محمد نثار نظامی
بر صغیر ہندوپاک میں انیسویں صدی کے اوائل سے بیسویں صدی کے نصف اول تک کا عہد سیاسی علمی اقتصادی اور معاشرتی اعتبار سے بڑا پر آشوب عہد گزرا ہے،ایک تو سلطنت کے خاتمے کا المیہ ہے،دوسرا معاشرتی ڈھانچوں کی شکست و ریخت کا تھا ،تیسرا مذہبی فکرو عقیدے کے نظام پر حملہ تھا جو نصرانیوں اور غیر مسلموں کی طرف سے جاری تھا لیکن یہ بھی اللہ کی بہت بڑی مصلحت تھی کہ اس نے اپنے دین اور دینی علوم کے حفظ و بقاء کے لئے ہندوستان کے گوشے گوشے میں ایسے عالم،فقیہ اور مجتہد پیدا کیے کہ بلاد اسلامیہ میں انکی نظیر نہیں ملتی ہے وہ اپنی مثال آپ ہیں،
ایسے ہی نادر الوجود علماء میں حضور اعلیٰ حضرت عظیم البرکت مجدددین وملت کنز الکرامت جبل الاستقامت،شیخ الاسلام والمسلمین حجۃ اللہ فی الارضین الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ بھی تھے،جنہوں نے اپنی فقہی بصیرت اور علوم قرآن میں اپنی مہارت تامہ کی بنا پر مختصر سی مدت میں ایک ہزار سے زائد تصانیف پیش کیں،اعلی حضرت اس شخصیت کا نام ہے جن کی بارگاہ میں بڑے بڑے لوگ زانوۓ ادب طے کیا کرتے تھے مگر وہ کسی سرمایہ دار کے سامنے نہیں جھکے ،اعلی حضرت علم کے اس جبل شامخ کا نام ہے کہ اس سے ٹکرانا خود اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے حضور اعلیٰ حضرت کے علوم و فنون کا لوہا دنیا مان چکی ہے ،حضور اعلی حضرت کی ذات کو جس زاویہ سے دیکھا جائے آپ کی پوری زندگی اخلاص و للہیت اور تصلب فی الدین کا سر چشمہ نظر آتی ہے،آپ نے اپنی پوری زندگی سادگی اور تواضع کے ساتھ گزاری ،جن کی خاموشی میں شور علم ،فقیری میں امیری،اور سادگی میں شاہانہ جاہ و جلال نمایاں تھے،جنہو نے مذہب اسلام کی ترویج و اشاعت کے لئے اپنے جسم کی تمام تر توانائی صرف کردی،حق گوئی جن کا طرۂ امتیاز تھا،تقوی جن کا شعار تھا،
جنہوں نے نہ جانے کتنے گم گشتگان راہ کو ساحل ہدایت سے ہم کنار کیا،شدید مشکلات میں بھی آپ نے شریعت و استقامت کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا۔
حضور اعلیٰ حضرت نے شریعتِ مطہرہ پر آنے والے ہر وار کا جواب پتھر سے دیا ہے ،آپ ہمہ وقت گستاخان رسول سے نبرد آزمائی کے لئے مستعد رہتے تھے،آپ عرب و عجم کی یگانہ روزگار علمی ہستیوں میں سے ایک ہیں ،ان کے معاصر علماء میں ایک سے ایک علم و فضل کے آفتاب و ماہتاب موجود تھے لیکن حضور اعلیٰ حضرت کو جو مقام ان کے دور میں حاصل ہوا وہ ان کے کسی معاصر کو نہ مل سکا،یہ اس بات کی واضح برہان ہے کہ بارگاہ رسالت میں آپ کا عشق قبول فرما لیا گیا ہے،انہوں نے نام و نمود کے لئے یا مفاد دنیا کے لئے کوئی کام نہیں کیا بلکہ وہ ہمیشہ پرچم اسلام کی سربلندی اور خداو رسول کی رضاوخوشنودی کے لئے سرگرم عمل رہے،ان کی دلی تمنا ہمہ وقت یہی رہی کہ
کام وہ لے لیجیے تم کو جو راضی کرے
ٹھیک ہو نام رضا تم پہ کروڑوں درود
امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ نے ہر گروہ باطل کا بڑے احسن طریقے سے تعاقب فرمایا اور احقاق حق اور ابطال باطل کا فریضہ بھی انجام دیا ہے،آپ ہی کی مساعی جمیلہ کا یہ صدقہ ہے کہ آج ہندو پاک میں (الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول)کی صدائیں بلند ہورہی ہیں، آپ نے بارہ ہزار صفحات پر مشتمل فتاویٰ رضویہ تصنیف فرمائی جس پر آج ہندو پاک ہی نہیں بلکہ تمام براعظم کے مفتیان کرام و علمائے عظام کو فخر حاصل ہے ،حضور امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کا آفتاب علم و فضل و حکمت آسمان حق و صداقت پر پوری تابانی کے ساتھ کل بھی درخشاں تھا آج بھی ہے اوربفضلہ تعالیٰ آئندہ بھی رہے گا
رہے گا یونہی ان کا چرچا رہے گا
پڑے خاک ہوجائیں جل جانے والے
اعلی حضرت کی ولادت باسعادت: ١٤/جون (١٨٥٦ء)١٠/شوال المکرم (١٢٧٢ھ) ہےاور وفات : نومبر (١٩٢١ء) ٢٥/صفر المظفر (١٣٤٠ھ)ہے ———-
*عشقِ رسول*: حضور اعلی حضرت علیہ الرحمہ کی شخصیت ان کے فضل و کمال اور گراں قدر دینی و علمی خدمات سے بر صغیر ہندوپاک کے علاوہ اب تمام عالم بخوبی واقف ہوچکا ہے ،امام موصوف جہاں مختلف صفات کے حامل تھے وہیں آپ کی حیات پاک میں عشق مصطفی ﷺ ایک انمول اور نمایاں صفت ہے جس کی بنیاد پر آپ کو یہ مقام حاصل ہوا ،امام احمد رضا نے بے شمار علوم و فنون پر کتابیں اور فتاوی تحریر فرماۓ ،ماضی قریب میں نہ ان کی طرح کوئی فقیہ پیدا ہوا ،نہ اتنا عظیم المرتبت کوئی محدث ،لیکن ان کا عشق رسول ان کے علم و فضل پر غالب تھا ،وہ عشق کی ارفع و اعلیٰ منزل پر فائز تھے در حقیقت عشق مصطفوی وحب نبوی ہی دنیا و آخرت کی تمام کامرانیوں کا واحد اور مجرب سرچشمہ ہے ،امام موصوف حد درجہ ہوش مند تھے کہ خود کو دربار رسالت سے منسلک کر لیے،آں جناب کا مادی پیکر تو ہند میں رہا کرتا لیکن انکی روح ہمہ وقت دربار رسالت کی جاروب کشی میں منہمک رہتی تھی،ان کا قلب تصور نبوی میں مستغرق رہتا ،آپ تعظیم نبوی و عشق محمدی کے پیکر تھے ،آپ حضورﷺکے عشق میں ہمیشہ مستغرق رہتے تھے اور میں یہ کہ
وں تو بیجا نہ ہوگا کہ اگر عشق رسالت مجسم ہوتا تو احمد رضا فتح عالم بن کر چھا جاتا ،در حقیقت اعلیٰ حضرت کی ہی وہ ذات ہے جس نے امت مسلمہ کو عشق مصطفوی کی تعلیم دی
ڈال دی قلب میں عظمت مصطفی
سیدی اعلٰی حضرت پہ لاکھوں سلام۔
اعلی حضرت کے یہاں خاک طیبہ،خار صحرائے طیبہ،صبح طیبہ،باغ طیبہ،ہواۓ طیبہ غرض یہ کہ سگان کوچۂ مدینہ بھی محبوب و مرغوب ہیں ،وہ ان چیزوں کو جنہیں کوچہ حبیب سے ذرہ سی بھی نسبت ہے دارا و سکندر کی شہنشاہی اور جام جم کی جہانگیر سے زیادہ اہم سمجھتے ہیں ،انہیں اس گلی کا گدا ہونا باعث صدافتخار ہے ،اعلی حضرت کی نگاہ میں مدینہ پاک کی گلیاں نور سے معمور ہیں ،یہاں ابر رحمت گھر گھر برستا ہے ،یہاں اغنیاء کو بھی پناہ ملتی ہے ،یہاں نوری فرشتوں کی ٹولیاں آتی جاتی دکھائی دیتی ہیں۔
امام احمد رضا قدس سرہ کی اس کیفیت دل وجان سے عالم آگاہ ہے ان کے عشق رسالت کا چرچا غیروں کی محفل میں بھی ہے ،انہوں نے عشق رسول کا وہ درس دیاہے کہ دنیا سیکھا کرے ،اور عملاً عشق رسول اس طرح پیش فرمایا کہ دنیا دیکھا کرے ،وہ دربار رسالت میں جھوٹے احوال دکھانے سے ہر طرح متنفرو بے زار ہیں ،وہ اپنے آقا سرور انبیاء ﷺکو اپنی ہر کیفیت و حقیقت سے آگاہ اور باخبر جانتے ہیں ،
علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ کے متعلق امام عبدالوہاب شعرانی علیہ الرحمہ نے میزان الشریعۃ الکبری میں ذکر فرمایا ہے کہ پچہتر بار بیداری میں انہیں سید عالم ﷺ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا اور حضور اقدسﷺسے بالمشافہہ تحقیقات حدیث کی دولت پائی،
امام احمد رضا قدس سرہ خواب میں تو باربارزیارت جمال اقدس سیدعالم ﷺ سے شرف یاب ہوۓ ،مگر دوسری بار حج و زیارت کے موقع پر روضہ اطہر کے اندر خاص مواجہہ عالیہ میں درورد شریف پڑھتے گزرگئ ،پر مقصود میں باریابی نہ ہوسکی ،دوسرے روز افسردگی کے عالم میں ایک نعت کہی جس کا مطلع یہ ہے
وہ سوۓ لالہ زار پھرتے ہیں
تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں
مقطع میں عاشق مصطفی کا ناز اور ایک جلیل القدر ولی کا عرفان ،پھر بے کسی ومحرومی کا اظہار کچھ عجب انداز لیے ہوۓ نظر آتا ہے ،عرض کرتے ہیں۔۔۔
کوئی کیوں پوچھے تیری بات رضا
تجھ سے شیدا ہزار پھرتے ہیں
یہ نعت دربار اعظم میں عرض کرکے شوق دیدار میں مؤدب ومنتظر قلب و نظر فراش راہ کیے رہے تاآنکہ نصیبہ نے یاوری کی ،حجاب اٹھا ،اور عالم بیداری میں چشم سر سے حضور ﷺکی زیارت اور جمال جہاں آرا کے دیدار سے مشرف ہوۓ ۔یہ واقعہ ان کے کمال عشق و عرفاں کی واضح دلیل اور بارگاہ رسالت میں ان کی مقبولیت کا بین ثبوت ہے ،یہی وجہ ہے کہ ایک شامی بزرگ نے اما م احمد رضا قدس سرہ کے خاص یوم وفات پر خواب میں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جنازے کا انتظار کر رہے ہیں،
امام احمد رضا عشق رسول کی اس بلند منزل پر فائز تھے کہ وہ عشق رسول کی کسوٹی پر پرکھ کر شخصیتوں کا مقام و منصب متعین فرماتے تھے جس شخصیت میں عشق رسول جتنا زیادہ پاتے اس کے مقام و منصب کو اتنا ہی بلند سمجھتے اور مزید آپ کے دل میں اسکی تعظیم و تکریم بڑھ جاتی ۔
حضور اعلیٰ حضرت کے عشق نبی کاحال تو یہ تھا کہ لوگوں نے آپ سے عشق کرنا سیکھا اور آپ نے تو عشق رسول کو ایک منفرد اور انوکھا روپ دیا ،حضرت مفتی سید حامد علی جیلانی دہلوی تحریر فرماتے ہیں : "وہ فاضل بریلوی فنا فی الرسول کریم تھے ،اپنے محبوب کی شان میں ادنی گستاخی بھی برداشت نہ کرسکتے تھے ”
ضیاء المشائخ حضرت محمد ابراہیم فاروقی مجددی شور بازار قابل افغانستان کا ایمان افروز تأثر: "کہ مولانا امام احمد رضا خان قادری حضرت خاتم النبیین ﷺ کے عاشق صادق اور آں حضور کی محبت میں سرشار تھے ،ان کا دل عشق محمدی کے سوز سے لبریز تھا چنانچہ ان کے نعتیہ کلام اور نغمات اس حقیقت پر شاہد عادل ہیں ،مولانا کے اس کلام نے مسلمان مردوعورت کے دلوں میں عشق محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس نور کو روشن کردیا ہے”
حضرت صاحبزادہ ہارون رشید دربارۂ عالیہ موہڑہ شریف اس شمع عشاق کے بارے میں بیان کرتے ہیں : ” اعلیٰ حضرت بریلوی علیہ الرحمہ کا ہر قول ہر فعل عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح لبریز معلوم ہوتا ہے گویا خالق کل نے آپ کو احمد مختار ﷺ کے عاشقوں کے لئے شمع ہدایت بنایا ہے ،تاکہ ہر مشعل اس جادہ پر چلنے والوں کو تکمیل ایمان کی منزل سے ہمکنار کر سکے۔