ملک نیپال اور دعوت دین

تحریر: محمد طاسین ندوی
ملک نیپال جہاں ہم بود وباش کرتے ہیں  بہت خوبصورت اور سر سبز وشاداب  ،پہاڑوں کا دیس ہے یہاں کے پہاڑی باشندے سادہ لوح اور سادگی پسند ہیں سورج کے غروب ہوتے ہی وہ رات کا کھانا نوش کرکے اور اپنے گھروں میں محصور ہوجاتے ہیں اور ایسا کیوں نہ ہو پہاڑ کی آبادی بھی نشیب وفراز میں ہواکرتی ہے دوست و رفیق سے ملنا ایسے علاقے کے پاشندگان کے لئے ہمہ وقت مشکل ہوا کرتی ہے اسی لئے عموما وہ لوگ غروب آفتاب کے بعد عشائیہ سے فارغ ہوکر اپنے گھروں تک تو محدود ہوجاتے ہیں لیکن وہ نہایت زیرک، ذہین،مھذب،مثقف ،نرم خو اور جفاکش ہوتے ہیں ان کی خواتین مرد سے زیاد اجتہاد پسند اور جفاکش ہوتی ہیں پانی حاصل کرنے جانورں کے چارے کاٹنے پیادہ  پا کئی کئی کیلو میٹر طے کرتی ہیں ۔پانی کا مٹکا اور چارے کا گٹھر لیکر  بہت جفاکشی سے لشتم پشتم اپنی منزل مقصود تک پہنچتی ہیں.
پہاڑی باشندگان کی سادگی، سادہ لوحی کا یہ عالم ہیکہ عیسائی مشنریاں عیسائیت کی تبلیغ اور ترویج و اشاعت کا  کام بڑی برق رفتاری سے انجام دے رہے ہیں اور ہم مسلمان جس کے معرض وجود کا مقصد ہی دعوت تھا اور جسکو اسی کام کیوجہ سے خیر امت کے لقب سے ملقب کیا تھا وہ یکسر اسم بامسمی نہ رہا خصوصا ہم علماء نے تو اپنے کو کسی ایک ہی محاذ کے لئے قلعہ بند کرلیا  جو گنے چنے افراد اس کام پر لگے ہوئے تھے اس کی بھی ہمت شکشتہ نظر آرہی ہے اورایسا میری سمجھ سے اسلئے ہورہا ہیکہ ہم خود خانہ جنگی ،جاہ وجلال،منصب و مال کے چکر میں الجھ کر وہ عظیم ذمہ داری جو ہمارے سر تھی اسکو بھلا دیا اور چند افراد  و گروہ جس کو دعوت الی اللہ کیلئے  مختص  کیا تھا  ہمت افزائی نہ ہونے کیوجہ سے، حالات کے یکسر بدل جانے کی وجہ سے کنارہ کش ہوتے نظر آرہے ہیں ہم تو پہلے سے ہی اس کام سے منحرف تھے اب وہ گروہ بھی روگردانی کی راہ پر چل پڑے ہیں، سب کو اپنے کی فکر ہے ، ایک طرف مادیت کا دوردورہ ہے ، تو دوسری طرف علم بیزاری اچھی تعلیم سے آراستہ نہ ہوئے تو اچھے علماء جو امت کی درد و کرب میں جلے کڑھے بھنے کہاں سے وجود میں آئیں ؟  اگر ایسے افراد پیدا نہ ہوئے تو یقینی بات ہے اپنی فکر اپنے اہل و عیال اور اجارہ داری، جاگیر کی فکر اس کو لے ڈوبے گی اور وہ زبان حال سےکہے گا ـ
ع: ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے
قارئین کرام!  چلیے ایک نظر ڈالتے ہیں کہ وہ جمعیات ،ٹرسٹ،مؤسسہ، فاونڈیشن اور اکیڈمی جن کے یہاں باقاعدہ شعبۂ دعوت و ارشاد یا شعبۂ ختم نبوت قائم ہیں  وہ کہاں ہیں ؟ کیا انہیں نیپال کے حالات زار کا علم نہیں ؟ یقینا علم ہوگا کسی نہ کسی الجھن یامشاکل کیوجہ سے منظر عام پر نہ آرہے ہونگے تو سنئیے اور دل کے کانوں سے سنئیے اس کار خیر و عظیم کی ذمہ داری صرف انکے ہی سر  پر نہیں بلکہ ہمارے ناتوان کندھوں پر بھی عائد ہوتی ہے ہم اٹھیں کمر بستہ ہوں اور دیکھیں کہ نتائج کتنے خوش کن ہوتے ہیں. ان شاء اللہ تعالی
ع~ اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
      پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے 
اگر ہم نے دلچسپی نہیں لیا اس سادہ لوح لوگوں کو دین حق "اسلام "کی دعوت نہ دی اور اسے جہنم کی آگ سے بچانے کی فکر نہ کی تو خرامہ خرامہ  یہودیت،  قادیانیت،  شیعیت  الغرض اسلام مخالف افراد مدعیان ادیان ان کواپنے شکنجے میں پھنسا کر انکی آخرت کا ستیاناس تو کریں گے ہی لیکن ہماری زمین بھی اپنی  وسعت کے باوجود تنگ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے پھر ہمارے تشخص و امتیاز کی بقاء مشکل ترین ہوجائیگی ۔
ابھی وقت ہے ہم آگے بڑھیں ان تک دعوت دین کو پہنچائیں یہ انکا حق اگر آج ہم نے حق ادا نہیں کیا تو کل مسئول ہوں گے ۔ غفلت کی چادر کو دور پھینکیں اور  مدعیان ادیان کو ناکوں چنے چبوائیں اور سادہ لوح نیپالیوں کو واصل جہنم ہونے سے پچائیں یہ ہماری مسؤولیت ہے اور ذمہ داری ہے۔
راقم اللہ سے دعاگو ہیکہ اللہ تعالی اسے بھی اپنی دین کی خدمت کےلئے قبول کرے.آمین یارب العالمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے