حملوں کا مصنوعی خوف اورتقسیم بھارت کی پلاننگ

تحریر: طارق انور مصباحی
تحریک آزادی کے عہد میں آرین قوم کا تین طبقہ تھا:ایک طبقہ مسلمانوں کو محکوم بناکر ملک میں رکھنے کا قائل تھا۔دوسرے طبقے کو خوف تھا کہ مسلمان بھارت میں رہیں گے اور ہندواکثریت ان پر ظلم کرے گی تو مسلم ممالک بھارت پر حملہ کردیں گے، اس لیے ان کو الگ ملک دے دیا جائے۔ تیسرا طبقہ مسلمانوں کو بھارت سے ملک بدر کرنے کی تیاری کررہا تھا۔ مشہور مؤرخ تاراچند (1888-1973)   نے ہند ومہاسبھا کے فاؤنڈرلا لہ لاجپت رائے (1865-1924) سے متعلق لکھا کہ لا جپت نے 1925میں سی آر داس کوخط میں لکھا: 
”پچھلے چھ مہینوں میں میں نے اپنا بیشتر وقت مسلم تاریخ اور مسلم قانون کے مطالعے میں صرف کیا ہے اورمیری سمجھ میں آتا ہے کہ یہ (ہندومسلم اتحاد)شاید ممکن نہ ہوسکے گا نہ قابل عمل۔یہ مانتے ہوئے کہ عدم تعاون کی تحریک میں مسلمان لیڈر بہت پرخلوص رہے ہیں،میں سمجھتا ہوں کہ ان کا مذہب اس قسم کی چیز(اتحاد)کے لیے ایک مؤثر سدراہ ہے……تواب علاج کیا ہے؟میں ہندوستان کے سات کروڑ مسلمانوں سے خوفزدہ نہیں ہوں،بلکہ سات کروڑ کے ساتھ ساتھ ترکی،عراق،عرب،وسط ایشیا اور افغانستان کی مسلح افواج کا مقابلہ کرنا مشکل ہوگا۔میں ایمانداری اور خلوص کے ساتھ ہندومسلم اتحاد کی ضرورت اور حاجت میں یقین رکھتا ہوں۔میں مسلمان لیڈروں پر پورا اعتماد کرنے کے لیے بھی تیار ہوں،لیکن قرآن اورحدیث کے جواحکامات ہیں،ان کے متعلق کیا کیا جائے“۔ 
”لاجپت رائے نے اپنا حل ان الفاظ میں پیش کیا:”میری تجویز یہ ہے کہ پنجاب کو دوصوبوں میں تقسیم کرنا چاہئے۔مغربی پنجاب جس میں مسلمانوں کی بڑی اکثریت ہے،ایسا صوبہ ہو جس میں مسلمانوں کی حکومت ہو، اور مشرقی پنجاب میں جہاں ہندو اور سکھ لوگوں کی اکثریت ہے،غیر مسلموں کی حکومت ہو۔…………میں یہی مشورہ ان لوگوں (بنگالیوں کے معاملے میں نہ دوں گا،لیکن اگر بنگالی مسٹر داس کا معاہدہ ماننے کو تیار ہیں تومجھے کچھ کہنا نہیں ہے)…………میری اسکیم کے تحت مسلمانوں کو چار ریاستیں مل جائیں گی:(1)پٹھانوں کاصوبہ،یعنی شمال مغربی سرحدی صوبہ (2)مغربی پنجاب (3)سندھ اور (4)مشرقی بنگال“۔
ہندوستان کی تقسیم کیمبرج یونیورسٹی کے نوجوان مسلمان طلبہ کے زرخیز تخیل کی پیداوار نہیں تھی،نہ اقبال کے تصور کی، بلکہ ایک غیر معمولی طورپر حساس، زبردست ہندو فرد کے ذہن کی اُپج تھی۔
مسلمان ہندؤں سے اس معاملے میں پیچھے نہ تھے کہ وہ اپنے ذہنوں میں خیالی ہوّے پیدا کریں اوران سے خوف زدہ ہوں۔ ان میں سے بیشتر کوتویقین تھا کہ ہندوستان میں ہندواکثریت کا مطلب یہ ہوگا کہ ان لوگوں کا ہربات میں غلبہ ہوجائے گا،یعنی آبادی، کلچر،مذہب اورعہدوں پر اس قدر چھا جائیں گے کہ اس ملک میں اسلام کا نام ونشان تک باقی نہیں رہے گا۔بعض دیگرلوگوں کو پختہ یقین تھا کہ ہندو لوگ مسلمان مردوں،عورتوں اوربچوں کو ہندوستان سے باہر نکال دیں گے۔
مسلم لیگ کے صدر عبد الرحمیم نے کہا تھا:”بعض ہندو لیڈروں نے عام پبلک میں کہا کہ وہ ہندوستان سے مسلمانوں کو اسی طرح باہر نکال دیں گے، جس طرح اسپین کے لوگوں نے مورو لوگوں کواسپین سے نکال باہر کیاتھا“۔
ظاہر ہے کہ دونوں وسوسوں اور توہمات میں گرفتار تھے۔ اس مرض کا علاج تو کوئی ماہرنفسیات تدبیروں سے کرسکتا تھا“۔ (تاریخ تحریک آزادی ہند (تارا چند): جلد 4 ص505،506-قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان:دہلی-ترجمہ:از،ڈاکٹر ایم ہاشم قدوائی:علی گڑھ)
نوٹ: ہندولیڈروں کا یہ وہم کہ مسلم ممالک بھارت پرحملہ کردیں گے۔ یہ وہم ہی ثابت ہوا۔آج تک کسی مسلم ملک نے بھارت پر حملہ نہیں کیا۔ ہاں،ان کا جویہ خیال تھا کہ ہندولوگ اکثریت کے غرورمیں مسلمانوں پر ظلم کریں گے،توظلم وستم کا سلسلہ انگریزوں کے عہد سے تاامروزجاری ہے۔مسلمانوں نے جو خطرات ظاہر کیے تھے کہ ہمیں ملک بدرکرنے کی سازش ہوگی اورعہدوں وثقافت پر ہندو اکثریت چھا جائے گی تووہ آج سچ ثابت ہورہا ہے۔(1)اسلام کومٹانے ”اسلام مکت بھارت“کا نعرہ (2) مسلمانوں کو اپنی ثقافت سے دستبر دار ہوکر ہندتو کوقبول کرنے کے لیے ”کامن سول کوڈ“کے نفاذکی کوشش(3)اہم عہدوں پر آرایس ایس کے لوگوں کا قبضہ۔۔۔
دراصل برهمن قوم كواكبر بادشاه كي طرح مسلمانون كي تلاش تهي جو وحدت اديان كاقائل ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے