ازقلم: مدثر احمد، شیموگہ ۔کرناٹک۔9986437327
کرناٹک کے منگلورومیں پچھلے دنوں مسعودنامی نوجوان پرہندوتوا تنظیموں سے تعلق رکھنے والے کچھ شدت پسندوں نے جان لیوا حملہ کرتے ہوئے شہید کردیاتھا۔اس نوجوان کی عمر محض19 سال تھی اور وہ بلاوجہ ہندوتوا تنظیموں کے ہاتھوں شہید ہوگیا۔اس کے کچھ دن بعد ہندوتوا تنظیم سے تعلق رکھنے والے پراوین نامی نوجوان کا قتل ہوااور اس نوجوان کے قتل کے بعد کرناٹک کے میڈیامیں پوری شدت کے ساتھ اس بات کو ابھارا گیاکہ پراوین ہندوتوا تنظیم کا نوجوان ہے اور ہندوتوا کیلئے کام کرنے والانوجوان تھا،بی جے پی کیلئے اس نے کئی قربانیاں دی ہیں۔اس تشہیرکے بعد کرناٹک کے وزیر اعلیٰ،کئی اراکین پارلیمان اور اراکین اسمبلی پراوین کے گھر پہنچے ،ان کے اہل خانہ کی مزاج پُرسی کی اور تعزیتی پیغام دینے کے علاوہ لاکھوں روپئے معاوضہ کےطو رپر حکومت، پارٹی اور انفرادی طور پر اداکئے جو کم وبیش ایک کروڑ روپئے سے زیادہ کی رقم ہے۔مسعود اورپراوین کے گھر ایک ہی علاقے میں ہیں اور دونوں کی موت کے پیچھے تنظیموں اور سیاست کا ہاتھ رہاہے۔لیکن مسعودکے اہل خانہ کو نہ حکومت نے کچھ دیا نہ ہی عوامی نمائندوں کی طرف سے ان کی مددکیلئے ہاتھ بڑھے۔کرناٹک میں ہی قریب چھ ماہ قبل شیموگہ ضلع میں ہرشانامی بجرنگ دل کے کارکن کا قتل ہواتھا،اس کے قتل کے بعد اس کے اہل خانہ سے تعزیت کرتے ہوئے کرناٹک کے تقریباً ایک درجن اراکین اسمبلی،آدھادرجن اراکین پارلیمان،وزیر اعلیٰ،سابق وزیر اعلیٰ سمیت کئی لوگوں نے کروڑوں روپیوں کی مالی امدادکی ہے،جس کاانداز ہ تقریباً10 کروڑ روپیوں تک لگایاجارہاہے۔ہرشاکے قتل کے بعد شیموگہ میں جو فسادات ہوئے تھے ان میں مسلمانوں کو بڑے پیمانے پر نقصان ہواتھا،لیکن حکومت کی طرف سے اس نقصان کی بھرپائی کیلئے پھوٹی کائوڑی تک نہیں دی گئی اورنہ ہی حکومت کا کوئی نمائندہ ان متاثرین کاحال پوچھنے پہنچا۔بس یہی فرق ہے کہ مسلمان کی موت کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور مسلمان کانقصان حکومتوں اور فرقہ پرست جماعتوں کے سامنے کوئی معنی نہیں رکھتا۔یہاں تک کے کرناٹک کی اپوزیشن جماعت کانگریس کی طرف سے بھی مسلمانوں کیلئے کسی بھی طرح کی امداد فراہم نہیں کی گئی ہے۔یہ بات تو طئے ہے کہ اس وقت بھارت میں ہندومسلم کا تعصب کھلےعام ہے،جس طرح سے پہلے کرکٹ میں انڈیا اور پاکستان کی ٹیم آمنے سامنے ہواکرتی تھی اور لوگ جوش میں رہتے تھے ،اسی طرح سے اب بھارت میں ہندومسلم کی دشمنی آمنے سامنے ہوچکی ہے،مگر بھارت کے ان اقلیتوں کیلئے خو د مسلمانوں کے دروزاے کھلے نہیں ہیں۔مسلمانوں کی قدآور اور طاقتور تنظیمیں موجودہیں،مسلمانوں کے ہزاروں مالدار اپنی تجوریوں میں اپنے مالوں کو محفوظ کئے ہوئے ہیں ،مگر ایسے نوجوان جو فسادات میں جاں بحق ہوجاتے ہیں یا پھر ظلم کا شکار ہوکر اپنی جانیں گنواں رہے ہیں ان نوجوانوں کے اہل خانہ کو کسی بھی طرح کی امداد فراہم کرنے میں مسلم تنظیمیں ناکام دکھائی دے رہی ہیں۔اتحاد اور اتفاق کی بات کرنے والی قوم ، اللہ کی راہ میں مال قربان کرنے والی قوم اور اللہ کے دین کے نام پر جان گنوانے والوں کے لواحقین کو امداد فراہم کرنے والی قوم آج اس قدر ناکارہ اور عیار بن چکی ہی ہے کہ اُنہیں جانیں گنوانے والوں کیلئے کسی بھی طرح کی مددکرنے کیلئے بھی ہاتھ بڑھانا گوارا نہیں ہورہاہے۔ہمارے سامنے ایسے کئی خاندان ہیں جن کے گھر کے بچے اور مرد فسادات کے دوران ناحق جانیں گنوائے ہوئے ہیں،ان کے چلے جانے کے بعد ان کے لواحقین سوائے عدالتوں کے چکرکاٹنے اورعدالتوں میں رسواء ہونے کے علاوہ کسی بھی طرح کی امداد نہیں پاسکے ہیں۔رسول اللہﷺ کی سوانح حیات کا حوالہ دیتے ہوئے مسلمان ولیمہ کی دعوت اور گوشت کی فضیلت تو بیان کررہے ہیں،لیکن اللہ کی راہ میں قربان ہونے والوں کیلئے اللہ کے نبی اور صحابہ کس طرح سے تعائون کیلئے آگے بڑھتے تھے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کررہاہے نہ ہی اس کی فضیلت بیان کرنا چاہ رہاہے اور جو لوگ مالدارہیں وہ صرف اور صرف اسٹیج کے دلدادہ ہیں،ان کیلئے اسٹیج پر کارِ خیر کرنے کے علاوہ اور کوئی کام دکھائی نہیں دے رہاہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان ان حالات میں امداد کرنے کیلئے علاقائی سطح پر تیار رہیں،کیونکہ آنے والاوقت مزید خطرناک ہوگااور بھی لاشیں گریں گی اور بھی تباہی ہوگی اور بھی گھر اُجڑینگے اور فرقہ پرست مزید مضبوط ہونگے،ان کا مقابلہ ہم سوشیل میڈیا میںتبصرہ کرنے سے نہیں بلکہ مالی ،افرادی اور ذہنی طور پر تیارہوکر کرسکتے ہیں۔خود آپ اپنے اطراف واکناف کاجائزہ لیں کہ کس طرح سے مسلمان ناگریز حالات میں مقابلے کیلئے تیارہیں؟۔