فراغت،ملازمت،عجزوانکساری اور غلامی

تحریر: طارق انور مصباحی
اپنے بھی ناراض ہیں بیگانے بھی ناخوش      میں ”زہرہلاہل“کوکبھی کہہ نہ سکا قند
سناتن دھرم میں ذات پات کا نظام ہے۔اس نظام میں چاربڑے طبقات ہیں۔ آرین قوم کے تین طبقے ہیں اورچوتھا طبقہ شودروں کا ہے۔کاسٹ سسٹم میں تمام شودر، آرین قوم کے پیدائشی غلام ہیں۔ان کوحیوانوں سے بھی بدتر سمجھا جاتا ہے۔عہد حاضر میں مدارس اسلامیہ کے فارغین کوبھی شودروں کی سی کیفیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مدارس اسلامیہ کے فارغین،مساجدومدارس میں ملازمت کرتے ہیں۔ چوں کہ مدارس اسلامیہ میں کسب معاش کے لیے کوئی ہنر یا دست کاری سکھائی نہیں جاتی،اس لیے فارغین کو مساجدومدارس تک محدودہونا پڑتا ہے۔ 
مساجدومدارس کی کمیٹی اور ذمہ داران بھی اس حقیقت سے واقف وآشنا ہوتے ہیں،اس لیے وہ بھی فارغین کو اپنا محتاج ہی سمجھتے ہیں۔فارغین بھی حالات کے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھال لیتے ہیں۔بعض لوگ خود کوتواضع سے غلامی کی منزل تک ترقی دے جاتے ہیں۔یہ ان کی فطرت اصلیہ بھی ہوسکتی ہے،اور ماحول کے اعتبارسے فطرت ثانیہ بھی۔گرچہ یہ لوگ کمیٹی اور ذمہ داران کے سامنے انتہائی تواضع وانکساری اختیار کرتے ہیں کہ کہیں ہمیں ملازمت سے برطرف نہ کردیا جائے،لیکن یہی لوگ دوسروں کے سامنے غرور وتکبر کے اونٹ پرسوار ہوکر آتے ہیں:  
صدرالشریعہ علامہ امجدعلی اعظمی (۸۷۸۱؁ء-۸۴۹۱؁ء)نے ”مسائل افتا“ کی بحث میں تحریر فرمایا:
”اس زمانہ میں کہ علم دین کی عظمت لوگوں کے دلوں میں بہت کم باقی ہے،اہل علم کو اس قسم کی باتوں کی طرف توجہ کی بہت ضرورت ہے، جن سے علم کی عظمت پیداہو۔اس طرح ہرگزتواضع نہ کی جائے کہ علم واہل علم کی وقعت میں کمی پیدا ہو۔ سب سے بڑھ کر جوچیزتجربہ سے ثابت ہوئی،وہ احتیاج ہے۔جب اہل دنیا کو یہ معلوم ہوا کہ ان کو ہماری طرف احتیاج ہے،وہیں وقعت کاخاتمہ ہوا“۔(بہارشریعت ج۲۱ص۲۱۹-مجلس المدینۃ العلمیہ)
جو قوم کے امام ورہنما ہیں،ان کو مثل غلام سمجھا جائے توپھر قوم پر ان کی تعلیمات کا کیااثر ہوگا؟جو لوگ خود کو غلامی کی منزل تک نہ لے جاسکیں،ان کو مشکلات کا سامنا پڑتا ہے۔ بہت سے خود دار قسم کے فارغین ہرسال /دو سال پر نقل مکانی کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک طرف چند علما کی خود داری ہے تو دوسری طرف چاپلوسی کی گر م بازاری۔ 
 مدارس اسلامیہ کے ناظم وصدرمدرس بھی عموماً کسی اسلامی مدرسہ کے فارغ التحصیل ہوتے ہیں،لیکن وہ بھی اپنے ادارہ کے مدرسین واساتذہ کو شودر وں کی طرح غلام ہی سمجھتے ہیں۔ یہ ناظم وصدر مدرس بھی کمیٹی کے سامنے بھیگی بلی کی طرح سمٹے ہوئے،……دم دبائے اور نئی نویلی دلہن کی طرح لجاتے شرماتے آستانہ بوسی کو حاضر ہوتے ہیں۔یہ لوگ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہیں،بلکہ گرگٹ کوبھی مات دے جاتے ہیں۔اے فکرپلید! تجھ پر افسوس ہے۔
موجودہ حالات یقینا قابل اعتراض ہیں۔ان غلط حالات کے سبب حق گوئی سے بھی محرومی ہوتی ہے۔ ہر امام ومدرس کو اسی طریقے پر کاربند ہونا پڑتاہے،جس کو ذمہ داران پسند کرتے ہیں،گرچہ وہ بات غلط ہی ہو۔کیرلا کے مدارس میں چاپلوسی،چمچہ گیری اور غلامی کا کوئی تصورنہیں۔ہاں،چند حنفی مدرسین نے وہاں بھی خود کو ان صفات عظیمہ سے متصف کررکھا ہے۔یہ وہاں کے ماحول کا مطالبہ نہیں ہے،بلکہ ان حنفی مدرسین کی قلبی تمنائیں ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے