نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم، امابعد.
نرمی مزاجی ایک عمدہ صفت ہے۔ قران و حدیث میں اس کے بے شمار فضائل بیان کیے گئے ہیں۔ یہ صفت ہر مسلمان میں مطلوب ہے، چاہے وہ جس شعبہ سے بھی تعلق رکھتے ہوں، مرد ہو یا عورت، جوان ہو یا بوڑھا، امیر ہو یا غریب، عالم ہو یا جاہل، عہدہ دار ہو یا غیر عہدہ دار، سب ہی سے یہ صفت مطلوب ہے۔ بالخصوص اہل علم حضرات کو تو اس صفت سے ضرور متصف ہونا چاہیے۔
مگر آج ہم جس طرف نظر اٹھاتے ہیں یہ صفت تقریباً مفقود نظر آتی ہے، نرمی کی جگہ درشتی و سختی نے لے لی ہے، جس سے نفع کم نقصان زیادہ ہوتا ہے، محبت کی جگہ آپس میں نفرتیں پھیل رہی ہیں، آپس میں قریبی پیدا ہونے کے بجائے دوری پیدا ہو رہی ہے، افسوس اس وقت زیادہ ہوتا ہے جب یہ عمل اہل علم حضرات کی طرف سے ہوتا ہے۔
آج سوشل میڈیا کا دور ہے، اپنے پیغام کو دوسروں تک پہنچانے یا دوسروں کے پیغام پر تنقید و تبصرہ کرنے کے کئی ذرائع ہیں، ان میں واٹس ایپ، فیس بک، ٹویٹر، انسٹاگرام وغیرہ سر فہرست ہیں۔ دیکھا یہ جاتا ہے کہ اگر کسی نے کوئی میسج کیا، اور وہ میسج یا تحریر ہمیں پسند نہیں آئی، یا اس تحریر سے ہمیں اتفاق نہیں ہوتا، یا وہ تحریر ہمارے نزدیک جادۂ مستقیم سے ہٹی ہوئی ہوتی ہے، تو سامنے والے پر ہم ٹوٹ پڑتے ہیں، سلیقہ سے اپنی بات نہ رکھ پانے کی وجہ سے پھر جو لڑائی جھگڑے، تبصرے در تبصرے، ایک دوسری کی عزتیں اچھالنے، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے، ایک دوسرے پر سبقت لے جانے، یہاں تک کی باہم گالی گلوچ کا وہ ماحول برپا ہوتا ہے کہ الامان والحفیظ۔ گروپ کا پورا ماحول مکدر کر دیا جاتا ہے، طوفان بدتمیزی کا ایک ماحول پیدا کر دیا جاتا ہے، خلاصہ یہ کہ بداخلاقی کا کھل کر مظاہرہ ہوتا ہے، اور یہ ماحول تقریباً روزانہ کسی نہ کسی گروپ میں ضرور دیکھنے کو مل جاتا ہے۔
واضح رہے کہ ہمارا کہنا ہرگز یہ نہیں ہے کہ دین کے معاملہ میں مداہنت برتی جائے، گمراہیوں پر خاموش رہا جائے، غلطیوں پر متنبہ نہ کیا جائے، امر و نواہی کے سلسلہ میں غفلت و سستی سے کام لیا جائے، بلکہ ہمارا کہنا یہ ہے کہ نصیحت کرنے کے کسی موقع سے بھی چوکا نہ جائے، غلطیوں پر ضرور متنبہ کیا جائے، گمراہیوں کو ضرور واضح کیا جائے؛ مگر یہ سب احسن طریقے سے کیا جائے، اسلامی مزاج کے مطابق کیا جائے، بد اخلاقی سے اجتناب کرتے ہوئے کیا جائے، نرمی سے کیا جائے، حلم و بردباری سے کیا جائے، ذاتی شخصیات کو نشانہ بنائے بغیر کیا جائے، اپنے علم کا رعب و دبدبہ کا اظہار کیے بغیر کیا جائے، جہاں تک ممکن ہو سخت رویہ اختیار کرنے سے بچ کر کیا جائے، کیوں کہ نرمی معاملات کو مزین کرتی ہے، اور سختی خراب کرتی ہے، اس لئے عموماً ہر معاملہ میں نرمی برتی جائے۔
اسی سلسلہ میں قرآن و حدیث اور واقعات کی روشنی میں چند باتیں پیش خدمت ہیں:
نرمی کی تعریف: ”رفق“ کے معنی ہیں: نرمی و ملائمت اور فروتنی کارویہ اختیار کرنا، اپنے ساتھیوں کے حق میں مہربان و نرم خٗو ہونا، اور ان کے ساتھ اچھی طرح پیش آنا، اور ہر کام اطمینان و خوش اسلوبی کے ساتھ کرنا۔ (مظاہر حق جدید/ بَابُ الرِّفْقِ وَالْحَيَاءِ وَحُسْنِ الْخُلُقِ)
آیات:
(۱) فَبِمَا رَحۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنۡتَ لَہُمۡ ۚ وَ لَوۡ کُنۡتَ فَظًّا غَلِیۡظَ الۡقَلۡبِ لَانۡفَضُّوۡا مِنۡ حَوۡلِکَ ۪ فَاعۡفُ عَنۡہُمۡ وَ اسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ وَ شَاوِرۡہُمۡ فِی الۡاَمۡرِ ۚ فاذا عَزَمۡتَ فَتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُتَوَکِّلِیۡنَ. (آل عمران: ۱۵۹)
ترجمہ: ”ان واقعات کے بعد اللہ کی رحمت ہی تھی جس کی بنا پر ( اے پیغمبر) تم نے ان لوگوں سے نرمی کا برتاؤ کیا۔ اگر تم سخت مزاج اور سخت دل والے ہوتے تو یہ تمہارے آس پاس سے ہٹ کر تتر بتر ہوجاتے۔ لہذا ان کو معاف کردو، ان کے لیے مغفرت کی دعا کرو، اور ان سے (اہم) معاملات میں مشورہ لیتے رہو۔ پھر جب تم رائے پختہ کر کے کسی بات کا عزم کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو۔ اللہ یقیناً توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے“۔ (آسان ترجمہ قرآن)
تفسیر: غزوۂ احد کے موقعہ پر مسلمانوں سے جو لغزش ہو گئی تھی اور میدان چھوڑ کر چلے گئے تھے؛ جس سے رسول اکرم ﷺ کو (روحانی و جسمانی) غم پہنچا اور تکلیف ہوئی۔ اس پر آپؐ نے ان سے سختی کا معاملہ نہیں کیا۔ ڈانٹ ڈپٹ نہیں کی، اللہ تعالیٰ شانہ نے آپؐ کے ان کریمانہ اخلاق اور آپ کی نرم مزاجی کی اس آیت میں تعریف فرمائی۔ نیز مسلمانوں کی بھی دلداری اور دل جوئی ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ نے اول تو دو مرتبہ اپنی طرف سے معافی کا اعلان فرمایا، جس کا ذکر پچھلے رکوع میں آ چکا ہے۔ پھر اس آیت میں نبی اکرم ﷺ کو ارشاد فرمایا کہ: آپ بھی معاف فرما دیں، اور نہ صرف یہ کہ خود معاف فرما دیں؛ بلکہ ان کے لیے اللہ جل شانہ سے بھی استغفار کریں۔ اور مزید دلداری یوں فرمائی کہ آپ کو ان سے مشورہ لینے کا حکم دیا۔
انسان کا مزاج ہے کہ بردبار و خوش اخلاق، متواضع اور منکر المزاج کے پاس جانا اور اٹھنا بیٹھنا، اور اس سے فیض لینا اور علم و معرفت حاصل کرنا پسند کرتا ہے۔ جو حضرات حضرت رسول اکرم ﷺ کے نائب ہیں، معلم ہیں، محدث ہیں، مفتی ہیں، مرشد ہیں، مبلغ ہیں داعی اور ہادی ہیں، ان لوگوں کے لیے اس میں بہت بڑی نصیحت ہے۔ اگر امت کو علم سکھانا اور فیض پہنچانا ہے تو نرم مزاج، نرم خو، شفیق اور مہربان بردبار بنیں۔ یوں تو ہر مسلمان ہی کو خوش خلق اور نرم مزاج ہونا چاہیے، لیکن خاص کر مسلمین، مصلحین، مبلغین، مرشدین کو تو بہت ہی زیادہ اس صفت سے متصف ہونا ضروری ہے۔ (ملخصاً تفسیر انوار البیان)
(۲) وَ اخۡفِضۡ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ
من الۡمُؤۡمِنِیۡنَ. (الشعراء: ۲۱۵)
ترجمہ: ”اور جو مومن تمہارے پیچھے چلیں، ان کے لیے انکساری کے ساتھ اپنی شفقت کا بازو جھکا دو“۔
یہاں انتہائی قابل غور بات یہ ہے کہ خود آقا ﷺ کو حکم ہورہا ہے کہ آپؐ صحابہ کرام کے ساتھ نرمی، شفقت و مہربانی کا برتاؤ کریں۔ حضرت مولانا عبدالماجد دریابادیؒ نے اس آیت کی کیا خوب وضاحت فرمائی ہے، فرماتے ہیں:
کہاں پیغمبر اور کہاں امتی؟ شرف و منزلت کے اعتبار سے دونوں کا مقابلہ ہی کیا؟ لیکن یہاں صراحت کے ساتھ حکم مخدوم و آقا کو مل رہا ہے کہ وہ اپنے متبعین کے ساتھ فروتنی سے پیش آئیں۔ یہ تعلیم اسلام کے سوا کہاں ملے گی؟
محققین نے کہا ہے کہ فروتنی کا حکم جب سردار و مخدوم کو اپنے خادموں کے مقابلہ میں مل رہا ہے تو خادموں، مریدوں، شاگروں کو تو اپنے بزرگوں، مرشدوں، استادوں کے حضور میں کہیں زیادہ فروتنی کے ساتھ رہنا چاہیے!
مفسر تھانویؒ نے کہا ہے کہ: ”خفض جناح“ کی صورتیں دو ہیں۔ ایک تو وہ جو اطاعت سے پیدا ہوتی ہے۔ جیسے اولاد کی فروتنی والدین کے مقابلہ میں۔ دوسری وہ جو شفقت سے پیدا ہوتی ہے، وہی یہاں مقصود ہے۔ (تفسیر ماجدی)
(۳) اِذۡہَبَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ اِنَّہٗ طَغٰی. فَقُوۡلَا لَہٗ قَوۡلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوۡ یَخۡشٰی. (سورۂ طہ: ۴۴,۴۳)
ترجمہ: دونوں فرعون کے پاس جاؤ، وہ حد سے آگے نکل چکا ہے۔ جاکر دونوں اس سے نرمی سے بات کرنا، شاید وہ نصیحت قبول کرے، یا (اللہ سے) ڈر جائے۔
تفسیر: مفتی محمد شفیع صاحبؒ ”ادع الی سبیل ربک“ کی آیت کے تحت فرماتے ہیں:
”یہ ہر داعی حق کو ہر وقت سامنے رکھنا ضروری ہے کہ فرعون جیسا سرکش کافر؛ جس کی موت بھی علم الہی میں کفر ہی پر ہونے والی تھی؛ اس کی طرف بھی جب اللہ تعالیٰ اپنے داعی کو بھیجتے ہیں تو نرم گفتار کی ہدایت کے ساتھ بھیجتے ہیں۔
آج ہم جن لوگوں کو دعوت دیتے ہیں وہ فرعون سے زیادہ گمراہ نہیں، اور ہم میں سے کوئی موسیٰ و ہارون علیہما السلام کے برابر ہادی و داعی نہیں۔ تو جو حق تعالیٰ نے اپنے دونوں پیغمبروں کو حکم نہیں دیا کہ مخاطب سے سخت کلامی کریں، اس پر فقرے کسیں، اس کی توہین کریں، وہ حق ہمیں کہاں سے حاصل ہوگیا؟
قرآن کریم انبیاء علیہم السلام کی دعوت وتبلیغ اور کفار کے مجادلات سے بھرا ہوا ہے، اس میں کہیں نظر نہیں آتا کہ کسی اللہ کے رسول نے حق کے خلاف ان پر طعنہ زنی کرنیوالوں کے جواب میں کوئی ثقیل کلمہ بھی بولا ہو!“ (معارف القرآن)
(۴) اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ اِنَّ ربک ہو اَعۡلَمُ بِمَنۡ ضَلَّ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ وَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُہۡتَدِیۡنَ. (النحل: ۱۲۵)
ترجمہ: ”اپنے رب کے راستے کی طرف لوگوں کو حکمت کے ساتھ اور خوش اسلوبی سے نصیحت کر کے دعوت دو، اور (اگر بحث کی نوبت آئے تو) ان سے بحث بھی ایسے طریقے سے کرو جو بہترین ہو۔ یقیناً تمہارا پروردگار ان لوگوں کو بھی خوب جانتا ہے جو اس کے راستے سے بھٹک گئے ہیں، اور ان سے بھی خوب واقف ہے جو راہ راست پر قائم ہیں“۔
تفسیر: ”موعظت حسنہ“ موثر اور رقت انگیز نصیحتوں سے عبارت ہے، جن میں نرم خوئی اور دلسوزی کی روح بھری ہو۔ اخلاص، ہمدردی اور شفقت و حسن اخلاق سے خوبصورت اور معتدل پیرایہ میں جو نصیحت کی جاتی ہے، بسا اوقات پتھر کے دل بھی موم ہوجاتے ہیں، مُردوں میں جانیں پڑجاتی ہیں۔ ایک مایوس و پژمردہ قوم جھر جھری لے کر کھڑی ہوجاتی ہے، لوگ ترغیب و ترہیب کے مضامین سن کر منزل مقصود کی طرف بیتابانہ دوڑنے لگتے ہیں، اور بالخصوص جو زیادہ عالی دماغ اور ذکی و فہیم نہیں ہوتے مگر طلب حق کی چنگاری سینے میں رکھتے ہیں، ان میں موثر وعظ و پند سے عمل کی ایسی اسٹیم بھری جاسکتی ہے جو بڑی اونچی عالمانہ تحقیقات کے ذریعہ سے ممکن نہیں۔ (تفسیر عثمانی)
احادیث:
(۱) مسلم شریف میں روایت ہے کہ: ”اللہ تعالیٰ نرم ہیں، اور نرمی کو پسند فرماتے ہیں، اور نرمی کرنے پر اتنا دیتے ہیں جتنا سختی کرنے پر نہیں دیتے، اور نہ اس کے علاوہ کسی اور اچھی صفت پر اتنا دیتے ہیں“۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ لوگوں کے ساتھ نرمی سے پیش آنا اور سختی کا رویہ اختیار نہ کرنا بھی ایک خوبی ہے جس سے معاشرہ کو رونق ملتی ہے۔ پس جو لوگ خیال کرتے ہیں کہ سختی کے بغیر کام نہیں چلتا، انکا یہ خیال صحیح نہیں، بلکہ مسلم شریف میں یہ بھی روایت ہے کہ جوشخص نرمی کی صفت سے محروم کیا گیا وہ ہر خیر سے محروم کیا گیا۔ (تحفۃ الالمعی/ جلد خامس/ ابواب البر والصلۃ)
(۲) ”حضرت مقدام اپنے والد شریح سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہؓ سے دریافت کیا کہ جنگل میں جانا کیسا ہے؟ انہوں نے فرمایا: آنحضرت ﷺ ان نالوں کی جانب جنگل میں تشریف لے جاتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ نے جنگل تشریف لے جانے کا ارادہ کیا تو میرے پاس ایک اونٹنی بھیجی جس پر سواری نہیں ہوئی تھی زکوۃ کے اونٹوں میں سے، اور فرمایا: اے عائشہ! نرمی کیا کرو، کیونکہ جس چیز میں نرمی ہوتی ہے وہ اس کو زینت دیتی ہے، اور جس سے نرمی نکل جاتی ہے اس کو عیب دار بنا دیتی ہے“۔
اندازہ کیجئے کہ جب بدکنے والی سرکش سواری کے لیے نرمی و عدم گرمی کا حکم ہے، تو طلبہ و طالبات سے، اساتذہ ومعلمات سے، بنین و بنات سے، اولاد و احفاد سے، بلکہ پوری اشرف المخلوقات سے کس برتاؤ کا حکم اور معاملہ ہم سے مطلوب ہے۔ فاعتبروا یا اولی الابصار (انعام المعبود شرح ابوداؤد/ کتاب الادب)
(۳) حضرت ابو الدرداءؓ آنحضرت ﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ: جس شخص کو نرمی کا حصہ مل گیا، اس کو خیر کا حصہ مل
گیا، اور جو شخص نرمی کے حصے سے محروم رہا، وہ خیر کے حصے سے محروم رہا۔
تشریح: یعنی اگر یہ اندازہ کرنا ہو کہ فلاں آدمی میں کتنی خیر اور بھلائی ہے، تو یہ دیکھو کہ اس کے مزاج میں کتنی نرمی ہے، پس جس قدر کسی کو نرمی سے حصہ ملا ہو اسی قدر اس کو خیر سے حصہ ملا ہے، اور جو شخص جس قدر نرمی سے محروم رہا اسی قدر خیر سے محروم ہے۔ (معارف نبوی/ جلد اول/ کتاب الاخلاق)
(۴) حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: آسانی کرو، سختی نہ کرو، خوش خبری دو اور نفرت نہ دلاؤ۔ (بخاری و مسلم)
تشریح: حدیث بالا میں بھی داعیان تبلیغ کو ایک اہم اصول کی طرف متوجہ کیا جا رہا ہے کہ دعوت کا کام کرنے والے نرمی اور آسانی کا معاملہ کریں، کہ نرمی اور آسانی سے ہی لوگوں کو قریب کیا جا سکتا ہے، اگر سختی کی جائے گی تو اس سختی سے لوگ دور بھاگیں گے، تو دین کا کام پھر نہیں کیا جاسکے گا۔ علاوہ ازیں اسلوب ایسا نہ ہو جس سے نفرت پیدا ہو، بلکہ ایسا ہو جس سے بشارتیں معلوم ہوں۔ (روضۃ الصالحین شرح ریاض الصالحین/ جلد سوم/ ص: ۱۱۱)
(۵) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مجھے لوگوں کے ساتھ نرمی اور اخلاق سے پیش آنے کا حکم فرمایا جیسے کہ مجھے فرائض کی ادائیگی کا حکم فرمایا۔ (تفسیر در منثور مترجم)
(۶) سید نا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں ایسے لوگوں کی خبر نہ دوں جو جہنم کی آگ پر یا جہنم کی آگ ان پر حرام ہے؟ یہ ہر اس شخص پر حرام ہے جو لوگوں کے قریب رہنے والا، نرمی کرنے والا اور آسانی کرنے والا ہے“۔ ترمذی/ کتاب صفۃ القیامۃ/ رقم: ۲۴۸۸)
واقعات
(۱) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نے مسجد میں پیشاب کر دیا، لوگ اس کی طرف دوڑے تا کہ اس کو ماریں، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس کو چھوڑ دو اور اس کے پیشاب پر پانی کا ایک ڈول بہا دو، اس لئے کہ تم آسانی کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہو، سختی کرنے والے بنا کر نہیں بھیجے گئے ہو۔“ (بخاری)
(۲) ایک بزرگ اپنے دوستوں کے ہمراہ کہیں جارہے تھے، راستہ میں ایک شخص کو دیکھا، اس کا پائجامہ ٹخنوں سے نیچے ہو گیا ہے، ان کے ساتھیوں نے چاہا کہ ان پر سختی کریں، ان بزرگ نے انہیں منع کیا اور فرمایا کہ: آپ لوگ خاموش رہیں پس اس کام کو میرے حوالے کر دیجئے۔ چنانچہ اس کے پاس گئے اور نہایت ہی نرمی سے کہا کہ: میرے بھائی! مجھے تم سے ایک حاجت ہے، وہ بھی نہایت اخلاق سے متوجہ ہوئے اور کہا کہ فرمایئے چچا جان! کیا خدمت میرے لائق ہے؟ ان بزرگ نے فرمایا کہ: اگر تم اپنا پائجامہ کچھ اونچا کر لو تو بہت ہی بہتر اور پاکیزہ ہو، اس نے کہا کہ آپ کا فرمانا سر آنکھوں پر، لیجئے ابھی کئے لیتا ہوں، اور ہمیشہ آپ کا احسان مند رہوں گا۔
اس کے بعد ان بزرگ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ: دیکھا! اگر تم سختی کرتے تو اس کی جہالت اور زیادہ ہو جاتی اور مقصد بھی حاصل نہ ہوتا۔ (اسوۃ الصالحین مترجم/ شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ/ ص ۲۴۰)
الغرض! حضور اکرم ﷺ نے جن اخلاق کو اختیار کرنے کی تاکید فرمائی ہے، اور جنہیں خاص اہمیت حاصل ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ انسان لوگوں کے ساتھ نرمی سے پیش آئے، سختی کا رویہ اختیار نہ کرے۔ کیوں کہ نرم مزاجی سے دنیا اور آخرت کی بھلائیاں حاصل ہوتی ہیں، نرم مزاج شخص جسطرح اللہ تعالیٰ کومحبوب ہے، اسی طرح لوگوں کو بھی محبوب ہوتا ہے، اس کے تعلقات کا دائرہ بہت وسیع ہوتا ہے، اگر وہ کسی ہنر کا مالک ہو تو لوگ اس سے بڑی آسانی سے استفادہ کرتے ہیں۔ جب کہ سخت مزاج آدمی اللہ تعالیٰ کو نا پسند ہے، اور لوگ بھی اسے پیار و محبت کی نظر سے نہیں دیکھتے، اور دنیا و آخرت کی بہت سی بھلائیوں سے وہ محروم ہو جاتا ہے، اس لئے آدمی کو اپنے مزاج میں نرمی اختیار کرنی چاہئے، یہی کامیابی کا راز ہے۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ سختی کسی بھی درجہ میں مفید نہیں ہے، وہ بھی مفید ہے، بعض مواقع پر تو بغیر سختی کے معاملہ حل ہی نہیں ہوتا، مگر نرمی کو بہر حال فضیلت حاصل ہے۔ غور کریں کہ بارگاہ نبوت میں مخالفین بھی حاضر ہوتے اور منافقین بھی، مگر آپ ﷺ بڑے با وقار اور عزت و تمکین سے پیش آتے۔ اُن کی شرارتوں اور سازشوں کے باوجود آپ ﷺ اپنی عالی ظرفی اور بلند اخلاقی کا اظہار فرماتے، کبھی بھی بدخوئی اور گلہ و شکوہ نہ فرماتے۔ باوجود محتاط رہنے کے کسی سے اپنی خندہ پیشانی اور خوش خلقی کو نہیں ہٹاتے تھے۔ لہذا ہمیں بھی اپنے حبیب ﷺ کا اسوہ اپنانا چاہیے۔
اللہ تمام مسلمانوں کو نرم مزاجی کی صفت سے متصف فرمائے، آمین
ازقلم: عبدالاحد بستوی
امام و خطیب مسجد عمر بن خطابؓ ڈون، ضلع نندیال، آندھرا پردیش