جہاں مالیکیولز کی ہر طرح کی حرکت منجمد ہو کر رہ جاتی ہے۔

’جارج لویٹر‘ (George Lawaitre) نے 1931ء میں اِس بات کی طرف اِشارہ کیا کہ اگر تمام کہکشاؤں کے باہر کی سمت پھیلاؤ کا تعاقب کیا جائے اور اُس میں چھپے حقائق پر غور و فکر کیا جائے تو یہ بات قرینِ قیاس ہے کہ وہ سب دوبارہ اُسی نقطے پر آن ملیں جہاں سے سفر کا آغاز ہوا تھا۔ مادّے کا وہ بڑا قطرہ جو اِبتدائی ایٹم (primeval atom) کے نام سے جانا جاتا ہے، یقینا ماضی بعید میں طبیعی کائنات کے طور پر پایا جانے والا کائناتی انڈہ (cosmic egg) تھا۔ ’لویٹر‘ نے یہ مفروضہ پیش کیا کہ مادّے کا وہ بڑا قطرہ کسی وجہ سے پھٹ گیا اور ایک بم کی طرح باہر کی طرف ہر سُو اُڑ نکلا۔ یہی کائنات کی اوّلین تخلیق قرار پائی۔ ’لویٹر‘ کا یہ خیال بعد اَزاں عظیم دھماکے کے نظریئے کی صورت میں متعارف ہوا۔ یہاں ایک چیز میں اِختلاف ہے کہ صفر درجہ جسامت کی اِکائیت پر مُشتمل وہ مادّہ کس طرح تقسیم ہوا، مادّے نے کس طرح بیرونی اَطراف میں سفر شروع کیا اور علیحدگی، اِنشقاق اور دھماکہ کس طرح شروع ہوا؟ ہم اِن تفصیلات میں جانے سے اِحتراز کریں گے۔

اصل حقیقت ہر صورت وُہی ہے کہ آج ہمیں نظر آنے والی کہکشائیں اُس اِکائی مادّے سے اِنشقاق شدہ اور علیحدہ شدہ ہیں، جس کا قرآنِ حکیم میں یوں ذِکر آتا ہے :

كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا.

(الانبياء، 21 : 30)

(سب) ایک اِکائی (singularity) کی شکل میں جُڑے ہوئے تھے، پس ہم نے اُنہیں پھاڑ کر جدا کر دیا۔

جاری۔۔۔۔۔۔

مصنف: ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

تخلیق کائنات کا قرآنی نظریہ؛ اگلی قسط پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے