داستان الم بھی، تاریخ ظلم و ستم بھی!

(عبد الرحمن قاسمی کی کتاب : "caa & nrc اور تحریک شاہین باغ” کے حوالے سے)

ازقلم: خالد سیف اللہ صدیقی

برادر عبد الرحمان قاسمی ہمارے قریبی ساتھیوں اور دوستوں میں سے ہیں۔ تعلق و شناسائی اور رفاقت بھی پرانی ہے ، اور دونوں کا علمی سفر بھی ایک ہی انداز سے جاری رہا ہے۔ پنجم عربی کے سال دونوں دیوبند آ جاتے ہیں۔ میرا دارالعلوم دیوبند اور دارالعلوم وقف دیوبند ؛ دونوں میں داخلہ ہو جاتا ہے ، اور برادر عبد الرحمان کا دارالعلوم وقف دیوبند میں داخلہ ہو جاتا ہے۔ میری فراغت دارالعلوم دیوبند سے ہوتی ہے ، اور ان کی دارالعلوم وقف دیوبند سے۔ درسی طور پر گوکہ ہم دونوں کبھی یکجا نہ ہو سکے ؛ لیکن رہائشی اور اقامتی طور پر ہم دونوں سال بھر یکجا رہے ہیں۔ دونوں کا کمرہ اور رہائش گاہ ایک ہی رہی ہے۔
موصوف سے جب سے تعارف و تعلق ہوا ہے ، تب سے دیکھا ہے کہ وہ پڑھنے لکھنے ، آگے بڑھنے اور کچھ کرنے کے دھن کے آدمی ہیں۔ علم و مطالعہ اور تحقیق و جستجو کا اچھا ذوق رکھتے ہیں۔
ابھی کچھ دنوں پہلے موصوف کی ایک کتاب آئی ہے ، جس نے خاصی مقبولیت حاصل کی ہے۔ بہت سے لوگوں نے اس پر تبصرے اور تجزیے لکھے ہیں ، اور بڑے وقیع الفاظ و انداز میں اس کو سراہا ہے۔ کتاب دیکھنے کی خواہش مجھے بھی تھی ؛ لیکن اس کے لیے کوئی سبیل سمجھ میں نہیں آتی تھی ؛ لیکن ابھی چند مہینوں پہلے جب میری دیوبند حاضری ہوئی ، تو ملاقات پر موصوف نے بڑے خلوص سے وہ کتاب مجھے عنایت کی۔ کتاب کے ساتھ ساتھ موصوف نے یہ بھی فرمائش کی کہ اس پر آپ بھی کچھ لکھیے گا۔
میں کتاب لے کر دیوبند سے آگیا ، اور سوچتا رہا کہ اس پر کچھ لکھوں ؛ لیکن مشاغل اتنے کہ اس پر کچھ لکھنے کے لیے فرصت نکالنا مشکل ہوگیا۔ چند مہینوں کے بعد جب ذرا اطمینان ہوا ، اور قلم اٹھایا ، تو تھوڑا سا لکھنے کے سوا کچھ نہ لکھ سکا ؛ کیوں کہ اس کے لیے مستقل وقت نکالنا ضروری تھا۔ کیوں کہ کسی بھی کتاب کو اچھی طرح ملاحظہ کیے بغیر اس پر کوئی درست تبصرہ نہیں کیا جا سکتا ؛ لیکن ہمیشہ میرے ذہن پر کسی نہ کسی درجے میں یہ بات سوار رہی کہ برادر موصوف کی کتاب پر کچھ نہ کچھ لکھنا ہے۔ کل مجھے لگا کہ شاید برادر کی فرمائش پوری کرنے میں کچھ زیادہ تاخیر ہوئی جا رہی ہے۔ سو میں نے تہیہ کیا کہ اب مجھے بہت جلد اس کتاب پر تبصرہ لکھ دینا ہے۔ پھر میں نے کتاب اس کی ڈھیر سے اٹھائی ، اور صفحہ اول سے الٹنا پلٹنا شروع کر دیا۔ ارادہ تھا کہ جستہ جستہ اور چیدہ چیدہ مقامات سے کتاب دیکھ لیں گے ؛ لیکن جب کتاب کھولی ، اور ورق گردانی شروع کی ، تو تب تک کتاب نہیں رکھی ، جب تک ڈھائی سو صفحات پر مشتمل اس کتاب کا ایک ایک صفحہ تک نہیں ملاحظہ کر لیا۔ میں دعوی نہیں کرتا کہ میں نے پوری کتاب پڑھی ؛ لیکن یہ دعوی ضرور ہے کہ میں نے تقریبا ہر ہر صفحے سے کچھ نہ کچھ ضرور پڑھا ہے۔ کہیں سے کم پڑھا ، کہیں سے زیادہ ؛ مگر پڑھا ضرور ہے۔
کتاب پڑھنے کے دوران جب سی اے اے ، این آر سی ، شاہین باغ احتجاج ، دہلی فسادات اور ان سے متعلق بعض چیزوں کو دیکھا اور پڑھا ، تو بعض دفعہ میری آہیں نکل نکل گئیں۔ دل نے بڑا درد و کرب محسوس کیا۔ کتاب نے ٹھیک اس دور میں پہنچا دیا تھا ، جو سی اے اے اور این آر سی کے نفاذ اور شاہین باغ و دیگر مقامات کے احتجاجات اور دہلی فسادات وغیرہ کا تھا۔ سی اے اے اور این آر سی جیسے قانون کے نفاذ کے وقت جو کچھ ملک کا ماحول اور فضا رہی ہے ، گوکہ وہ ابھی قصہ پارینہ نہیں بنا ہے ؛ لیکن یہ بات تو ہے ہی کہ وہ سب کچھ اب لوگوں کے ذہن و دماغ سے دھیرے دھیرے محو ہوتا جا رہا ہے ؛ لیکن یہ کتاب ایسی ہے ، جو اپنے قاری کو بالکل اسی ماحول و منظر سے دوبارہ روبرو کراتی ہے ، جو اس کے لیے کبھی انتہائی کرب و درد سے بھرا ہوا تھا۔ کتاب نے اس پورے ماحول اور منظر نامے کو اپنے اندر تفصیل و تطویل اور جامعیت کے ساتھ محفوظ کر لیا ہے۔ یہ کتاب ہے ، جو ایک طرف داستان الم سناتی ہے ، تو دوسری طرف ظالموں ، جابروں ، نادر شاہوں اور مظلوموں ، مجبوروں اور کم زوروں کی تاریخ بتاتی ہے۔ یہ کتاب ہے ، جو داستان الم بھی ہے اور تاریخ ظلم و ستم بھی ہے!
کتاب میں جس تفصیل سے مذکورہ موضوعات پر لکھا اور مواد اکٹھا کر دیا گیا ہے ، اس سے بجا طور پر کتاب اپنے موضوع پر ایک جامع اور مفصل تصنیف و تالیف بن گئی ہے۔ معمولی سے معمولی چیز کو بھی کتاب میں نہیں چھوڑا گیا ہے ، ہر ہر چیز کو اس میں سمو دیا گیا ہے۔ مستقبل میں جب بھی کوئی مؤرخ ان مذکورہ موضوعات پر کچھ لکھنے اور تحقیق کرنے کی سوچے گا ، تو اسے کتاب سے بہت مدد ملے گی ، اور شاید وہ اس کتاب سے مستغنی نہ ہو سکے گا۔
کتاب کے اوائل میں روز نامہ انقلاب نئی دہلی کے ایڈیٹر ودود ساجد و ڈاکٹر ظفر الاسلام خان صاحبان کے مقدمہ و تاثرات ہیں۔ اس کے بعد ایک استاذ دارالعلوم وقف دیوبند کی تقریظ ہے۔ اس کے بعد صاحب کتاب کا پیش لفظ۔ اس کے بعد اصل کتاب کا آغاز ہو جاتا ہے۔ اصل میں کتاب کی قدر و قیمت اور اس کی اہمیت کا اندازہ تو اس کے تفصیلی مطالعے سے ہی ہوگا ؛ تاہم آپ کی دل چسپیوں اور ضیافت سامانیوں کے لیے کتاب کے کچھ اہم اور خاص عناوین پیش کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ سو ملاحظہ کیجیے :

◼️ سی اے اے اور این آر سی کے نقصانات
◼️ جامعہ [ملیہ] کے مظلوم طلبہ کی کہانی ، خود ان ہی کی زبانی
◼️ دیوبند اور لکھنو میں طلبہ مدارس کا احتجاج
◼️ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی پر حملے
◼️ شاہین باغ ظلم و ستم کے سائے میں
◼️ سی اے اے مظاہرین کے جانی و مالی نقصانات
◼️ سی اے اے اور این آر سی مظاہروں میں شہید نوجوانوں کی اجمالی فہرست
◼️ سی اے اے اور این آر سی پر وزیر اعظم کا سخت رویہ
◼️ "پاپولر فرنٹ آف انڈیا” کے سرگرم اراکین گرفتار
◼️ جلتی ہوئی دہلی کی کہانی
◼️ دہلی فساد میں شہید ہوئے لوگوں کی اجمالی فہرست
◼️ جامعہ اور جے این یو کے جاں بازوں کا تذکرہ
یہ چند اہم اور مخصوص عناوین تھے ، جو میں نے پیش کر دیے۔ ان کے علاوہ اور بہت سے اہم عناوین ہیں ، جو اس کتاب میں شامل ہیں۔ تاریخ و انقلابات و تحریکات سے دل چسپی رکھنے والے حضرات کو اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے ، ان کے لیے اس میں بہت کچھ سامان مطلوب و مقصود فراہم کر دیا گیا ہے۔
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ اس کتاب کو نافع بنائے ، اور مصنف کتاب کو اس کا بہترین صلہ عطا فرمائے ، اور آئندہ بھی ان سے اسی طرح بہتر سے بہتر اور مفید سے مفید تر دینی ، ملی ، علمی ، اصلاحی اور فکری ؛ ہر طرح کی خدمات لیتا رہے۔ آمین!
میں مصنف کو ان کی اس بہترین کتاب کی تصنیف پر دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں!▪️

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے