تبصرہ: محمد ثناء الہدیٰ قاسمی، نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
حضرت مولانا نور الحق رحمانی استاذ المعہد العالی امارت شرعیہ کو اللہ رب العزت نے علم وعمل کی دولت سے مالا مال کیا ہے، فقہ، حدیث اور عربی زبان وادب پر ان کی گہری نظر ہے ، عرصہ دراز سے فقہی کتابوں کا درس ان کے ذمہ رہاہے ان دنوں وہ تدریب افتاوقضاء کے طلبہ کو مختلف علوم وفنون کا درس دیا کرتے ہیں، وہ استاذ الاساتذہ ہیں اللہ رب العزت نے ان کے وقت میں بڑی برکت عطا فرمائی ہے ، لغویات سے دو راور فضولیات سے نفور کی وجہ سے ان کا سارا وقت مطالعہ، تدریس، اصلاح معاشرہ کے خطابات وغیرہ میں گذرتا ہے، وقت میں برکت کی وجہ سے ہی، ڈیڑھ درجن سے زائد کتابیں انکی طبع ہو چکی ہیں، جن میں موسوعۃ فقہیہ کا اردو ترجمہ، اسلامی عدالت کا عربی ترجمہ ، نظام قضاء الاسلامی بھی شامل ہے، خواتین پر ان کی تین کتابیں سیرت عائشہ ، عورت اسلامی شریعت میں، نیز تعدد ازدواج حقائق کے آئینے میں طبع ہو کر مقبول ہو چکی ہیں۔
مولانا کی تازہ ترین تالیف’’ حج عشقِ الٰہی کا مظہر اور ایک جامع عبادت‘‘ ہے، نام تھوڑا طویل ہو گیا ہے ، لیکن اس طوالت کی وجہ سے نام سے کتاب کے مندرجات تک اجمالی رسائی ہو جاتی ہے ،’’ عشق ‘‘کا لفظ اتنا سو قیانہ ہو گیا ہے کہ اللہ، رسول اور متعلقہ عبادت کے ساتھ جوڑنے میں مجھے انشراح نہیںہوتا ، عشق کے سوقیانہ لفظ ہونے کی وجہ سے ہی ، اس حقیر کے ناقص مطالعہ میں قرآن واحادیث میں یہ لفظ استعمال میں نہیں آیا، حالاں کہ صحابہ کرام سے زیادہ جاں سپاری اور محبت میں وارفتگی کس کے پاس ہو سکتی ہے ۔
کتاب کے شروع میں کلمات تبریک امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم ، حرف چند نائب امیر شریعت حضرت مولانا محمد شمشاد رحمانی اور مقدمہ مولانا مفتی سعید الرحمن قاسمی مفتی امارت شرعیہ اور مولانا محمد ایوب نظامی ناظم مدرسہ صورت القرآن دانا پور کا ہے ، ان حضرات کی تحریروں میں مولانا کی علمی خصوصیات اور اس کتاب کی اہمیت کا ذکر ملتا ہے ، جس سے کتاب پڑھنے سے پہلے قاری کے ذہن میں اس کتاب کی اہمیت اور قدر ومنزلت بیٹھ جاتی ہے۔
کتاب در اصل پانچ مضامین کا مجموعہ ہے ، پہلا مضمون حج عشق الٰہی کا مظہر ، دوسرا حج ایک جامع عبادت، تیسرا سفر حج کا توشہ اور چوتھا عمرہ کا عملی طریقہ ہے، ان میں کے دو مضامین سفر حج کا توشہ اور حج ایک جامع عبادت نقیب میں طبع ہو چکا ہے ۔اور اس کے قاری کے لیے گاہے گاہے باز خواں کی طرح ہے۔
اس کتاب میں حج کے فضائل ومسائل پر تفصیلی مواد موجود ہے، اس سے عازمین حج کو حج کی ادائیگی میں سہولت ہوگی اور بہت سارے اعمال میں وہ غلطیوں سے بچ جائیں گے ، اس کتاب میں ایک چھٹا مضمون مدینہ منورہ کی زیارت کے حوالہ سے ہے جو مولانا کے صاحب زادہ مولانا فیض الحق قاسمی استاذ مدرسہ تحفیظ القرآن سمن پورہ ، راجا بازار پٹنہ کے قلم سے ہے اور قیمتی ہے، کاش مولانا مکہ میں جن مقامات کی زیارت کی خواہش ہوتی ہے، اس پر بھی روشنی ڈال دیتے تو تشنگی باقی نہیں رہتی ، یقینا شرعی طور پر وہ حج کا حصہ نہیں ہیں، لیکن آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے جُڑے سارے مقامات ہمارے لیے اہمیت کے حامل ہیں اور خواہش ہوتی ہے کہ سر کے آنکھو ں سے ان کی بھی زیارت ہوجاتی۔
مولانا نور الحق رحمانی صاحب چوں کہ زمانہ دراز سے عازمیں حج کی تربیت بھی کرتے رہے ہیں، اس لیے اس کتاب میںمولانا کی گفتگو کا بڑا محور وہ تجربات ہیںجو انہوں نے خود حج کے سفر سے حاصل کیے اور لوگوں کو مسائل سمجھانے کے درمیان جس کی ضرورت انہوں نے محسوس کی ، اس طرح یہ کتاب مختصر اور جامع ہے اور اس کی اہمیت وافادیت مسلم ہے، یہ عازمین کے لیے توشۂ حج اور مولانا کے لیے توشۂ آخرت ہے۔
کتاب کی اس اہمیت وافادیت کی وجہ سے کتاب کی ترتیب، پروف ریڈنگ اور سیٹنگ پر خصوصی توجہ کی ضرورت تھی، عموما کتاب میں مؤلف کا پیش لفظ پہلے اور تقریظ وتاثرات پر مشتمل مضامین بعد میں ہوتے ہیں، اس کتاب میں پیش لفظ درمیان میں آگیا ہے، شروع میں حضرت امیر شریعت اور نائب امیر شریعت کے کلمات تبریک اور حرف چند ہیں، پھر پیش لفظ کے بعد مولانا محمد ایوب نظامی کی تقریظ ہے، نائب امیر شریعت کے حرف چند میں ان کا نام مضمون کے آخر میں درج ہونے سے رہ گیا ہے ، سیٹنگ کے نقص کی وجہ سے کتاب کا حوض اور حاشیہ کا تراش وخراش بھی کم وبیش ہو گیا ہے ، پروف ریڈنگ میں اغلاط کثرت سے رہ گیے ہیں، اس کا آغاز صفحہ ۲؍ سے ہوتا ہے ، جہاں صفحات کی تعداد حروف میں ایک سو بتیس اور عدد میں ایک سو چھتیس درج ہے، مفتی سعید الرحمن صاحب کے مقدمہ اور کتاب کے دوسرے مندرجات میں بھی اغلاط کی کثرت ہے ،بعض جگہوں پر مولانا اس طرح کھوجاتے ہیں کہ انہیں اپنا سفر حج یاد آجاتا ہے اور وہ ایک جملہ لکھ کر دوسری بات شروع کر دیتے ہیں۔ اس عبارت کو دیکھیے۔
’’ ہر حاجی بسوں کا کرایہ پہلے ادا کرچکا ہوتا ہے پھر منی سے طواف زیارت کے لیے مکہ آمد ورفت بھی سرنگ ہی کے ذریعہ ہوئی اور آسانی سے دس ذی الحجہ کو چاروں عمل رات باہ بجے تک انجام پا گیے، پھر دس ذی الحجہ کا دن ‘‘۔( صفحہ ۶۵) اس طرح کی عبارتیں اس کتاب میں کئی ہیں، مولانا لکھتے لکھتے کھو جاتے ہیں، اپنے سفر حج کا تذکرہ کرنے لگتے ہیں، پھر معا خیال آتا ہے تو آگے بات شروع کر دیتے ہیں، یہ معاملہ جذب وکیف کا ہے، اس طرح کی عبارتوں کو اسی پس منظرمیں دیکھنا چاہیے، اس کا ایک دوسرا رخ اپنے تجربہ کا ذکر بھی ہے، پچاس روپے دے کر مکتبہ القاضی پھلواری شریف قاضی نگر سے اس کتاب کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔